تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     03-02-2015

توہین آمیزخاکوں پر کمزور رد عمل کیوں؟

افسوس کا مقام یقیناہے مگر حیرت کا ہرگز نہیں کہ یورپ بھر میں توہین آمیزخاکوںکی اشاعت کا سلسلہ (اور وہ بھی لاکھوں میں) جاری ہے۔ وہ مغربی اور سامراجی طاقتیں صرف نصف صدی قبل تک، لگ بھگ دو سو سال ایشیااور افریقہ کے مسلمانوںکو اپنی فوجی طاقت سے کچلتی رہیں۔ ان کے قدرتی وسائل کو بے دردی سے وسیع پیمانے پر لوٹتی رہیں۔ اس دوران انہیں راہ و رسم شہبازی سے بے گانہ اور ناآشنا بناکر کرگسی آداب سکھانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا۔ ان میں خوئے غلامی کوٹ کوٹ کر بھری۔ ان کی حمیت کا سودا کرنے والوں کو ان کا سردار مقرر کیا جاتا رہا۔ اطاعت اور وفاداری کے لیے انعام و اکرام جبکہ بغاوت اور حکم عدولی کے لیے کڑی سے کڑی سزائیں دی جاتیں ۔ لیکن نصف صدی پہلے یہ بساط اُلٹ گئی۔۔۔۔۔ ہمالیہ کے چشمے اُبلنے لگے، گراں خواب چینی ہی نہیں مراکش سے لے کر انڈونیشا تک مسلمان سنبھلنے لگے۔ مسلمانوں نے آنکھ کھولی (جس کا خواب دیکھنے والا شاعراپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بندکرچکا تھا) تو اُنہوں نے دو صدیوںکی تاریکی اور غلامی کے بعد نئی زمین، نیا آسمان اور ان دونوں کے درمیان نئی فضا دیکھی۔ مشرق سے اُبھرتے ہوئے سُورج کو چندھیائی ہوئی آنکھوں سے دیکھا تو اُنہیں پتا چلاکہ اُنہیں چلنا نہیں دوڑنا پڑے گا،اس لیے کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے۔ اگر وہ اب بھی نہ اُٹھے تو پھر (بقول شاہ دین ہمایوں) حشرکبھی برپا نہ ہوگا۔ 
یہ تو تھی تمہید اُس دورکی جو نصف صدی قبل ختم ہو گیا۔ الجزائر میں جنگ آزادی کی کامیابی اس نئے دورکے آغازکا اعلان تھا۔ تیل کی دولت نے عرب ممالک کو ناقابل تصور حد تک امیر بنا دیا، مگر وہ آج بھی مغربی تسلط سے آزاد نہیں ہوئے چونکہ وہاںکا حکمران طبقہ اپنے تخت و تاج کو قائم رکھنے کے لیے اپنے مغربی آقائوں کی سرپرستی کا محتاج ہے (بہترین مثال مصرکی دی جاسکتی ہے جہاں ایک جمہوری اور عوامی حکومت کو برطرف کرکے امریکہ کی پٹھو فوجی آمریت کو مسلط کر دیا گیا ہے۔) یہ ہے وہ تاریخی پس منظر جسے ذہن میں رکھے بغیر ہم یہ سمجھ نہیں سکتے کہ صرف 25 سال پہلے(جب سوویت یونین کی شکل میں مغربی بلاک کی مخالف ایک بڑی عالمی طاقت موجود تھی) امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کو اپنا بہترین حلیف سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان میں اسلامی مدرسوں کو امریکہ سے مالی مدد ملتی تھی۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے امیر بن جانے تک، جماعت اسلامی سوویت یونین کے خلاف امریکی جہاد کے ہراول دستے میں شامل تھی۔ یہی حال پورے عالم اسلام کا تھا۔۔۔۔انڈونیشیا میں لاکھوں کمیونسٹوں کا قاتل جنرل سہارتو، ایران میں پہلوی بادشاہ، مصر میں پہلے سادات اور پھر حسنی مبارک، تیونس میں پہلے بورقیبہ اورپھر زین العابدین، پاکستان میں پہلے جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل مشرف اور ترکی میں یکے بعد دیگرے اُن کٹھ پتلیوں کی حکومت جنہوں نے اسے یورپ کا مردِ بیمار بنا دیا۔ 
افغانستان میں امریکی جہادکی کامیابی کے بعد دُوسرا دور شروع ہوا جس میں امریکہ کے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مجاہدین اس کے بدترین دُشمن بن گئے۔ اس دور میں اُسامہ بن لادن اُبھرا، اسی دور میں 9/11کا واقعہ ہوا، اسی دور میں پرانے نمک خواراورتابع فرمان حلیف اپنے پرانے آقائوں کے حریف بن کر اُن پر دہشت گردوں کی شکل میں حملہ آور ہوئے۔ یہ ہے وہ دور جس میں پہلی بار توہین آمیز خاکے شائع ہوئے۔ یہ مذموم کام ڈنمارک سے شروع ہوا۔ مغربی سامراج جب مسلمانوںکو اُفتادگان خاک بنائے رکھنے میں ناکام ہوا تو وہ اُن کی دل آزاری، منہ چڑانے اورگالیاں بکنے پر اُترآیا۔ سلمان رشدی کی طرح جس بدبخت نے بھی مسلمانوں کی خلاف ہرزہ سرائی کی، اسے اظہارخیال کی آزادی کے گمراہ کن اور پرُ فریب اور منافقانہ سائبان کے پنجے میں پناہ دی گئی اور اس کی پذیرائی بھی ہوئی۔ توہین آمیز خاکوںکی اشاعت یورپ کی اخلاقی شکست کا ٹھوس ثبوت ہے۔ یورپ میں رہنے والے لاکھوں مسلمان (آپ کے اس کالم نگار کی طرح) موقع پرستی اور مصلحت پسندی کی وجہ سے ان اشتعال انگیز خاکوںکی اشاعت کے خلاف اپنے رد عمل کا دبی زبان میں بھی اظہارکرنے کی مجال نہیں رکھتے۔ ہم ڈرتے ہیںکہ کہیں ہم بھی دہشت گردی کے الزام میں دھر نہ لیے جائیں۔ اس لیے ہم بقول غالب : 
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
آیئے اب دُوسری ہلکی پھلکی خبروں کی طرف چلتے ہیں۔ ہسپانیہ کے سابق بادشاہ کا ستارہ گردش میں ہے۔ ایک عدالت میں اُن کی بیٹی اور داماد کے خلاف بہت بڑی مالیاتی بے ضابطگی اورکروڑوں ڈالرکا کمیشن غیر قانونی طور پر خفیہ ذرائع سے حاصل کرنے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔ دُوسری عدالت میں خود سابق بادشاہ، 77 سالہ جان کارلوس کے خلاف مقدمہ زیر سماعت ہے۔ اگر بادشاہ کو علم ہوتاکہ تخت و تاج سے محرومی اس کے لیے یہ بُرا دن لائے گی تو وہ جون 2014ء میں اپنے بیٹے کے حق میں برضاورغبت دستبردار نہ ہوتا۔ مقدمہ بھی ایک نہیں بلکہ دو ہیں جو ایسے افراد کی طرف سے دائر کیے گئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کی والدہ کے ایک عرصہ تک سابق بادشاہ سے قریبی مراسم رہے جس کا نتیجہ اُن کی پیدائش کی صورت میں نکلا اور اگر یہ درست ہے تو سابق بادشاہ کے خلاف (ہسپانوی قانون کے تحت) Paternity Suitکا دعویٰ دائرکیا جا سکتا ہے اور اُن کے باپ کو اُنہیں اپنی جائیداد میں سے حصہ اور بھاری معاوضہ دینا پڑے گا۔ 
اگر آپ کو اس کالم نگارکی تحریر پر اعتبار نہ آئے تو آپ بخوشی 9 جنوری کے برطانوی اخبارگارڈین کے صفحہ نمبر 25 کی پہلی خبر اپنی آنکھوں سے انٹرنیٹ پر پڑھ لیں جس کے مطابق ایک جرمن نرس (جنس کے اعتبار سے مرد) نے عدالت میں اپنے اس جرم کا اعتراف کر لیا ہے کہ وہ کم از کم تیس مریضوںکو زہریلے انجکشن لگاکر ہلاک کر چکا ہے۔ استغاثے نے اُس پرکل 178مریضوں کو (زہریلے انجکشن لگا کر ) قتل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ عدالت نے ملزم سے اس واردات کی وجہ اور محرک پوچھا گیا تو جواب ملا کہ یہ نرس اپنے ہم پیشہ طبی عملے پر رُعب ڈالنا چاہتا تھاکہ جن مریضوںکو زہریلا انجکشن لگا دیا جاتا تھا، وہ مختلف حیات بخش طریقے استعمال کرکے اُنہیں موت سے بچا سکنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ بدقسمتی سے یہ شعبدہ بازی کامیاب نہ ہوئی اور نرس کے اس کھیل ہی کھیل میں 178 مریض زندگی سے محروم ہو گئے۔ قاتل نرس اپنے ساتھیوں کو بھی مرعوب کرنے میں ناکام رہا۔ جرمنی میں سزائے موت متروک ہو چکی ہے۔ جرم ثابت ہوگیا (اعتراف جرم کے بعد اب یہ رسمی کارروائی ہوگی) تو مجرم کو صرف عمر قید ملے گی اور وہ قدرتی موت مرنے تک دماغی امراض کے ہسپتال میں رہے ہوگا۔
تیس سال پہلے وسطی بھارت میں ایک بہت بڑاسانحہ رُونما ہوا۔ شہرکا نام ہے بھوپال،ریاست کا نام ہے مدھیہ پردیش۔ بھوپال میں کیڑے مارنے والی دوائیاں بنانے والی امریکی کمپنی یونین کاربائیڈ کی مُجرمانہ غفلت سے اتنی زہریلی گیس خارج ہوئی کہ پندرہ ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے۔ ہزاروں افراد بینائی کھو بیٹھے، کئی ہزار بچوںکو پیدائشی معذوری کا عذاب عظیم سہنا پڑا۔ تیس سال پہلے ہالی وڈ کو یہ سانحہ یادآیا تو اس پر فلمBhopal: A Prayer for Rain بنائی جائے۔ اب یہ فلم امریکہ اور برطانیہ میں دکھائی جارہی ہے۔ روزنامہ ٹائمز نے اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے بھوپال کے سب سے بدنصیب گھرانے کے زندہ بچ جانے والے ایک فرد (سنجے ورما) کا انٹرویو شائع کیا ہے۔ یہ گھرانہ اس فیکٹری کے بالکل قریب رہتا تھا۔ زہریلی گیس نے سنجے کے والدین، تین بہنوں اور دوبھائیوں کو آناً فاناً ہلاک کر دیا۔ ان کی ہلاکت کے منظرکی شوٹنگ کی گئی لیکن جو فلم دکھائی جا رہی ہے اُس میں سے یہ منظرکاٹ دیا گیا ہے۔ سنجے نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ فلم میں اس فیکٹری کی مقامی بھارتی انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اور امریکی کمپنی کے افسران کا لحاظ رکھتے ہوئے ہاتھ ہولا رکھا گیا ہے۔ یہ فلم وقت نکال کر ضرور دیکھنی چاہیے کیونکہ یہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے صنعتی حادثے کے دِل ہلا دینے والے موضوع پر بنائی گئی ہے۔ مناسب ہوگا کہ کالم کو بھارت سے آنے والی ایک اور خبر پر ختم کیا جائے۔ آپ نے انسانی ماحول کی بہتری کے لیے جدوجہدکرنے والی تنظیم Green Peace کا نام ضرور سنا ہوگا۔ برطانوی پارلیمنٹ نے بھارت میں اس تنظیم کی ایک خاتون رہنما پریا پلائی کو دعوت دی تاکہ وہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے یہ بیان کر سکے کہ مدھیہ پردیش میں ایک بڑے جنگل کوکاٹ کر وہاںکان کنی کا کام شروع کر نے سے قدرتی ماحول کس طرح اور کتنے بڑے پیمانے پر تباہ و برباد ہو جائے گا۔ بھارتی حکومت (جو امریکہ کی طرح انسانی حقوق کا منافقانہ دعویٰ کرتی ہے) نے اس بہادر خاتون کو برطانیہ جانے کی اجازت دینے سے انکارکر دیا ہے۔ انکار بھی آخری وقت کیا جب اُس کے برطانیہ پروازکرنے میں صرف ایک دن رہ گیا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved