ہمارے اصل مسائل یہ ہیں۔۔۔ جا بجا گندگی کے ڈھیر، گلیوں میں کھڑا گندہ تعفن زدہ پانی، اساتذہ اور ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی سے غائب، پولیس شہریوں کو ناکردہ جرائم میں پھانسنے اور مجرموں کو رشوت لے کر چھوڑنے کی ماہر، تجاوزات سے اَٹی ہوئی سڑکیں، گندے پبلک پارک اور ترقیاتی فنڈز اور ملازمتیں صرف اُن کے لیے جو حکمران طبقے کے قریب ہوں اور پھر باقی ملک کا ذکر ہی کیا، دارالحکومت ، جو اسلام آباد کہلاتا ہے، میں پندرہ فٹ گہرے کھلے منہ والے مین ہول۔ کم و بیش تمام ملک کی یہی صورت ِحال ہے۔ فرق یہ ہے کہ کہیں گندگی کا تناسب کم ہو گا، کہیں زیادہ۔ ان تمام مسائل کے اوپر سیاسی اداکاروں اور سرکاری افسران کے گٹھ جوڑ سے وجود میں آنے والا اشرافیہ طبقہ ہے جسے ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ ستم یہ ہے کہ یہ طبقہ انہی مسائل کے حل کے لیے بھاری فنڈز حاصل کرتا ہے ،تاہم عوام کو یہ مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
لوگ ریاست، اس کی اتھارٹی، اس کے قانون کی عملداری، اس کے نظم ونسق اور اس کے اداروں کی فعالیت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟لوگ سوچتے ہیں کہ اس نظام نے ان کی زندگی میں کیا تبدیلی برپا کی ہے؟ یقینا لوگ جمہوریت سے آفاقی معاملات نہیں بلکہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں بہتری چاہتے ہیں۔ تاریخی طور پر بھی عوام کی اس سوچ کی تصدیق ہوتی ہے۔ بہت سے بیدار مغز سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ تمام سیاست ''مقامی ‘‘ ہوتی ہے۔ اس کا ہر پہلو، چاہے اس کا تعلق کشمکش کے حل سے ہو، قانون اور انصاف کے نظام سے ہو، معاشرے سے ہی تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ کسی خلامیں قائم نہیں ہو سکتا۔ اس نظام کا تعلق ہمارے رہتل (رہن سہن) اور سماج سے ہے۔ اس کا مطلب کسی شخصیت یا خاندان کی حکومت نہیں، بلکہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے عوام کی منتخب شدہ حکومت ہے۔
سیاست دانوں کا طبقہ ٔ اشرافیہ اور اس کے ہمنواجو چاہتے ہیں‘ حاصل کرلیتے ہیں ، توپھراُنہیں اپنے اقتداراور اختیار کے لیے گردن جھکا کر نیچے مقامی سطح پر دیکھنے کی کیا ضرورت کہ عام آدمی کی کیا ضروریات ہیں، اس کی زندگی کن راہوں پر بسر ہورہی ہے؟ قصبوں اور دیہات میں موجود حکومت کے اہل کاراپنے باس(جو مقامی سیاست دان ہوتا ہے) کی منشا کا خیال رکھتے ہیں۔ اُنہیں بھی عوام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ بس اپنے باس کو خوش رکھتے ہوئے اپنے کیریئر کو بناتے ہیں۔ طاقتور افراد کی جی حضوری ہی ان کی کا رکردگی کا معیارٹھہرتا ہے، اس لیے سرکاری افسران کو عوام کے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں۔
مقامی سے قومی سطح تک پاکستانی سیاست میں مسائل اور ان کے حل کے بارے میں سوچنا طاقتور بیوروکریسی کا استحقاق سمجھا جاتا ہے۔ تاہم بیوروکریسی عوام نہیں بلکہ سیاسی طبقے کے مفاد کے تابع ہوتی ہے۔ اس طرح سیاسی نظام میں ووٹ ڈالنے کے بعد عوام کا کردار اور حق ختم ہوجاتا ہے اور وہ سیاسی طبقے اور سرکاری افسران کے رحم و کرم پرہوتے ہیں۔ جب عوام کو سرکاری اہل کاروں سے کوئی کام ہوتا ہے تو اُنہیں نہایت کرخت لہجے میں دروازے کی راہ دکھائی جاتی ہے ۔جب کسی اہم شخص کا معاملہ درپیش ہو تو تمام سرکاری مشینری دیدہ ودل فرش ِراہ بن جاتی ہے۔ جس جمہوریت کے لیے ہم سب نے جدوجہد کی اور کچھ نے بہت تکلیفیں بھی اٹھائیں کیونکہ نامساعد حالات میں بھی اس کے ساتھ نظریاتی طور پر جڑے رہے ، اُن کی جدوجہد کا مقصد عوام تک جمہوریت کے ثمرات پہنچاتے ہوئے ان کی زندگیوں میں بہتری لانا تھا، لیکن اب وہ دیکھتے ہیں کہ جمہوریت عوام کی بجائے اشرافیہ کے مفاد کا تحفظ کررہی ہے۔
اس گفتگو کا مقصد جمہوریت کو رد کرنا نہیں بلکہ اس کی سمت درست کرتے ہوئے اسے تقویت دینا ہے تاکہ وہ اشرافیہ کے چنگل سے رہائی پاکر عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لاسکے۔ ایسا اُس وقت ہی ممکن ہے اگر ہم تاریخ سے سبق سیکھیںاور دیکھیں کہ کامیاب جمہوریت کسے کہتے ہیں یا جن ممالک میں جمہوری قدریں فروغ پذیر ہوئیں، وہاں جمہوری خدوخال کیا تھے۔ ایک اچھے معاشرے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کے شہری اختیار اور ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وہ مقامی سطح سے ہی حکومت سازی میں اپنا کردار اداکرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس کا مطلب مقامی سطح سے جمہوری قدروں کااحیاء ہے۔ ہمارے پاس کچھ وقت اور توانائی ہونی چاہیے تاکہ ہم اس کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اس کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ عوام اپنے ایکشن کو مربوط کرتے ہوئے ایک گروپ تشکیل دینے کے قابل ہوں۔ سول سوسائٹی کے یہ گروہ آج جمہوریت کے روح ورواں سمجھے جاتے ہیں۔ تیسری شرط یہ ہے کہ لوگ اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کریں ۔
اگر ہم سیاسی اور جمہوری عمل کی خامیاں دیکھ کر اس سے لاتعلق ہوکر بیٹھ رہیں گے تو معاملات مزید خراب ہوتے جائیں گے ۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت کوئی بنا بنایا نظام نہیں بلکہ یہ ہر معاشرے میں اپنی قدروں اور وہاں کے مقامی سماج کے ساتھ مل کر ارتقا پذیر ہوتی ہے۔ ہم بھی ایک ارتقائی عمل کا حصہ ہیں۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم مقامی حکومتوںکے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ ہمارے پاس معقول انداز میں جمہوری نظریات کی ترویج کے لیے وقت ہونا چاہیے۔ تاہم ہمارے ہاں جمہوریت کا مطلب سیاسی جذباتیت سمجھا جاتا ہے۔۔۔ کسی سیاسی شخصیت کے ساتھ اندھی جذباتی وابستگی۔ اس سوچ کو تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ہم ذہنی اور فکری آزادی کے ساتھ سیاسی فیصلے کرسکیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی آواز بلند کرتے رہنا چاہیے۔