تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     03-02-2015

جال میں لپٹا اوباما دورہ

سڑک چلتے لوگ اوباما کے دورۂ بھارت پر فدا ہو جائیں تو اوباما کو بھی حیرانی نہیں ہوگی جبکہ اس دورے کی اصلی حقیقت کو اوباما سے زیادہ کون جاتا ہے ؟دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے سربراہ کو کسی ملک کا سربراہ اس کے پہلے نام سے پکارے ‘اس سے زیادہ کھلاپن اور غیر رسمی ہونا آپ کہاں دیکھ سکتے ہیں ؟یہ بین الاقوامی سیاست کی تاریخ کاغیر معمولی سا واقعہ لگتا ہے ۔کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سوویت لیڈر بریژنیف اپنے پر منحصر ملک افغانستان کے وزیر اعظم کو 'ببرک‘ یا 'کارمل‘ کہہ کر بلا سکتے تھے؟یا بھارت کا کوئی وزیر اعظم نیپال کے وزیر اعظم کو صرف 'سشیل‘ یا 'کوئرالا‘ کہہ کر پکار سکتا ہے ؟اگر مودی نے اوباما کو'براک‘کہا اور براک نے مودی ‘تو کوئی شک نہیں رہ گیا کہ دونوں سربراہ ذاتی ہمواری کے ذریعے اچھی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اوباما نے بار بار نمستے بول کر ‘دونوں ہاتھ جوڑ کرنمستے کر کے اور اپنی تقاریر میں ہندی بول کر بھارتی عوام کو یہ بتا دیا کہ وہ صرف یوم جمہوریہ کے مہمان کا رس لینے کیلئے ہی نہیں بلکہ اس سے بڑے اور گہرے ہدف کیلئے بھارت آئے ہیں ۔
وہ ہدف کیا تھا؟وہ تھا ‘اپنے اقتدار کے اس آخری دور میں امریکی عوام کو یہ بتاناکہ اس کے مفادات کی حفاظت کیلئے اوباما زمین و آسماںایک کر سکتے ہیں ۔وہ صرف بھارت دورے کیلئے چار دن نکال سکتے ہیں ‘اپنے صدارتی پیغام کی تاریخ بدل سکتے ہیں‘ ہندی اور نمستے کے ڈور ے ڈ ال کر بھارتیوں کو اپنی طرف 
کھینچ سکتے ہیں ۔انہوں نے کیا بھی سب سے زیادہ متاثر تو انہوں نے ہمارے وزیر اعظم کو کر دیا ۔وزیر اعظم نے پہلے سے ہی امریکی سرمایہ کاروں کیلئے بھارت کے دروازے کھول رکھے تھے۔ اب انہوں نے اور سہولیات دینے کا وعدہ کر دیا ہے لیکن اوباما بھارت میں امریکی دولت کتنی لگائے گا‘ اس کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ ہر ایک امریکی کو پتہ ہے ‘جو بھی امریکی ڈالر کسی ملک میں جاتا ہے ‘وہ ایک کے تین ہوکر لوٹتا ہے ۔جاپان اور چین کے لیڈروں نے تو 35 بلین ڈالر اور 20 بلین ڈالر لگانے کی بات کہی ہے لیکن اوباما نے شایداس لئے کچھ نہیں کہا کہ امریکی سرمایہ کار اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ انہوں نے دو طرفہ تجارت وغیرہ بڑھانے کے لئے چار بلین ڈالرلگانے کی بات کہی ہے لیکن یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ 
اسی طرح جس مُدعے پر سب سے زیادہ امیدیں بھارت نے لگا رکھی تھیں ‘وہ بھی بیچ میں لٹکی ہوئی ہیں۔ پچھلے پینتالیس دنوں میں بھارت اور امریکی وفدلندن میں بیٹھ کر یہ طے کرنے والے تھے کہ اگر کوئی جوہری حادثات ہو جائیں تواس کے معاوضے کے انتظام کیا ہوں۔اس بار ے میں یہ تو پتہ چلا ہے کہ بھارت نے کچھ نرمی دکھائی ہے یعنی ایٹمی سپلائراور نگرانی کی بات مان لی ہے اور ان کی الگ الگ ذمہ داری بھی مان لی ہے‘ اس کے علاوہ جن آلات کا بیمہ کرایا جائے ‘یہ بات بھی دونوں کی طرف قبول ہوگئی ہے لیکن سبھی شرائط کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے ۔وہ بھی شاید اس لیے کہ امریکی ایٹمی کمپنیاں ان شرائط کومانیں گی بھی یا نہیں ؟اگر بھارت امریکی شرائط مان لے توبھی ایک نیا مسئلہ یہ کھڑا ہو سکتا ہے کہ فرانس اور کینیڈا بھی اپنی نئی شرائط کا دعویٰ کرنے لگیں۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ کے ساتھ جو جوہری سودا من موہن سرکار نے کیا تھا ‘اور جس کیلئے انہوں نے اپنی سرکار داؤ پرلگا دی تھی ‘وہ مودی کیلئے اب بھی چیلنج بنا ہواہے ۔
جہاں تک امریکہ کا سوال ہے ‘وہ اس سودے کو نافذ کرنے پر آمادہ ہے۔ کیوں ہے ؟اس لئے کہ اس کے پاس 1986 ء سے کئی جوہری بھٹیاں بیکار پڑی ہوئی ہیں ۔اب اسے ایٹمی توانائی پر بھروسہ نہیں رہ گیا ہے اس کا زور آج کل شمسی توانائی پر ہے۔ وہ اپنی جوہری بھٹیاں بھارت کے سر مڑھنا چاہتا ہے اور حادثہ کی حالت میں کوئی ذمہ داری نہیں لینا چاہتاہے۔اگر ویسی ہی بھٹیاں بھارت بنائے تو ہرایک میگاواٹ پر مشکل سے خرچ سات کروڑ روپیہ آتا ہے جبکہ امریکی بھٹیوں پر یہ خرچ تین چار گنا بڑھ جاتا ہے ۔اگر بھارت کو چار ہزار میگاواٹ کی ایٹمی توانائی چاہئے تو ہمیں اربوں روپیہ کی بھٹیاں امریکہ سے خریدنی ہوں گی۔ اوباما انہی بھٹیوں کو بیچنے کیلئے بھارت آئے تھے لیکن انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ وہ بھارت کے لیڈروں کوکتنا ہی اپنی باتوں میں کھینچ لیں ‘بھارت کے سائنسدان‘نوکر شاہ اور بیدار صحافی کوئی ایسا سودا مکمل نہیں ہونے دیں گے ‘جوایسا کرکے اس نے بھارت پر مہربانی نہیں کی ہے ۔یوں بھی بھارت ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے۔ وہ مکمل امن کے کاموں کیلئے آرہے جوہری سامان سے بم کیوں بنائے گا؟اگر اسے بم بنانا ہو گا تو اس کے پاس اس کے لئے الگ سے انتظام ہے ۔
اوباما کے اس دورہ میں نہ توجوہری ہرجانے اور نہ ہی ہوائی اور سمندری معاملات پر کوئی ٹھوس حاصلات ہوئی ۔ تو ماہرین دور کی کوڑی ڈھونڈ کر لا رہے ہیں ۔ان کا ماننا ہے کہ امریکہ اب بھارت کوچین کے مقابلے پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔وہ مشترکہ کانفرنس کی دہائی دے رہے ہیں ۔جنوب چینی سمندر میں فری ٹریڈ کی مانگ اور ہندی مہا ساگر اور بھارت کی حفاظت کی بات اٹھا کراوباما نے چین کے کان ضرور کھڑے کر دیے ہیں لیکن یہ چین پر دباؤ بنانے کا پینترا بھر رہے ہیں ۔یہ پینترا لگا کر امریکہ اپنے مفاد جوڑے گا۔ اس سے بھارت کا کیا فائدہ ہے ؟امریکہ کی
خاطر بھارت چین سے اپنے تعلقات کیوں خراب کرے؟ اوباما نے یوکرائن کے سوال پر بھارت میں کھڑے ہوکر روس کی مذمت کی ‘یہ بھی کہاں تک ٹھیک ہے ؟چین کے ساتھ امریکہ کی تجارت بھارت کے مقابلے پر چھ گنا ہے ۔چین کی بڑی دولت امریکہ میں لگی ہوئی ہے اور یہی اوباماکل تک چین کو ایشیا کا رہنما بنانا چاہتے تھے۔ اگر امریکہ اپنے مفادات کی نظر سے جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت کو ملا کر ایشیا میں کوئی نیا داؤ کھیلناچاہتا ہے تو بھارت کو خبردار رہنا ہوگا۔اسی طرح بھارت کو سلامتی کونسل میں مستقل سیٹ دلوانے کا وعدہ صاف پانی سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایٹمی سپلائرز کلب کی ممبر شپ تو بھارت کو کب کی مل جانی چاہئے تھی ۔یہ سب وعدے اس لئے تو نہیں کئے جا رہے ہیں کہ ہم خوش ہو جائیں اور امریکی جوہری بھٹیاں فوراً خرید لیں ؟ 
یوں تو اوباما کافی خبردار رہے ۔پاکستان کا نام تک نہیں لیا۔افغانستان میں بھارت کے کردار پر خاموش ہو گئے ۔ لیکن سیری فورٹ کی اپنی تقریر میں کئی دلچسپ باتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے نصیحت بھی جھاڑ دی ۔فرقہ واریت کا کوکاکولا پیش کر دیا۔ بن بادل برسات ہو گئی ۔پتہ نہیں انہوں نے کسے خوش کیالیکن مودی سرکار کو تو پس وپیش میں ڈال دیا۔ اس کی دکھتی نس دبا دی۔ اس غریب ملک کے وزیر اعظم کے جسم پر لاکھوں روپیہ کا سوٹ دیکھ کرپتہ نہیں اوباما متاثر ہوئے یا نہیں لیکن اوباما کی ہندی اور دوسرے لٹکوں جھٹکوں کو دیکھ کر بھارتی عوام مست ہوئے بنا نہیں رہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved