تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     04-02-2015

سانحۂ شکار پور اور اس کے مضمرات

شکار پور سندھ میں حالیہ خود کش حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔انسانیت کے دشمنوں نے اپنے مکروہ اور مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے 60سے زیادہ معصوم شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا اور بیسیوں کو شدید زخمی کر دیا۔پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کایہ واحد واقعہ نہیں ہے۔اس سے قبل ملک کے مختلف حصے خصوصاً بلوچستان،کراچی،ڈیرہ اسماعیل خان، گلگت بلتستان اور قبائلی علاقوں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر خون ریز تصادم ہوچکے ہیں۔لیکن شکار پور کا یہ اندوہناک واقعہ اس لیے اہم اور حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے،کہ یہ اندرونِ سندھ میں وقوع پذیر ہوا ہے جو صوفیائے کرام کی تعلیمات اور ہدایات کے زیرِ اثر ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ پر سکون رہا ہے۔جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ اس لحاظ سے پاکستان کے منفرد حصے سمجھے جاتے ہیں کہ یہاں مذہبی رواداری کا غلبہ رہا ہے۔حتیٰ کہ تقسیم ہند کے موقعہ پر 1947ء میں جب ملک کے دیگر حصوں خصوصاً بالائی اور وسطی پنجاب اور شہری علاقے ہندو مسلم فسادات کی آگ میں جل رہے تھے،جنوبی پنجاب اور سندھ پر سکون رہے۔یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں سے غیر مسلموں کی بڑی تعداد نے بھارت کا رخ نہیں کیا تھا اور جو گئے انہیں ان کے مسلمان ہمسایوں نے آنسوئوں کے ساتھ رخصت کیا۔جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ میں مذہبی رواداری اور عدم تشدد کی یہ روایت قیام پاکستان کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک قائم رہی۔حتیٰ کہ پاکستان کے دوسرے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کی لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی سرپرستی کی پالیسی کی وجہ سے پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکنے لگی،لیکن جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ خصوصی طور پر اس کے شعلوں کی لپیٹ میں آنے لگے۔اس کی وجہ خالصتاً سیاسی تھی۔پاکستان کے یہ حصے پاکستان پیپلز پارٹی کے گڑھ تھے اور جنرل ضیاء الحق کے سامنے سب سے بڑا ہدف پیپلز پارٹی کی قوت اور حمایت کو ختم کرنا تھا۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ شکار پور میں دہشت گردی کا یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا ہے جب وزیراعظم محمد نوازشریف کے بقول کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہورہی ہے۔ابھی وزیراعظم کی طرف سے یہ بیان دیا گیا تھا اور ادھر دھماکہ ہوگیا۔کیا دہشت گردی پھیلانے اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والی طاقتیںحکومت کو یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہیں کہ کراچی میں بہتر حالات کے بارے میں حکومت کے دعوے کھوکھلے ہیں؟شکار پور میں فرقہ وارانہ حملہ کرکے دہشت گردوں نے حکومتِ سندھ کے خلاف ایک اور محاذ کھول دیا ہے۔اس کا ایک مقصد کراچی سے حکومت کی توجہ ہٹا کر شہر میں دہشت گردوں پر دبائو کو کم کرنا بھی ہوسکتا ہے۔کیونکہ رینجرز اور پولیس کی مدد سے کراچی میں گذشتہ 16ماہ سے جو آپریشن جاری ہے،اس کے خاطر خواہ تنائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔رینجرز اور پولیس حلقوں کی طرف سے مہیا کی جانے والی اطلاعات کے مطابق دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث کالعدم تنظیموں کے درجنوں کارکنوں کو مقابلے میں ہلاک کیا جاچکا ہے یا گرفتار ہوچکے ہیں۔دہشت گردوں نے شکار پور میں دہشت گردی کی واردات کر کے پورے سندھ میں کراچی جیسے آپریشن کو شروع کرنے کی دعوت دی ہے۔حکومتِ سندھ کے ایک بیان جس میں اندرونِ سندھ بھی رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کا اشارہ دیاگیا ہے،سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی کی طرح اب صوبے کے باقی حصوں میں بھی حکومت سخت اقدامات کرنے والی ہے۔
تجزیوں،تبصروں اور بیانات میں شکار پور کے اس المناک واقعہ کی مختلف توجیحات پیش کی جارہی ہیں۔کوئی اسے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب کا ردِ عمل قرار دے رہا ہے۔بعض حلقوں کے نزدیک فرقہ وارانہ قوتوں کی طرف سے یہ حملہ ایک وارننگ کی حیثیت رکھتا ہے کونکہ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کیلئے جس 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا ہے،اس میں ان فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف بھی اقدام کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد نئے ناموں سے سرگرم عمل تھیں۔اس امکان کے پیش نظر ان میں سے بعض تنظیموں کے رہنمائوں نے خصوصاََ پنجاب میں اعلیٰ حکام سے رابطہ بھی قائم کیا ہے۔اطلاعات کے مطابق پنجاب میں جہاں ان انتہا پسند، فرقہ وارانہ اور جہادی تنظیموں کے گڑھ ہیں،انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں۔لیکن ان تنظیموں کو معلوم ہے کہ سیاسی حکومت خواہ وہ مرکز کی ہو یا صوبائی،کے پاس ان کے خلاف اقدام کرنے کا نہ تو اختیار ہے اور نہ سکت۔جو طاقتیں اصل قوت کی مالک ہیں، سانحہ پشاور کے بعد ان کے تیور بدلے ہوئے ہیں اور وہ اعلان کر چکی ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں کوئی رورعایت نہیں برتیں گی۔ تمام دہشت گردوں کے خلاف یکساں کارروائی ہوگی۔
شکار پور میں خون کی ہولی کھیل کر دہشت گرد تنظیموں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں بہیمانہ کارروائی کر کے پورے ملک میں آگ لگا سکتے ہیں۔شکار پورکے واقعہ نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ حکومت اپنے تمام تر وسائل اور دعوئوں کے باوجود کتنی بے بس ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ مدافعانہ انداز میں لڑی جارہی ہے۔پہلے وار کرنے کی سہولت دہشت گردوںکے ہاتھ میںہے اور جو جنگ مدافعانہ انداز میں لڑی جارہی ہو،اس میں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔اپنے تمام تر وسائل اور مین پاور کے باوجود حکومت کا انداز مدافعانہ ہے بلکہ معذرت خواہانہ ہے۔جب تک اسے جارحانہ Offensiveانداز میں نہیں لڑا جاتا،کامیابی ناممکن ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے مل کر جو20نکاتی نیشنل ایکشن پلان وضع کیا ہے،وہ سابقہ تمام حکمتِ عملیوں کے مقابلے میں زیادہ جامع اور حکومت کی سنجیدگی اور تشویش کا پوری طرح عکاس ہے۔لیکن حصولِ مقصد میں کامیابی اعلانات،بیانات یا میٹنگ پر میٹنگ سے نہیں ہوتی۔اس کے لیے ٹھوس اور جرات مندانہ عملی کارروائی کی ضرورت ہے۔اس وقت عملی اقدام تو صرف فوج کی طرف سے قبائلی علاقوں میں ضربِ عضب یا کراچی میں رینجرز اور پولیس کے آپریشن کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ لیکن یہ کارروائیاں صرف ان علاقوں تک محدود ہیں۔اگر ان دوعلاقوں میں دہشت گرد پسپائی پر مجبور ہوجاتے ہیں،تو باقی پورا ملک ان کیلئے کھلا ہے۔جہاں ان کے کارندے بھی موجود ہیں اور انفراسٹرکچر بھی پہلے کی طرح موجود ہے۔ان سہولتوں کی موجودگی میں دہشت گرد کارروائی کیلئے اپنی مرضی کا وقت،اپنی مرضی کی جگہ اور اپنی مرضی کا ٹارگٹ بڑی آسانی سے چن سکتے ہیں۔شکار پور کا واقعہ اسی کی مثال ہے۔
چنانچہ اے این پی کے رہنما سینیٹرزاہد خان نے بالکل صحیح فرمایا کہ اگر حکومت یا فوج سمجھتی ہے کہ سات ماہ کے آپریشن ضرب عضب اور ایک سال سے زائد عرصے کے رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن سے بالترتیب قبائلی علاقوں یا کراچی میں دہشت گردوں کا صفایا ہوگیا ہے،تو یہ ان کی بھول ہے۔قبائلی علاقوں میں گذشتہ گیارہ برسوں میں متعدد آپریشن ہوچکے ہیں۔تازہ ترین ضرب عضب ہے۔لیکن دہشت گردوں کا مکمل صفایا نہیں ہوسکا۔ دہشت گردی مکمل ختم کرنے کے لیے تمام اداروں کو مل جل کر عملی کارروائیاں کرنا ہوں گی۔ کسی ایک ادارے کے بس کا یہ کام نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved