دنیا کے معروف ماہراقتصادیات ڈاکٹرڈیوڈ مارٹن نے کہا ہے کہ ''پاکستان کا ایک معاشی طاقت کے طور پر ابھرنا وقت کا تقاضا ہے۔ صنعتی دنیا کے مقابلے میں پاکستانی مارکیٹ انتہائی سستی ہے اور یہ دنیا کی دیگر مارکیٹوں کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ پاکستان ایشیا کے ان 9ممالک میں شامل ہے‘ جو آئندہ 35برسوں میں دنیا کے معاشی نقشے پر‘ ایک نئے چین کا اضافہ کریں گے۔ 2014ء میں ڈالر کی قدر میں استحکام کے حوالے سے‘ عالمی منڈی میں پاکستان کا کردار اہم رہا۔‘‘ انہوں نے کہا ''پاکستان کی10کروڑ سے زائد آبادی کی عمر 30سال سے کم ہے اور اتنی بڑی افرادی طاقت‘ اپنی زندگیوں میں تبدیلی کے لئے پرامید ہے۔ پاکستان کی ترقی وقت کا تقاضا ہے۔ پاکستان‘ ایران‘ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا جیسے ایشیائی ممالک کے مرکز میں واقع ہے اور آئندہ چند عشروں میں یقینی طور پر دنیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کرے گا۔‘‘ مجھے خوشی ہے کہ ایک عالمی ماہرمعیشت نے‘ پاکستان کے موجودہ حالات میں بھی ہمارے ملک کے ''یقینی روشن مستقبل‘‘ کی پیش گوئی کی ہے(انشاء اللہ) ۔میں پاکستان کے مستقبل سے کبھی مایوس نہیں رہا۔ جنرل ضیاالحق نے‘ جب مجھے الٹا لٹکانے کی دھمکی دی تھی‘ تو اس وقت مجھے سویڈن میں مقیم‘ ایک ممتاز پاکستانی لیڈر نے پیش کش کی تھی کہ تمہیں اقوام متحدہ کی پناہ مل سکتی ہے۔ اگر تم چاہو تو اپنی پسند کے ملک میں یو این کی طرف سے رہ سکتے ہو۔ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یو این بھی آمرانہ حکومتوں کے زیرعتاب افراد کو پناہ دیتی ہے۔ اگر میں پاکستان کے مستقبل سے اس تاریک دور میں مایوس ہوتا‘ تو یہ پیش کش کافی اچھی تھی۔ اس دنیا میں بہت سے ملک میرے پسندیدہ ہیں۔ لیکن میں نے پاکستان کے مقابلے میں‘ ان میں سے کسی کو بھی ترجیح نہیں دی۔میرا یقین ہے کہ جب ہم جنرل ضیاالحق کے تاریک ترین دور سے نکل آئے‘ تو موجودہ دور‘ جو ضیاالحق کی پالیسیوں کا پچھواڑہ ہے‘ باقی نہیں رہے گا۔
آج ایک چھوٹی سی خبر نے‘ مجھے پاکستان میں آنے والی روشنی کی ایک جھلک دکھائی۔ بات معمولی ہے۔ لیکن معمولی باتیں‘ اکثر اوقات بہت بڑی ثابت ہوتی ہیں۔ یہ خبر جنرل راحیل شریف کا ایک بیان ہے کہ'' ہم پاکستان میں کھیلوں کے احیا کے لئے کوشش کریں گے اور پاکستان میں ہاکی کا پہلا دور واپس لائیں گے اور پاکستان کو دنیا میں کھیلوں سے محبت کرنے والے ملک کی شناخت دلوائیں گے۔ ‘‘ یہ ایک ایسے ملک کے سپہ سالار نے کہا ہے‘ جو دنیا کی سب سے مشکل اور پیچیدہ جنگ لڑ رہا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ دشمن کہاں ہے؟ اس کے پورے ملک میں چوہوں کی طرح پھیلے ہوئے دشمن‘ اس کی سپاہ کی گھات میں رہتے ہیں۔ اس کے اہل وطن کو جب چاہیں اور جہاں چاہیں دھماکوں سے اڑا دیتے ہیں۔ دنیا میں بربریت اور درندگی کا سب سے بڑا واقعہ‘ اس کے شہر پشاور میں ہوتا ہے۔ واہگہ پر قومی پرچم کو رات سے پہلے‘ اتارنے کی تقریب دیکھنے کے شیدائی پاکستانیوں کو دھماکے سے اڑا دیا جاتا ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ ہوتا ہے۔ فوج کے اعلیٰ افسروں کو بارودی دھماکوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں اس کی فوج چھاپہ مار قاتلوں کا تعاقب کر رہی ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں چوہوں کی طرح‘ بلوں میں چھپے ہوئے مجرموں کو ڈھونڈنے میں لگی ہے۔ اسے مہینے میں کئی بار‘ اپنے شہیدوں کے جنازے پڑھنا پڑتے ہیں اور ابھی ابھی پشاور میں شہید ہونے والے فرزندان فوج کا ماتم کیا ہے۔ ایسے حالات‘ ایسی کیفیت اور المیوں کے اتنے بڑے ہجوم میں گھرا ہوا ایک کمانڈر‘ جب کھیلوں کی بات کرتا ہے‘ تو میں کیوں نہ اپنے شاندارمستقبل پر یقین کروں؟ میرا وطن واقعی بے مثال ہے۔ 20 کروڑ باہمت اور توانا انسانوں کا یہ ملک‘ جسے بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کی کرپشن نے‘ تباہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ وہ ہمیں اس بے رحمی سے لوٹ رہے ہیں ‘ جیسے چنگیزی فوجیں‘ مفتوح ملک کی رعایا کو لوٹا کرتی تھیں۔ پاکستان میں مچی ہوئی لوٹ مار کو‘ چنگیزی فوج کے بے رحم سپاہیوںکی کرتوتوں سے تشبیہہ دینا ‘بھی مجھے اچھا نہیں لگا۔ وہ مفتوحہ ملکوں کے عوام کو لوٹتے تھے۔ ان کی لوٹ مار اس جنگ کا صلہ ہوتا تھا‘ جسے لڑنے کے بعد‘ وہ مفتوحہ علاقوں میں داخل ہوا کرتے۔ ایسا کرنے سے پہلے‘ انہیں خون بہانا پڑتا تھا۔ اپنا بھی اور دشمن کا بھی۔ مفتوحہ شہروں میں انہیں خون میں چلتے اور گری ہوئی لاشیں پھلانگتے ہوئے داخل ہونا پڑتا تھا۔ لیکن ہمیں لوٹنے والوں نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ کوئی جنگ نہیں لڑی۔ کسی طرح کی قربانیاں نہیں دیں۔ اپنے خاندان میں سے کسی ایک شخص کی بھی قربانی نہیں دی۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ وہ ہم پر یہ تہمت لگا کر مسلط ہوئے ہیں کہ ہم نے انہیں ووٹ دیئے ہیں۔ کئی حلقوں کی دوبارہ گنتی سے ثابت ہو چکا ہے کہ ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی ہوئی ہے۔ ایسے ووٹوں کو تسلیم کر لیا گیا ہے‘ جو مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اترتے تھے، لیکن حکمران اسے دھاندلی ماننے کو تیار نہیں۔ وہ اسے بے ضابطگی کہتے ہیں۔ ماہرین قانون شور مچا رہے ہیں کہ بے ضابطگی کو ہی دھاندلی کہا جاتا ہے، لیکن حکمران تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ہر طرف مہنگائی کے جھکڑ چلا کر‘ ہمیں یہ بات منوانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مہنگائی میں کمی آ گئی ہے۔ خدا کے بندے اتنا رحم کرنے کو بھی تیار نہیں کہ مہنگائی میں مرتے ہوئے عوام کی تکلیف کو تسلیم ہی کر لیں۔ عوام مہنگائی سے کراہ رہے ہیں اور انہیں کہا جاتا ہے کہ ہم نے مہنگائی کم کر دی ہے۔ ہماری تعریف کرو۔ ہمارا احسان مانو۔ عوام کی تکلیفیں بڑھانے کا کام ‘شاہی دسترخوان کی استعمال شدہ پلیٹوں سے پیٹ بھرنے والے نام نہاد میڈیاپرسنز‘ لمبی لمبی تقریروں اور مضامین سے ‘کراہتے مصیبت زدگان کے زخموں پر نمک بھی چھڑکتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کسی ملک کے لوگوں کو ایسی بے رحمی کا شکار ہونا پڑا ہو گا؟ صدام حسین طاقت کے زور پر حکمرانی کرتا تھا۔اس نے اپنے الیکشن کو کبھی جماعتی الیکشن کا نام نہیں دیا ۔ شاہ ایران اپنے مخالفین کو کچل کر برملا کہتا تھا کہ یہ میرا خاندانی حق ہے۔ مصر میں ہمیشہ ایک ہی جماعت کی حکمرانی رہی اور وہ اپنی جمہوریت کو جماعتی سیاست سے مبرا رکھتے تھے۔ میں موجودہ عالمی صورتحال پر نظر ڈالتا ہوں‘ تو مجھے ایک بھی ایسا ملک نظر نہیں آتا‘ جہاں کے عوام ایسی صورتحال سے دوچار ہوں‘ جس میں آج پاکستانی عوام مبتلا ہیں۔ ہمارے ہاں آئین بھی ہے اور ووٹوں کی لوٹ مار سے مسلط ہونے والی حکومت بھی ہے‘ جو دعویٰ کرتی ہے کہ اسے عوام نے بھاری اکثریت سے منتخب کیا ہے اور پھر انہی عوام کے ساتھ وہ سلوک بھی کر رہی ہے‘ جس کا میں نے ہلکا سا تذکرہ مندرجہ بالا سطور میں کیا ہے۔ یہ حکومت‘ دہشت گردوں کو ختم کرنے کے بلندبانگ دعوے کر رہی ہے، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دعوے بالکل ایسے ہیں‘ جیسے کہ مہنگائی ختم کرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ دنیا کی کسی جمہوریت میں ‘ کوئی اسحق ڈار عرف سمدھی نہیں ہوتا۔ لیکن میں کس غلط راستے پر چل نکلا ہوں۔ ہمارا سپہ سالار ‘ جنگیں لڑتے اور شہدا کے جنازے پڑھتے ہوئے بھی ہمیں اپنے ملک کے قومی کھیل کے سنہرے دن واپس لانے کی نوید سنا رہا ہے اور میں اس بھنور کے دکھڑے سنانے بیٹھ گیا ہوں‘ جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھنور مستقل نہیںہوتا۔ ہمیشگی ‘ہمواری سے بہتے ہوئے پانیوں کی عادت ہے۔ یہ بھنور‘ جس میں ہمارے ملک پر قبضہ کرنے والے چند خاندانوں نے ہمیںدھکیل رکھا ہے‘ ہمارا مصروف جنگ سپہ سالار ‘ اسے حقارت سے نظرانداز کرتے ہوئے‘ مستقبل پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔وہ جس جنگ کی قیادت کر رہا ہے‘ اسے حقیر سمجھتے ہوئے اور جس بھنور میں ہم پھنسے ہیں‘ اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے‘ اچھی زندگی کا یقین دلا رہا ہے۔ تھینک یو! راحیل شریف۔آپ ہمیں یاد دلا رہے ہیں کہ پاکستانی قوم کا مزاج کیا ہے؟ حوصلے کتنے بلند ہیں؟ مستقبل پر ہمارے یقین کی طاقت کتنی ہے؟ جنرل صاحب! ہمارا پاکستان عظیم ہے۔ یہ آج کے لٹیرے‘ ہمارا مستقبل نہیں لوٹ سکتے۔ یہی پاکستان ہے‘ جس کے متعلق 60ء کے عشرے میں دنیا کہتی تھی کہ یہ جاپان کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ یہی پاکستان ہے‘ جسے آج کی زبوں حالی میں دیکھ کر بھی عالمی ماہر اقتصادیات ڈاکٹرڈیوڈ مارٹن نے کہا کہ ''پاکستان کا ایک معاشی طاقت کے طور پر ابھرنا‘ وقت کا تقاضا ہے۔‘‘