تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-02-2015

میگنا کارٹا کے آٹھ سو سال

تین فروری 2015ء کی صبح کا جونہی آغاز ہو گا، لندن کی برٹش لائبریری میں چوبیس گھنٹوں کے لیے تاریخی چارٹر '' میگنا کارٹا‘‘ کی چار مصدقہ کاپیاں نمائش کے لیے رکھ دی جائیں گی۔ برٹش لائبریری کے پاس اس وقت میگنا کارٹا کی دو کاپیاں لنکولن کیتھیڈرل اور سالسبری کیتھیڈرل میں محفوظ ہیں۔ یہ کاپیاں صرف وہ1215 خوش قسمت شخصیات پہلے دن ملاحظہ کر سکیں گی جن کے نام خریدی جانے والی ہزاروں ٹکٹوں کی قرعہ اندازی کے ذریعے سامنے آئے ہیں ۔تاج برطانیہ کی وارث ملکہ الزبتھ اس تاریخی چارٹر کی برٹش لائبریری میں کی جانے والی نمائش میں خصوصی طور پر شرکت کریں گی۔ان کاپیوں کی نمائش کا سلسلہ تقریباً سارا سال انگلینڈ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یورپ کے کئی دیگر ممالک میں جاری رہے گا۔ امریکہ سے800 وکلا کا ایک قافلہ خصوصی طور پر اس تاریخی مقام ''رنی مڈ‘‘ (سرے) پہنچ رہا ہے جہاں اس تاریخی دستاویز کی یاد گار تعمیر ہے۔
2015ء کا سال اپنے آغاز سے اختتام تک کس حد تک یاد گار رہتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم تاریخ میں یہ سال یورپ اور مغربی دنیا کے لیے اور بھی کئی اہم ترین واقعات کی وجہ سے مشہور ہے جن میں آگن کورٹ کی جنگ1415)ء ( اور فرانس کے نپولین کی واٹر لو(1815ء) زیادہ اہم ہیں۔ آج سے آٹھ سو سال قبل پندرہ جون1215ء کو کنگ جان اور انگلستان کے طاقتور امراء کے درمیان یہ چارٹر طے پایا تھا۔ اس وقت کے روسا ظالمانہ ٹیکسوں اور حکومتی معاملات میں کی جانے والی من مانیوں کی انتہا کی وجہ سے سخت اشتعال میں آئے ہوئے تھے۔ لارڈز کی طویل مزاحمت، جو خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی تھی، کے خاتمے کیلئے کنگ جان اور ان برطانوی امراء کے درمیان فٹز والٹر نے Runnymada کے مقام پر ونڈسر اور سٹینز کے درمیانی حصے میں واقع دریائے ٹیمز کے کنارے یہ چارٹر تحریر کیا گیا تھا ۔آج کل یہ علاقہ سرے کائونٹی کی حدود میں ہے۔
میگنا کارٹاکیا واقعی جمہوریت کے ان بنیادی نکات کی مکمل تشریح کرتا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق سے ہے؟ جب یہ چارٹر تیار کیا جا رہا تھا تو اس کے بنیا دی اور مرکزی مقاصد کیا تھے؟تاریخ بے رحم ہوتی ہے۔ وہ اس کا جشن منانے والوں کی خوشیوں میں شریک تو ہو گی لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضرور پوچھے گی کہ آج جب تہذیب یافتہ قومیں اس چارٹر کے آٹھ سو سال مکمل ہونے پر جشن منا رہی ہیں، کیا انہیں اس حقیقت سے شرمندگی کا احساس ہو گا کہ اس کے ضابطے اور فوائد ایک مخصوص زبان اور مذہب کے لیے ہی واجب الاحترام ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟اورتیسری دنیا کے لیے ان قوموں نے مختلف پیمانے کیوں بنا رکھے ہیں؟اور یہ کہ پاکستان میں 2008ء اور2013ء میں ہونے والے انتخابات کے دوران حکومت برطانیہ کے پس پردہ کام کرنے والے دماغوں نےKing John اور انگلستان کے امراء کی تیار کردہ اس اصل دستاویز میگنا کارٹا سے منہ کیوں موڑے رکھا تھا؟
میگنا کارٹا میں لکھا گیا تھا کہ ہر بنی نوع انسان کو آزادی ہو گی اور قانون بادشاہ سمیت سب کے لیے ایک ہی طرح سے لاگو ہو گا۔ اس چارٹر کے تحت صاف ستھرا انصاف ہوگا اور ٹیکس کا نفاذ ایک ضابطے کے تحت ہوا کرے گا۔ اس وقت اگر اس دستاویز کی ہر شق کا بغور جائزہ لیا جائے تو میگنا کارٹا کی صرف تین کلازوں پر عمل ہو تا دکھائی دیتا ہے جس میں انگلش چرچ کی مکمل حاکمیت ، لندن شہر اور اس کے ملحقہ شہروں کا استحقاق اور تیسری کلاز جس کے تحت کسی بھی ریاست کے آزاد انسان کو اس وقت تک پابند سلاسل نہیں کیا جا سکے گا جب تک اسے کسی مجاز عدالت سے سزا نہ ہوئی ہو۔ (لیکن7/7کے بعد یہ بھی نہیں رہا)۔
آج جب میگنا کارٹا کے نام سے تحریر کئے جانے والے اس چارٹر کو آٹھ سو سال بیت گئے ہیں، تو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس کے وجود میں آنے کے کوئی پانچ ہفتوں بعد ہی بادشاہ نے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا جس پر اس وقت کے پوپ نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اس کے خلاف مزاحمت شروع کر دی۔1216ء میں فرانسیسی فوج نے باغیوں کی حمایت میں کنگ جان کی افواج پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں فرانس کے بادشاہ کے بیٹے لوئی نے، جو اس فوج کی کمان کر رہا تھا، انگریزی تخت پر قبضہ کر لیا اور اس حملے کے چند دن بعد کنگ جان بیماری کی حالت میں ہی اکتوبر2016ء میں مشرقی انگلینڈ میں نیوآرک قلعے میں انتقال کر گیا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسی وقت سے برطانیہ کی بادشاہت کا خاتمہ ہو جاتا لیکن تقدیر کو یہ منظور نہ ہوا۔انگریز بادشاہت اس طرح قائم رہی کہ شاہی سلطنت کے لارڈز جو کنگ جان کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے فرانسیسی فوج کے مقابلے میں کنگ جان کے 9 سالہ بیٹے ہنری کے حق میں کھڑے ہوگئے اور میگنا کارٹا کا دوبارہ نفاذ کر دیا گیا۔ مئی 1217ء شاہ ہنری کی انگریز فوجوں نے سخت مزاحمت کے بعد فرانس کے شاہ لوئی کو شکست دی اورتاج برطانیہ دوبارہ اس کے اصلی وارثوں کو مل گیا۔
1225ء میں میگنا کارٹا چارٹر میں ہنری سوم نے ایک کلاز میں معمولی سی ترمیم کی،یہ چارٹر ہنری سوم اور اس کے بعد آنے والے بادشاہ ایڈورڈ کے دور سے اسی حالت میں موجود ہے۔ میگنا کارٹا کی تاریخی حیثیت اس لیے بھی ہے کہ تاریخ میں پہلی بار کسی بھی بادشاہ کو قانون کے تحت آنا پڑااور شہریوں پر کسی بھی ٹیکس کے نفاذ کا تمام تر اختیار پارلیمنٹ کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ میگنا کارٹا بادشاہ کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ کسی کو بھی انصاف کے حصول سے روک نہیں سکے گا‘ انصاف میں تاخیر نہیں کر سکے گا اور انصاف کی خریدو فروخت نہیں کر سکے گا لیکن اس کے با وجود حقیقت میں یہ اس وقت کی اشرافیہ کیلئے ہی تھا۔1679ء میں انگریزی عدالتی نظام کے ' ' پٹیشن آف رائٹ‘‘ اور کسی انسان کو حبس بے جا میں رکھنے کے حوالے سے ایک دفعہ 1628ء میں ترامیم کی گئیں جس کی کلاز40 کے تحت عام انسان کو آزادی کا حق ملا۔1776ء میں امریکہ کے متحارب نو آبادیاتی علاقوں میں بھی انگریز بادشاہت سے نجات پانے کے لیے میگنا کارٹا کا سہارا لیا گیا۔آج ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ملکوں کو تہذیب اور خواتین کے حقوق کا سبق دینے والے بھول جاتے ہیں کہ جب یہ میگنا کارٹا تحریر کیا گیا تھا ،اس وقت شاہی ریاست کے صرف مردوں کا اس میں ذکر تھا جبکہ خواتین کے حقوق کا اس میں کوئی ذکر نہیں تھا سوائے بیوہ خواتین کے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved