تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-02-2015

انکشاف

پروفیسر احمد رفیق اختر سے گفتگو کے بعد اکثر لوگ حیران پریشان لوٹتے ہیں ۔ اکثر یہ ہوتاہے کہ عمر بھر کے آپ کے نظریات لرز کے رہ جاتے ہیں۔ اپنے فرقے اور اساتذہ کے بت گرنے لگتے ہیں ۔خدا تک رسائی کا عمومی تصور بکھرکے رہ جاتاہے ۔ ان گنت نوجوان اب خوف سے آزاد، محبت کی راہ میں بگٹٹ اپنے رب کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔ یہ ہوتاہے استاد۔ ایک ایسا آدمی ، اپنے زمانے سے جو واقف ہو اور تاریخِ انسانی پہ جس کی گہری نظر ہو ۔ زندگی بھر گہرے غو ر وفکر سے جس نے بڑی سچّائیاں ڈھونڈ نکالی ہوں ۔ اپنے ایک فقرے سے وہ آدمی کو جھنجوڑ ڈالتا اور زندگی کی ادنیٰ ترجیحات کو ٹھوکر لگاتے ہوئے خدا کی طرف توجہ دلاتاہے ۔
نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا تھا: دانا وہ ہے ، جو اپنے زمانے سے واقف ہو ۔ پروفیسر صاحب اس زمانے پہ گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ خدا کے پیغام ، قرآن او رحدیث کے مطالعے میں جہاں کہیں ضرورت تھی ، عصری علوم اور جدید سائنسی تحقیقات سے انہوں نے فائدہ اٹھایا۔ مذہبی سکالرز میں ان کا امتیاز یہ ہے کہ غلطی تسلیم کرتے ہیں ۔ کل جب انہوں نے یہ کہا کہ ایک بہت بڑی چٹان زمین سے چند میل کے فاصلے سے گزری ہے تو میں نے اپنے موبائل پر گارڈین کی خبر انہیں دکھائی ۔ چند میل نہیں ، نصف کلومیٹر قطر کا پتھر ساڑھے سات لاکھ میل کے فاصلے سے گزرا ہے، چاند سے تین گنا دور۔پروفیسر صاحب مسکرائے اور شکریہ ادا کیا۔
گفتگو کا رخ بدل گیا۔ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ایسا ہی ایک دم دار سیارہ کرّ ہ ء ارض پہ بڑی تباہی کا باعث بنا تھااور انسانی زندگی پہ اس کے بڑے اثرات رونما ہوئے تھے ۔ ایک بڑا شہابِ ثاقب چاند کی تباہی کا باعث بنتے ہوئے انسانی زندگی کو متاثر کر سکتاہے ۔ زمین پہ زندگی کی بنیادمیں ایک بڑا چاند انتہائی مثبت اثرات کا حامل ہے ۔ زمین کے مدار کو وہ مستحکم رکھتا ، نتیجتاً شدید موسموں سے بچاتاہے ۔ 
یہ چھ ماہ پہلے کاذکر ہے ، جب مختلف برّاعظموں میں انسانی باقیات ، انسانی ارتقا کے سائنسی ثبوتوں اور قرآن کریم میں موجود حقائق پہ بات ہوئی ۔ حقیقی معنوں میں قرآن و حدیث پہ غور و فکر نہ کرنے اور سائنسی مطا لعے کی زحمت نہ کرنے کی وجہ سے زمین پہ انسان کی آمد کے بارے میں ہمارا تصور بہت سادہ ہے ۔ یہ کہ آدمؑ نے ممنوعہ شجر تک رسائی کی غلطی کی ۔ سزا کے طور پر انہیں زمین پہ اتار دیا گیا اور یہیں سے انسانی نسل کا آغاز ہوا۔ یہ بات بالکل درست ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسانی باقیات کا مطالعہ آپ کو بہت سی پیچیدگیوں سے روشناس کرتاہے ۔ زمین پہ انسانی باقیات کی عمر کروڑوں برس ہے ، جب کہ ذہین انسان ، 
جس کے ساتھ آپ کو مذہب، علوم و فنون، جدیدہتھیاروں اور ثقافت کے آثار ملتے ہیں ، اس کی عمر محض چالیس سے پچاس ہزار برس ہے ۔ اس سے قبل کی مختلف انسانی نسلوں کا مطالعہ یہ بتاتاہے کہ دوسرے جانوروں سے وہ ذہین ضرور تھا ۔ پتھر کے اوزار بھی اس نے بنا لیے تھے، ہماری موجودہ دماغی صلاحیت کا بہرحال وہ عشرِ عشیر بھی نہ تھا۔ پھر یہ کہ انسانوں کی کئی اقسام گزری ہیں ۔ ناپید ہونے سے قبل یورپ کے نی اینڈرتھل آدمی نے تین سے چار لاکھ سال تک کامیاب زندگی گزاری ۔ وہ ہم سے بڑے سر البتہ چھوٹے قد کاٹھ کا آدمی تھا۔ حیرت انگیز طور پر صفحہ ء ہستی سے اس کے مٹ جانے کا وقت وہی تھا، جب ہماری صورت کا جدیدانسان یورپ اور ایشیا سمیت کرۂ ارض پہ پھیل رہا تھا ۔ سائنسی طور پر نی اینڈرتھل آدمی کی باقیات بشمول ڈی این اے اس قدر صحت کے ساتھ موجود ہیں، جیسا کہ ڈائنا سار کے وجود پہ ہمیں کوئی شبہ نہیں ۔ فرق یہ ہے کہ ڈائناسار کا وجود مذہبی طور پر ہمارے لیے کوئی اثرات نہیں رکھتا۔ 
یہاں پروفیسر صاحب انیسویں صدی کے امریکی مصنف، تاریخ دان اور دانشور ول ڈیورینٹ اور بارہویں صدی کے مسلمان سکالر ابنِ عربی (جس کے بہت سے نظریات سے وہ متفق نہیں ) کی تحقیق میں مشابہت بیان کریں گے ۔ ابنِ عربی کہتاہے کہ آدم کا جسم بنا کر خدا پچاس ہزار سال تک اس پہ نگاہِ کرم کرتا رہا ۔ دونوں کے نزدیک چالیس پچاس ہزار سال قبل انسان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا تھا۔ ول ڈیورینٹ کے الفاظ میں انسانی دماغ پہ برق نازل ہو ئی تھی ۔اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑھ گئی تھی ۔
پروفیسر صاحب جو روداد بتاتے ہیں ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آخری عظیم برف باری (Ice Age)میں انسانی نسل سرے سے نیست و نابود ہو گئی تھی ۔ صرف ایک وجود باقی بچا، بڑی حفاظت کے ساتھ جسے گہری نیند سلا دیا گیا تھا۔ وہ ایک کمتر دماغ کا آدمی تھا۔ اوپر آسمان پر آدمؑ سے غلطی ہوئی ۔ زمین پر انہیں اتارا اور واحد بچ رہنے والے انسانی جسم میں قید کر دیا گیا۔ روحِ آدم کے انسانی بدن میں قید ہونے کا واقعہ ہی وہ برق تھی ،جس نے انسانی دماغ کو موجودہ صورت میں ڈھالا ۔ یہی پہلا جواب دہ انسان تھا۔ اس کے علاوہ زمین پہ جتنے بھی جانور آپ دیکھیں گے ، ان کے اندر ارواح موجود ضرور ہیں لیکن کمتر درجے (Quality)کی۔ کسی کو وہ جواب دہ نہیں ۔ بظاہر انسان بڑا خوش نصیب ہے لیکن برتری دلانے والی عقل کی سب سے بڑی قیمت یہ ہے کہ ایک دن ہمیں جواب دینا ہے ۔یہ بڑا مشکل سفر ہے اور خدا کا ہاتھ تھام کر ہی انسان سرخرو ہو سکتاہے ۔ 
یہاں ایک شریکِ محفل نے اعتراض اٹھایا: پروفیسر صاحب ،جو نظریہ آپ پیش کر رہے ہیں ، پہلے کبھی اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ وہ مسکرائے اور یہ کہا : یہ کھیل تو آج بھی جاری ہے ۔ ماں کے پیٹ میں بچّہ گوشت کا لوتھڑا ہی تو ہوتاہے ۔ یہ تیسرا ماہ ہوتاہے ، جب اس میں روح وارد ہوتی ہے ۔ خود سوچیے ، جنت سے روحِ آدمؑ نکالی گئی تو آزمائش کے لیے ایک کمزور انسانی جسم کے سوا کہاں اسے رکھاجاتا۔ یوں بھی جسم نہیں، روح ہی اہم ہے ۔ مرنے کے بعد ہمارے جسم مٹی ہو جائیں گے ۔ جنت میں ہمیں نئے جسم دیے جائیں گے ۔ جہنم والوں کے بارے میں خدا کہتاہے کہ جب بھی ان کی جلد(جسم) جل جائے گی ، انہیں نئی جلد دے دی جائے گی ۔ پروفیسر صاحب کے الفاظ میں جسم ایک موبائل فون جب کہ روح سم کی مانند ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved