تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     05-02-2015

اب اور نہیں

پہلی بار سن رہا ہوں کہ ہماری ایجنسیوں نے‘ ہر سطح پر دہشت گردوں کی طاقت کے سوتے خشک کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ پاکستان گزشتہ تیرہ چودہ برس سے‘ اس عذاب میںمبتلا ہے۔ پہلے مرحلے میں ضیاالحق نے سی آئی اے کے جو جتھے تیار کر کے‘ افغانستان کے اندر لاقانونیت کے لئے اتارے تھے‘ انہیں ہمارے ہی ملک میں فاٹا کے اندر تیار کیا گیا تھا۔ اس پر رحمن ملک نے ایک کتاب لکھی ہے۔ جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ وہ نام نہاد ''مجاہدین‘‘ کون تھے؟ اور کہاں سے آئے تھے؟ آپ پڑھیں گے تو دنگ رہ جائیں گے۔ یہ مجاہدین وہ تھے‘ جو عرب ملکوں میں مجرمانہ کارروائیاں کر کے‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں میں آ گئے تھے اور سزائوں سے بچنے کے لئے فرار ہو کر دوسرے ملکوں میں پناہ گزین تھے۔ ان میں مراکش‘ سعودی عرب‘ مصر‘ عراق اور نہ جانے کہاں کہاں کے غنڈے اور بدمعاش تھے؟ انہیں یہاں مختصر تربیت دے کر‘ ان افغان کمانڈروں کے گروہوں میں شامل کیا گیا‘ جنہیں آئی ایس آئی نے تیار کر کے‘ افغانستان میں نام نہاد ''مجاہدین‘‘ کا کمانڈر بنایا ہوا تھا۔میں جانتا ہوں ‘ آج کی آئی ایس آئی‘ وہ کانٹے نکالنے کا وطن پرستانہ فرض انجام دے رہی ہے‘ جو جنرل ضیاالحق اور ان کے ساتھیوں نے بوئے تھے۔ بہرحال یہ ماضی کا قصہ ہے اور اسے حقائق کی روشنی میں ہی لکھنا چاہیے‘ اب اس حقیقت پر شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ امریکہ نے افغانستان میں‘ سوویت افواج کے داخلے کے لئے میدان کیسے ہموار کیا؟ اور پھر جہاد افغانستان کا محاذ کیسے منظم کیا؟ باخبر پاکستانی ان تمام حقائق سے اچھی طرح آگاہ ہیں‘ جن کی طرف میں اشارے کر رہا ہوں۔ سیدھی سی بات ہے‘ جنرل ضیاالحق ‘ جو اپنے عوام سے خوفزدہ تھا‘ امریکیوں کا سہارا لینے کے لئے ہر جتن کر رہا تھا۔ 
یہ پاکستان کے تمام آمروں کا المیہ رہا ہے۔ وہ اپنے عوام کی مرضی اور منشا کے خلاف‘ اقتدار پر قبضہ کر تے رہے۔ بعض نے قبضہ کرنے سے پہلے‘ امریکہ سے اپنی سلامتی کی ضمانتیں لیں اور بعض نے اقتدار میں آنے کے بعد۔ مگر جہاں تک مجھے یاد ہے‘ پاکستان کے ہر فوجی آمر نے اقتدار پر قبضے سے پہلے‘ امریکہ کو اپنی خدمات پیش کر کے‘ اپنے تحفظ کی ضمانتیں طلب کیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والے کسی بھی پاکستانی آمر کو خراش تک نہیں آئی۔ امریکیوں نے پاکستان سے کئے ہوئے وعدے ضرور توڑے ہوں گے لیکن پاکستانی عوام کے غداروں سے کیا ہوا کوئی وعدہ نہیں توڑا۔ حد یہ ہے کہ یحییٰ خان‘ ہمارا ملک توڑنے کے بعد بھی‘ ہمارے ہی ملک میں زندہ سلامت رہا اور فطری موت مرا۔ ورنہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ‘جس طرح نوجوان فوجی افسر غضبناک ہو کر اسے انجام تک پہنچانا چاہتے تھے اور پاکستانی شہریوںنے جس طرح انتقامی جذبات سے مغلوب ہو کر پشاور میں‘ یحییٰ خان کے ذاتی گھر پر حملہ کیا تھا‘ اس سے پاکستانی قوم کے اجتماعی ردعمل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یحییٰ خان کی حفاظت‘ عوامی جذبات کو نظرانداز کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔ اس لئے کہ امریکہ‘ ان سے یحییٰ خان کی زندگی کا وعدہ لے چکا تھا۔ میں جب بھی اپنے ملک کے ماضی پر نظر ڈالتا ہوں‘ تو شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ہمارے ہم وطنوں نے ہی‘ ہمارے ملک کو تباہی کے اس درجے پر پہنچایا ہے کہ آج دنیا بھر کے مسافر طیاروں کو حکم ہے کہ پاکستان کی فضائوں سے گزرتے ہوئے‘ ایک خاص بلندی سے نیچے نہ آئیں۔ امریکی صدر باراک اوباما ہو سکتا ہے بھارت جاتے ہوئے پاکستان سے گزرتے۔ لیکن انہیں یہی تجویز دی گئی کہ پاکستان کی فضائوں سے گزرنا خطرے سے خالی نہیں۔ دوسروں کی طرف کیا دیکھیں؟ چین ہمارا دوست اور ساتھی ہے۔ چینی صدر نے بھی واضح طور سے یہ کہہ کر پاکستان کا دورہ ملتوی کیا تھا کہ وہاں کے حالات سازگار نہیں۔ پاک چین تعلقات کا پس منظر ذہن میں رکھتے ہوئے‘ چینی صدر کا یہ کہہ کر‘ ایک طے شدہ دورہ منسوخ کرنا‘ ہمارے لئے شرم کی بات تھی۔ عام لوگ ‘ ضیاالحق کی تباہ کن پالیسی سے یک لخت انحراف کو جیسے چاہیں دیکھیں۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے دفاعی اداروں نے‘ اس دن یقینی طور سے اپنے ملک کی حالت پر غور کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہو گا کہ اب اور نہیں!
چینی صدر کا دورہ پاکستان منسوخ کرنا‘ عام شہریوں کے نزدیک تو شاید اہمیت نہ رکھتا ہو۔ لیکن پاکستان کے باخبر ادارے خصوصاً سکیورٹی کے ادارے‘ اس روز یقینا سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہوں گے‘ جب چین کی طرف سے مذکورہ دورے کی تنسیخ کا پیغام آیا۔ ہم نے آزادی کے بعد خارجہ تعلقات میں قدم قدم پر جھک ماری ہے۔ ہمارے حکمران کوئی‘ ایک بھی ایسا بڑا فیصلہ نہیں کر سکے‘ جس سے پاکستان کو قابل ذکر فوائد پہنچے ہوں۔ واحد فیصلہ‘ چین کو اس وقت تسلیم کرنے کا تھا‘ جب امریکہ اور اس کے حواری‘ اسے تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ چینیوں نے پاکستان کی طرف سے خیرسگالی کے اس معمولی سے مظاہرے کو‘ بہت اہمیت دی اور اس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات‘ انتہائی مثبت انداز میں آگے بڑھے۔ اس دوران ہمارے حکمرانوں نے اپنی عادت کے مطابق ‘چینی دوستوں سے بھی دغابازی کی۔ مثلاً جب چین ‘سرمایہ دار بلاک سے تعلق رکھنے والے کسی ملک کی فضائی کمپنی کو اپنی فضائوں میں پرواز کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا‘ اس نے پی آئی اے کو اپنی مسافر پروازیں‘ چین میں اتارنے کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن میں آپ کو یہ بتا کر خود بھی شرمندہ ہو رہا ہوں اور شاید آپ کو بھی کر رہا ہوں کہ جب ہمارے جیٹ طیاروں نے چین میں پروازیں شروع کیں‘ تو ہمارے حکمرانوں کے آقا‘ امریکہ نے حکم دیا کہ ان طیاروں میں ہمارے حساس ترین کیمرے نصب کرا ئو۔ کیونکہ ہم انتہائی بلندی پر‘ خلائوں میں گھومتے سیاروں سے چینی سرزمین کو نزدیک سے نہیں دیکھ سکتے۔ پیرعلی محمد راشدی جو کہ ''اخبارجہاں‘‘ میں اپنی زندگی کے یادگار تجربوں پر مشتمل مضامین‘ میرے قارئین کے لئے لکھا کرتے تھے‘ انہوں نے یہ سارا واقعہ مجھے تفصیل سے بتایا تھا۔چینیوں کو ہماری اس کارستانی کا پتہ چل گیا تھا۔ جب یہ بات بھٹو صاحب کے علم میں آئی‘ تو انہوں نے فوری طور پر چینی حکام سے رابطہ کر کے خود ہی بیان کر دیا کہ پی آئی اے کے طیاروں کے ذریعے جو حرکت کی جا رہی ہے‘ وہ ابھی ان کے علم میں آئی ہے اور انہوں نے ہر طرح سے تسلی کر کے‘ چینی حکام سے رابطہ کیا کہ ایسے تمام کیمرے اتار دیئے گئے ہیں۔ مشکوک افراد کو معطل کر کے‘ ان کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ جس پر چینیوں نے جواب دیا کہ ''ہمیں تو بہت پہلے سے اس حرکت کا علم تھا۔ لیکن آپ نے ذمہ داروں کو پکڑ لیا ہے‘ تو بہت شکریہ۔ ‘‘
آج اسلام آباد میں جن لوگوں کی حکومت ہے‘ انہوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ چین کے صدر نے‘ دورہ پاکستان منسوخ کر کے ہمیں کیا پیغام دیا ہے؟ اس کے بعد سفارتی سطح پر انتہائی تیزرفتار نامہ و پیغام کے تبادلے ہوئے۔ جہاں جہاں اور جس جس سطح پر بدگمانی تھی‘ اسے دور کیا گیا۔ پاکستان کو بھارت کی طرف سے جب بھی کوئی تشویش ہوتی ہے‘ تو بیرونی دنیا میں ہم پہلا مشورہ چین سے کرتے ہیں۔ مودی حکومت کے بعد‘ جنگ بندی لائن پر بھارت کی مسلسل جارحیت میں چھپے ہوئے پیغام کو‘ پاکستان کے دفاعی ماہرین اچھی طرح سمجھتے ہیں اور چینیوں کو بھی‘ بھارت کے ساتھ اپنی جنگ بندی لائن کا تجربہ ہے۔ اب عالمی سطح کے ان ڈرامائی واقعات کی طرف آتا ہوں‘ جن کی خاطر یہ کالم لکھنا شروع کیا۔ امریکی صدر اوباما نے جب بھارت کادورہ طے کیا‘ تو یہ کوششیں چل رہی تھیں کہ صدر اوباما کو بھارت جاتے یا واپس آتے ہوئے ‘ پاکستان میں اترنا چاہیے۔اس پر غوروخوض ہو رہا تھا ۔ لیکن جیسے ہی چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ منسوخ کیا‘ امریکہ سے بھی جواب آ گیا کہ ہم اپنے صدر کو بھی پاکستانی فضائوں میں پرواز کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اسی وقت پاکستان اور چین کے درمیان ‘ دونوں ملکوں کے سکیورٹی سسٹم میں اعلیٰ سطحی رابطے ہوئے۔ طے پایاکہ جب اوباما دلّی میں ہوں گے‘ تو ہمارے چیف آف آرمی سٹاف بیجنگ کے مہمان بنیں گے۔ ہمارے چیف آف آرمی سٹاف‘ بیجنگ گئے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جنرل راحیل شریف نے وطن واپس آتے ہی‘ یوم جمہوریہ کی پریڈ کی تیاریاں شروع کرا دیں۔ اس پریڈ میں چین کے صدر مہمان خصوصی ہوں گے۔ جنرل راحیل کے دورہ چین کے بعد‘ پاکستان اور بھارت میں ایک دلچسپ ایٹمی مکالمہ ہوا۔ بھارت نے انٹرنیشنل بلاسٹک میزائل اگنی-V کا تجربہ کیا اور فوراً بعد پاکستان نے‘ اپنے ایٹمی کروز میزائل رعد کا تجربہ کر دیا اور میں اس خبرکو بھی اسی ''سلسلے‘‘ کا حصہ سمجھتا ہوں کہ چین بھی اپنی مسلح افواج کی قومی پریڈ کا اہتمام کر رہا ہے اور اس میں روس کے صدر پوٹن مہمان خصوصی ہوں گے۔ یہ میرا قیاس ہے کہ وہاں راحیل شریف کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ پاکستان کے اندر‘ دہشت گردی کے خلاف قومی قہروغضب کی جو لہر اٹھی ہے‘ اس میں دہشت گرد تو بہیں گے ہی‘ ان کے خفیہ ہمدرد اور سرپرست بھی بہہ جائیں گے۔امریکہ‘ داعش کو افغانستان اور پاکستان میں متحرک کر رہا ہے۔ لیکن ضیاالحق کا پاکستان ختم ہو چکا۔ یہ راحیل شریف کا پاکستان ہے۔ تاجروں کا نہیں۔ نشان حیدر والوں کا پاکستان ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved