تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     04-02-2015

اندیشہ ہائے دوردراز

امریکہ اور دہشت گرد‘ دونوں کا اصل ٹارگٹ پاکستان ہے۔ اگر واقعات کو تفصیل سے دیکھا جائے‘ تو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کا نقشہ کیسے بنایا گیا؟ کیسے اسے پاکستان میں داخل کیا گیا؟ اور کیسے یہ مرض پاکستان کے وجود میں اپنی جڑیں پھیلا رہا ہے؟ کہانی 9/11 سے شروع ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات 11ستمبر 2001ء کو امریکہ میں رونما ہوئے۔ ظاہر ہے‘ یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ تھا‘ جس کے اثرات دنیا بھر میں پھیلے۔ لیکن اس سے پہلے 1979ء میں ایرانی انقلاب پرانے طرزحکومت کا خاتمہ کر کے‘ استحکام کی طرف گامزن ہو چکا تھا۔ امریکہ نے اس انقلاب کو ناکام بنانے کے لئے تمام ممکنہ کوششیں کر کے دیکھ لی تھیں۔اسے اندیشہ تھا کہ اگر اس انقلاب کے اثرات‘ مسلم دنیا میں پھیلنے لگے‘ تو پھر ایک نئی طاقت کھڑی ہو جائے گی‘ جو اسلامی انقلاب کی کامیابیوں کے زیراثر تیزی کے ساتھ پھیل سکتی ہے اور اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ یہ تحریک آگے بڑھ کر کیا رخ اختیار کرتی ہے؟ اور پاکستان جو کہ ایٹمی طاقت بن چکا تھا اگر وہ اس پھیلتے ہوئے انقلاب کا حصہ بن گیا‘ تو پوری دنیا میں طاقتوں کا توازن بدل سکتا ہے؟ اسلامی انقلاب کے ممکنہ جغرافیائی دائرے میں‘ فوجی اعتبار سے پاکستان ہی واحد ملک تھا‘ جو اس نئی انقلابی قوت کو‘ طاقتوں کے عالمی توازن میں موثر پوزیشن دلا سکتا تھا۔ 
چین تیزی کے ساتھ شرق اوسط اور افریقہ میں اپنے اثرات بڑھاتا جا رہا تھا۔ پاکستان جو ممکنہ اسلامی انقلاب کے نئے بلاک کا لیڈر بننے کی اہلیت رکھتا تھا‘ وہ چین کے ساتھ پہلے ہی گہرے سیاسی اور فوجی تعلقات قائم کر چکا تھا اور پاکستان کی قیادت میں منظم ہونے والا‘ نیا اسلامی انقلاب‘ چین اور روس کا اتحادی بن کر‘ طاقت کا توازن مغرب کے خلاف کر سکتا تھا۔(ایران کا اسلامی انقلاب‘ آج روس کا اتحادی اور چین سے قریبی تعلقات رکھتا ہے) بھارت اور امریکہ کے مفادات بھی درحقیقت اسی امکانی خطرے کو دیکھتے ہوئے ہم آہنگ ہوئے۔ اگر آپ اس نئی قوت کے عالمی توازنِ طاقت پر‘ اثرات و نتائج کا اندازہ کریں‘ تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ امریکہ نے بوکھلاہٹ میں‘ اندھیرے کے اندر چھلانگ کیوں لگائی؟ اور ایک ایسی جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جس میں کسی بھی طرح اس کی کامیابی یقینی نہیں تھی۔9/11 کے واقعات کیسے ہوئے؟ یہ آج بھی ایک پُراسرار داستان ہے۔ مگر اس میںایک حقیقت اٹل ہے کہ 9/11 کے واقعات سے‘ جس نے بھی ردعمل کا خاکہ تیار کیا ‘وہ صرف امریکہ تھا۔ جن دہشت گردوں نے 9/11 کے واقعات کئے‘ کم از کم اس احمقانہ حملے کا‘ نہ تو وہ کوئی فائدہ اٹھا سکے اور نہ ہی ان کی قیادت کرنے والے۔ واحد طاقت امریکہ تھی‘ جس نے ان واقعات کی بنیاد پر مغربی ایشیا اور شرق اوسط میں فوجی اقدامات کئے۔ سب سے پہلے افغانستان پر الزامات لگائے گئے کہ دہشت گردی کی سازش وہاں تیار ہوئی تھی اور پھر اس کیس کی حقیقت دنیا کو تسلیم کرائے بغیر‘ فیصلہ کر لیا کہ وہ افغانستان میں فوجی کارروائی کرے گا۔ افغانستان پر حملے کے اس منصوبے میں‘ پاکستان کی رضامندی لئے بغیر اسے مرکزی کردار دے دیا گیا۔ ہماری بدقسمتی کہ اس وقت یہاں فوجی آمریت مسلط ہو چکی تھی۔ جب امریکہ نے افغانستان پر حملے سے پہلے‘ ہمیں یہ حکم سنایا کہ اس جنگ میں اس کے اتحادی کا کردار پاکستان کو ادا کرنا ہو گا‘ تو یہاں کوئی اس قابل ہی نہیں تھا جو یہ فیصلہ کرنے سے پہلے‘ پاکستان کے قومی مفادات کا جائزہ لیتا۔ ملک کے اندر مشاورت کرتا یا منتخب اداروں میں بحث و مباحثے ہوتے۔ ان میں سے کوئی بھی صورت ہوتی‘ تو پاکستان ‘ امریکہ کی اس غیرمتوقع اور اچانک فرمائش کو قبول کرنے میں کچھ حیل و حجت کر سکتا تھا‘ لیکن افغانستان پر جارحیت سے پہلے‘ پاکستان میں فوجی آمریت کا بندوبست کیا جا چکا تھا۔ امریکی اندازے درست ثابت ہوئے اور پاکستان کی حکومت نے ایک ہی ٹیلی فون کال پر‘ امریکہ کا جنگی اتحادی بننے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ افغانستان کی اس جنگ میں امریکی اتحادی بنتے ہوئے‘ ہمارے حکمرانوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ جنگ آگے چل کر ہمارے لئے کیا نتائج پیدا کرے گی؟ ہمیں انتہائی تیزی سے افغان جنگ میں گھسیٹ لیا گیا۔ وہ ملک‘ جس میں پاکستان کے اتحادیوں کی حکومت تھی اور وہ ہر طرح سے پاکستان پر انحصار کر رہی تھی‘ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا دشمن بن گیا۔ اس کے بعد ہم نے طالبان کو پناہ بھی دی۔ ان کے مددگار بھی بنے۔ انہیں افرادی قوت بھی مہیا کی‘ لیکن افغانستان پر امریکی حملے میں‘ اس کا اتحادی بن کر ہم نے جو دشمنی پیدا کر لی تھی‘ وہ ختم نہ ہو سکی۔ 
جب امریکہ کی پٹھو حکومت کے خلاف لڑنے کے لئے‘ پاکستان سے طالبان کے حامی دستے افغانستان کے اندر کارروائیاں کرنے لگے‘ تو امریکہ اور اس کی مسلط کردہ افغان حکومت نے ان کارروائیوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنا شروع کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ اچانک پاکستان پر طالبان کے حملے شروع ہو گئے۔ ہماری حکومت ‘ ادارے اور میڈیا‘ سب مخمصے میں تھے کہ طالبان ‘ پاکستان کے اندر کیسے دہشت گردی کر سکتے ہیں؟ لیکن حقیقت یہی تھی۔ ایسے طالبان تیار ہو چکے تھے‘ جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کریں۔ اس وقت میں واحد کالم نویس تھا‘ جس نے پاکستان پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو ''امریکی طالبان‘‘ کا نام دیا۔اس وقت یہ اصطلاح بیشتر لوگوں کو غیرموزوں اور اجنبی نظر آئی‘ لیکن اب ہم جان چکے ہیں کہ میرا اندازہ درست تھا اور وہ امریکیوں کے زیرسرپرستی‘ کرزئی کے تیار کردہ دہشت گرد تھے‘ جنہوں نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی جنگ کو ایک نیا رخ دے دیا۔ یہی پاکستانی دہشت گرد تھے‘ جنہوں نے ہمارے ملک کی اہم شخصیات کو موت کے گھاٹ اتارا۔ پاکستانی فوج کو شدید نقصانات پہنچائے‘ حتیٰ کہ بے نظیربھٹو کو شہید کر کے‘ پاکستان کو ایک بار پھر حقیقی سیاسی قیادت سے بھی محروم کر دیا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد‘ سیاسی میدان میں جو قیادت سرگرم عمل ہے‘ آپ اس سے‘ کسی بڑے‘ خصوصاً عالمی طاقتوں کی طرف سے دیئے گئے چیلنجز کے رسپانس کی امید نہیں کر سکتے۔ وہ تو پاکستان کے پیچیدہ حالات کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔ جب فوج ‘ فاٹا میں دہشت گردوں کے مراکز پر حملے کی تیاریاں کر رہی تھی‘ ہماری نومنتخب حکومت‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ لاہور میں جب وزیراعظم نوازشریف نے ایک محفل میں‘ طالبان سے مذاکرات کا ارادہ ظاہر کیا‘ تو میں نے انہیں فوراً کہا تھا کہ ''آپ یہ مذاکرات شروع کر کے‘ طالبان کے ٹریپ میں آئیں گے۔‘‘ یہ بات ثابت ہو گئی ۔ طالبان نے مذاکرات کی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپنے ساتھیوںکی بڑی تعداد کو فاٹا سے نکال دیا۔ بہت سے لوگ افغانستان چلے گئے اور جن کا تعلق پاکستان سے تھا‘ وہ جنوبی پنجاب‘ کراچی اور اندرون سندھ منتقل ہو گئے۔ میرے نزدیک یہ اس جنگ کا آخری یا آخری سے پہلا مرحلہ ہے۔ آخری مرحلہ وہ ہو گا‘ جب پاکستان کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے ہماری تمام تیاریاں بوکھلاہٹ کے سوا کچھ نہیں۔ گزشتہ روز ہی بابر اعوان نے ''دنیا نیوز‘‘ کے پروگرام میں توجہ دلائی تھی کہ حکومت کو21ویں ترمیم پاس کرائے‘ قریباً ایک مہینہ ہو چکا ہے۔ جس ایمرجنسی اور تیزرفتاری کا تاثر دیتے ہوئے‘ کل جماعتی کانفرنسیں بلائی گئیں اور 21ویں ترمیم پاس ہوئی‘ اس سے لگتا تھا کہ دو دن میں‘ فوجی عدالتیں قائم ہو جائیں گی اور دھڑادھڑ ٹرائل شروع ہو جائیں گے‘ لیکن ابھی تک نہ فوجی عدالتوں کا پتہ ہے اور نہ ہی ان عمارتوں کا‘ جہاں پر یہ عدالتیں لگائی جائیں گی۔ افغانستان کے ساتھ ہمیں دہشت گردوں کے خلاف‘ متحدہ محاذ بنانے کے جو راستے بتائے جا رہے ہیں‘ مجھے توان کی دال میں بھی کالا نظر آ رہا ہے۔ ایک دن اچانک پتہ چلے گا کہ افغان حکومت نے ‘ پاکستان پر الزام لگا دیا ہے کہ وہ ‘ دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہا اور اب اسے جوابی کارروائی کرنا پڑے گی۔ خدا کرے ایسا نہ ہو‘ لیکن ایسا نہ ہونے کی‘ کوئی قابل قبول وجہ بھی مجھے نظر نہیں آ رہی۔ چین ایک ایسا فیکٹر ہے‘ جو اس معاملے میں پاکستان کا ساتھ دے سکتا ہے‘ لیکن ہمیں اپنا ریکارڈ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ہم نے‘ چین کے اندر ہونے والی دہشت گردی کو روکنے کے لئے‘ وہاں کی حکومت کا کتنا ساتھ دیا ہے؟ اس سوال کے جواب سے آپ‘ چین کے متوقع موقف کا اندازہ کر سکیں گے۔ جب میں وطن عزیز کو ملنے والے ان سنہرے اور تاریخی مواقع کا جائزہ لیتا ہوں‘ جو ہمارے حکمرانوں نے ضائع کئے‘ تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ 60ء کے عشرے میں مغربی ماہرین‘ پاکستان میں ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اگر پاکستان اسی رفتار سے آگے بڑھتا رہا‘ تو یہ جاپان کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے شکست خوردہ پاکستان کو ازسرنو پیروں پر کھڑا کر کے‘ عالمی سیاست میں موثر کردار ادا کرنے کے اہل بنایا‘ تو انہیں پھانسی لگا دی گئی اور جو آخری چانس ہمیں بے نظیربھٹو کے دوبارہ اقتدار کے سبب ملنے والا تھا‘ وہ ان کی شہادت کے بعد ختم ہو گیا۔ اب ہمارا سیاسی منظر ویران ہے۔ اس و یرانی کا نظارہ‘ آپ نے پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس میں کر لیا‘ جو اجتماعی بے معنویت اور بے سمتی کی یادگار کے طور پر‘ ہم ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ میری آخری امید صرف یہ ہے کہ میں قیام پاکستان کو قدرت کا معجزہ سمجھتا ہوں اور میرے اندر یہ امید ہمیشہ زندہ رہی کہ جس نے پاکستان کو بنانے کے لئے ایک تاریخی معجزہ کر دکھایا‘ وہ یقینا اس سے‘ کوئی معجزانہ کام لینا چاہتا ہو گا۔ قوموں کی زندگی میں بعض اوقات ایسے معجزے ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر سنگاپور اور سوشلسٹ سسٹم کے ساتھ‘ کیوبا نے یہ معجزے کر کے دکھائے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved