ایلیٹ فورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں قائم مقام گورنر پنجاب رانا اقبال نے وزیراعظم میاں نوازشریف کے ہاتھوں کا بوسہ لیا، مجھے قطعی حیرت نہیں ہوئی۔ یہ پنجاب کیا ،برصغیر اور عالم اسلام کا مخصوص کلچر ہے اور ترقیِ درجات کا نسخۂ کیمیاہے۔ اقتدار کا ہما جس خوش نصیب کے سر پہ بیٹھ جائے وہ مرجع خلائق اور مرکز عقیدت بن جاتا ہے اور پھر ؎
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
پاکستان کا قیام اگرچہ دور غلامی اور ملوکیت کے رسم و رواج ختم کرنے اور ایک آزاد، خود مختار، خود دار اور باوقار معاشرہ وجود میں لانے کے لیے عمل میں آیا، اقبال ؒ و قائد دونوں جانتے تھے کہ ؎
بنائیں کیا سمجھ کر شاخ گل پہ آشیاں اپنا
چمن میں آہ کیا رہنا، جو ہو بے آبرو رہنا
جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں
غلامی ہے اسیر امتیاز ما و تو رہنا
مگر بد قسمتی سے نیا ملک جلد ہی پشتینی جاگیرداروں ، وڈیروں، مخدوموں ، پیروں ، میروں ،تمنداروں اور سول و خاکی سرکاری عہدیداروں کی جولانگاہ بن گیا، انگریز کے وفاداروں ، ہر طاقتور کے سامنے کورنش بجا لانے کے عادی فنکاروں نے موقع پاتے ہی خوشامد و چاپلوسی کو اعلیٰ پائے کی صنف سخن اور عہدہ ومنصب میں آگے بڑھنے کی اچھوتی تکنیک بنا دیا۔ نوبت بانیجا رسید کہ بقول شاعر ؎
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
یہ شعر بھی انہی محمود سرحدی کا ہے ؎
جھوٹ کہتا ہوں اور بے کھٹکے
کون سچ کہہ کے دار پر لٹکے
جب تک ہمارے ہاں کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کا واحد پیمانہ علم و دانش تھا اور دیگر خدا داد ذہنی صلاحیتیں ، عزت نفس جنس گراں تھی اور انسانی شرف ووقار معاشرے کا قابل قدر سرمایہ۔ خوشامد اور چاپلوسی کا فن محض ایک قبیلہ تک محدود رہا جس کا یہ ذریعۂ روزگار تھا اور دوسروں کو چند ساعتوں کے لیے محظوظ کرنے کا بہانہ ۔ بے جا تعریف و توصیف اور مدح سرائی کو کوئی اچھا سمجھتا نہ اس پر کان دھرتا۔ مسلم لیگ کے ایک جلسے میں کسی عقیدت مند نے شہنشاہ معظم قائداعظم کا نعرہ لگایا تو کروڑوں مسلمانوں کے متفقہ لیڈر اور دلوں کی دھڑکن محمد علی جناح نے ٹوک دیا اور کہا :میں بادشاہ ہوں نہ پاکستان میں کسی قسم کی بادشاہت ہوگی۔ میں تو بس مسلمانوں کا وکیل اور خدمت گار ہوں۔
پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد پر کیا کیا الزام نہ لگا۔جمہوریت کش، تند مزاج اور سازشی مگر خوشامد سے اس بیورو کریٹ کو بھی نفرت تھی۔ ایک مرتبہ کسی خوشامدی نے اسے قائداعظم کا جانشین قرار دیا، غلام محمد غصہ سے لال پیلا ہوگیا، کہنے لگا :سب بکواس ہے قائداعظم یگانہ ٔ روزگارتھے ، ہم سب سے بہت بلند۔ ہم میں سے کوئی ان کی گرد کو نہیں پہنچ سکتا۔ ان کی عظمت میں کوئی بھی شریک ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا پھر یہ شعر پڑھا ؎
کردیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو
ورنہ ہم میں نہ تھا کوئی بھی یگانہ ہر گز
غلام محمد کو البتہ اس بات پر فخر تھا کہ میں رسول اکرم ﷺ کا ادنیٰ غلام ہوں ؎
نازم بہ نام خود کہ غلامِ محمد است
سیاست میں خوشامد کا تڑکا سکندر مرزا اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں لگا۔ کسی نے ایک سازشی اور فریب کار بیورو کریٹ کو قائداعظم سے بڑا لیڈر قرار دیا اور کسی نے ایوب خان کو ایشیا کا ڈیگال۔ یہ بحث ہونے لگی کہ ڈیگال اور ایوب خان میں سے کون زیادہ بلند مرتبت ہے۔ قد تو بہرحال ایوب خان کا بڑا تھا مگر کسی نے ہر گز نہ سوچا کہ ؎
بات کردار کی ہوتی ہے وگرنہ عارف
قد میں انسان سے سایہ بھی بڑا ہوتا ہے
جوں جوں پاکستانی سیاست میں بلند کردار انسانوں کا قحط پڑا، خوشامد کا کاروبار پھلنے پھولنے لگا اور نوبت بانیجا رسید کہ یہاں قائداعظم کے مقابلے میں قائد عوام اور قائداعظم ثانی کے نعرے گونجنے لگے ۔قائداعظم تو خیر پاکستانیوں کی قسمت میں ایک ہی تھا، کوئی ملک غلام محمد بھی نہ رہا جو یہ نعرے سن کر کہتا '' سب بکواس ہے‘‘ الٹا ان نعرے بازوں کے لیے انعام و اکرام واجب ٹھہرا ۔
1985ء میں میاں نوازشریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر عہدے کا حلف اٹھایا تو انہوں نے گورنر ہائوس سے بذریعہ جلوس حضرت داتا گنج بخش سید علی ہجویری ؒ کے مزار پر حاضری کا فیصلہ کیا ؎
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما
قبر انور پر فاتحہ خوانی کے بعد وزیراعلیٰ باہر آئے تو دربان نے انعام کے لالچ میں جوتا آگے رکھنا چاہا مگر ایک مخدوم صاحب نے اچک لیا اور اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبزادے سے کہا '' چچا کا جوتا سیدھا کرو،یہ موقع پھر کب ملے گا ‘‘۔ صاحبزادہ تھوڑا سا جھجکا مگر حکم '' والد ‘‘ مرگ مفاجات سمجھ کر جوتے آگے رکھ دیے۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ بزرگ نے کفش بوسی پر مجبور نہ کیا۔
غالباً 2004ء میں جب میاں شہبازشریف نے جلاوطنی ترک کرکے پاکستان واپس آنا چاہا تو کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں وطن واپسی اور پاکستان میں قیام کی اجازت دینے کے حق میں ہے۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں کو گماں گزرا کہ اگر میاں شہبازشریف وطن واپس آگئے تو مسلم لیگ کی مقبولیت اور سیاسی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور محترمہ کی جلاوطنی کے باعث پیپلزپارٹی گوشہ گمنامی میں چلی جائے گی۔ پے درپے وفود جاکر محترمہ سے درخواست کرنے لگے کہ وہ شہباز شریف سے پہلے وطن واپس چلی آئیں تاکہ مسلم لیگ کوئی سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ بی بی نے پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کو دبئی طلب کیا اور اپنی وطن واپسی کے حوالے سے رائے پوچھی۔ ایک نامور پارٹی رہنما نے جو بی بی کے ارادوںسے واقف تھے کہ آصف زرداری کی نظر بندی کی بنا پر وہ اپنے چھوٹے بچوں کو آیا کے سپرد کر کے وطن واپس نہیں آنا چاہتیں،اس موقع پر پہلے تو بھٹو خاندان سے اپنی وفاداری کا کلمہ پڑھا، اپنی قربانیوں کا ذکر کیا ،پھر گویا ہوئے۔
بی بی یہ پارٹی ‘یہ سیاست ‘اور یہ وطن بھٹو خاندان کا مقروض ہے۔ مجھے اس وقت پارٹی، سیاست اور وطن سے زیادہ آپ کی فکر ہے۔ آپ بلاول، بختاور اور آصفہ کو اکیلا چھوڑ کر وطن واپس آئیں مجھے ہرگز منظورنہیں۔ اگر ساری پارٹی اتفاق رائے سے فیصلہ کرے تب بھی میں آپ کو پاکستان آنے کی دعوت دوں گا نہ اجازت ،اور اگر آ پ نے فیصلہ کر لیا تو میں آپ کی گاڑی کے آگے لیٹ جائوں گا اور اسے گھر سے باہر نہیں نکلنے دوں گا،ہاں میری لاش سے گزر کر آپ ائیرپورٹ جا سکتی ہیں۔ بی بی نے یہ سن کر حاضرین کی طرف دیکھا اور اپنی بے بسی ظاہر کی کہ میں بھٹو کے عاشق اور پارٹی کے اس جاں نثار رہنما کی رائے کہ مسترد نہیں کر سکتی۔ چنانچہ سارے لیڈر منہ لٹکا کر واپس آگئے۔
بی بی عابد ہ حسین نے ایک بار میاں نوازشریف کی کابینہ کے بلبل ہزار داستاں وزیر کا ذکر کیا تھا جن کے خوشامدی جملوں سے اُکتا کر چندی بی بی نے پوچھا،بھائی آپ محلہ مراثیاں کے باسی ہیں کیا۔ سید فخر امام بی بی کی اس صاف گوئی پر ناراض ہوئے مگر موصوف نے زور دار قہقہہ لگاکر ٹال دیا۔
ضیاء الحق مرحوم کی آنکھوں کو ہیما مالنی کی آنکھوں سے تشبیہہ دینے اور جنرل پرویز مشرف کی روشن خیال جدیدیت کو پاکستان کے مسائل کا واحد حل قرار دینے کے علاوہ انہیں دس بار وردی میں صدر منتخب کرنے والوں کا تعلق بھی پیشۂ سیاست سے تھا اور آج یہی لوگ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں میں اپنے ہنر کا جادو جگا رہے ہیں۔ جو لیڈران کرام اپنے اپنے حلقہ نیابت میں عام آدمی سے ہاتھ ملانے اور اس کی بات سننے کے روادار نہیں، بہ امرِمجبوری ہاتھ ملانا پڑے تو کئی بار امپورٹڈ صابن سے دھوتے اور بات سن کر الرجی کی گولیاں کھاتے ہیں مبادا بیمار نہ پڑ جائیں، وہ آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور عمران خان کے علاوہ ان کے برخورداروں کے سامنے یوں مودب کھڑے ہوتے ہیں جیسے ؎
مجنوں کھڑے ہیں خیمۂ لیلیٰ کے سامنے
کیونکہ موجودہ سیاسی کلچر میں کامیابی و کامرانی کا واحد نہیں تو سب سے موثر ہتھیار یہی ہے۔ رانا اقبال نے میاں صاحب کا ہاتھ چوم لیا تو تعجب کی کون سی بات ہے ۔چند روز قبل سعودی عرب میں شہزادوں اور سرداروں کو بادشاہ سلامت کے ہاتھ چومتے دیکھ چکے ہیں، ہوسکتا ہے یہ منظر انہیں بھا گیا ہو،جن ہاتھوں سے انہیں نئے گورنر کی نامزدگی ملی، پنجاب کا لارڈ صاحب برقرار رکھنے کی ایڈوائس لکھی گئی اسے چومنا فرض اور سعادت ہے۔ اقبال بلند ، سایہ ٔ شفقت دراز۔