یہ سوال بہت سے ذہنوں میں چکراتا رہا ہے کہ کیا پاکستان اسلامی ریاست کے طور پر حاصل کیا گیا اور کیا اس نے ایک انتہا پسند ریاست ہی بننا ہے؟مشہور مورّخ عائشہ جلال نے حال ہی میں اپنی کتاب، ''The Struggle for Pakistan‘‘ میں اس بحث کو شامل کیا ہے۔ وہ دلیل دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ پاکستان نہ تو مذہبی بنیادوں پر حاصل کیا گیا تھا اور نہ ہی یہ کوئی انتہا پسند ریاست بنے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسٹر جناح اسے سیکولر ریاست کے طور پر چلانا چاہتے تھے۔۔۔ ایک ایسی ریاست جہاں ہر کوئی اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرسکے۔ تاہم بعد میں آنے والے رہنمائوں نے اپنے سیاسی اور ارضی سیاسی مقاصد کو، جو بنیادی طور پر امریکی سٹریٹیجک مفاد اور بھارت دشمنی کے تابع تھے، تحفظ دینے کے لیے مذہب کا استعمال کیا۔ چنانچہ وہ نتیجہ نکالتی ہیں‘ ہمارے معاشرے میں اتنی سکت ضرور موجود ہے کہ یہ انتہا پسندی کے گڑھے میں گرنے سے بچ سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں۔۔۔۔'' بہت سے پاکستانی‘ ریاست کی طرف سے سعودی مسلک کے اسلام کوتحفظ دینے پر اعتراض کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ پاکستانی موسیقی، فن، ادبی اور شوبز کی سرگرمیوں میں بھی اسی مزاحمت کا اظہار ملتا ہے‘‘۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ کوک سٹوڈیو ، فن ، فن کاروں، لکھاریوں اور مصوروں کی دنیا اُس دنیا سے بہت مختلف ہے جس میں عام افراد سانس لیتے ہیں۔اس دنیا کے پیمانے اور بیانیے بہت مختلف ہیں۔ اس دنیا میں وہ ساز اور موسیقی نہیں بلکہ اُس خود کش حملہ آور کی دھمک سنائی دیتی ہے جو شکار پور میں ساٹھ سے زائد افراد کو پل بھر میں خون میں نہلا دیتا ہے۔ عابدہ پروین، الن فقیر، شیخ ایاز اور بہت سے فن کار سندھ کی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیںہوتی کہ گزشتہ چند دہائیوں سے سندھی معاشرہ بتدریج انتہا پسندی کاشکار ہورہاہے۔
سندھ میں مدرسوں کا توانا نیٹ ورک موجودہے جسے خلیجی ممالک سے فنڈز ملتے ہیں۔ یہ مدرسے تنگ نظرسوچ کی، جسے یہ اپنے تئیں مذہب گردانتے ہیں، ترویج کرتے ہیں۔ درحقیقت کراچی کے کاروباری افرادجنوبی پنجاب میں پھیلے ہوئے فرقہ واریت کے گڑھ مدرسوں کی مالی امداد کرتے ہیں۔ شکار پور سے باہر نیٹو کے جلے ہوئے ٹرکوں کے ڈھانچوں پر تحریر نعرے‘ اسلامی نظام اور پی ٹی آئی کی فتح کی کہانی سناتے ہیں۔ سندھ کی دیواروں پر درج جہادی نعرے اور خاکے اس تبدیلی کی ایک اور یاددہانی کراتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ لوگ ابھی بھی لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر حاضری دیتے ہیں، لیکن اس سے معاشرے میں پھیلنے والی انتہا پسندی کا تدارک نہیں ہوپاتا۔
جاگیرداری نظام کے مخالف کسی بیانیے کی غیر موجودگی میں ایک ایسا درمیانہ طبقہ ابھر رہا ہے جو طاقت کا خواہاں ہے۔ سندھی جاگیرداروں کی تنگ نظری کا بھی اس کلچر کو فروغ دینے میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ ریاست کے ابھی تک سٹریٹیجک مقاصد ہیں۔ سندھ کے وزیر ِ اعلیٰ کے آبائی شہر میں بھی ایسے مدرسے موجود ہیں جو تنگ نظری پھیلاتے ہیں اور ماضی میں ان کا پرتشدد کارروائیوںسے تعلق بھی پایا گیا ہے۔ بلاول بھٹو کی طرف سے طالبان کو چیلنج کرنے یا ادھراُدھرکے کچھ بیانات داغنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ تمام تبدیلیاں پی پی پی کی حکومت کی نظروں کے سامنے واقع ہوئی اور ہورہی ہیں۔ انتہا پسندوں کے حامی‘ صوبے کی دیگر جماعتوں کی صفوں میں بھی موجود ہیں۔
ابھرتا ہوا تشدد اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کواس طرح پس ِ منظر میں نہیں دھکیلا جاسکتا جس طرح مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے 1947ء میں ہونے والی خونریزی کو بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک تقسیمِ ہند کے دوران ہونے والی خونریزی کی وجہ مذہب نہیں تھا۔ تاہم شکار پور میں ہونے والی خونریزی کے پیچھے یقینا مذہب کے مسخ شدہ تصورات کارفرما ہیں۔ اسی طرح دیگر فرقہ وارانہ قتل و غارت کے پیچھے مذہب کی من پسند تشریح کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ جب ہم نے 1971ء میںمشرقی محاذ پر عوام کے قتل کو برداشت کرلیا تو پھر ہمارے معاشرے نے یقینی طور پر اسی نہج پر ڈھلنا تھا۔ عام بنگالیوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دے کر اُن کے خلاف تشدد کو روا سمجھا گیا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک ہندو اساتذہ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اُنھوں نے پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے میدان ہموار کیا۔
کیا ہم یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ مسئلہ صرف پاکستان کے تشخص کی از سرِ نو تشکیل تک ہی محدود نہیں بلکہ تہذیبوں کے ٹکرائو کے بنیادی تصور کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے؟ہم یہ بات برملا کہہ سکتے ہیں کہ ملک کے عوام اور ان کے سماجی اور سیاسی افکار پر منٹو کی بجائے نسیم حجازی کا زیادہ غلبہ ہے۔ ادبی نقاد اجمل کمال نے ملک میں ہونے والے اکثر ''عالمی ادبی میلوں‘‘ اورعام افراد کی سوچ کے بارے میں لکھا ہے: یہ دومختلف دنیائیں ہیں۔ ایک طبقہ سیاسی طور پرنمایا ں اور خود کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں رہتا ہے تو دوسرا سیاست کی ناقص کارکردگی پر قانع رہتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ دونوں مختلف قسم کا ادب تخلیق کرتے ہیں اور ان کے سامعین بھی مختلف ہوتے ہیں؛ تاہم یہ صورت ِحال نئی نہیں ہے۔ دنیائے ادب ہمیشہ سے ہی منقسم رہی ہے۔ ایک وہ لکھاری ہیں جنہیں سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور دوسرے وہ جنہیں دوسرے درجے کے مصنف سمجھا جاتا ہے؛ تاہم دوسرے درجے کے یہ مصنف ہی عوام کے تخیل اور سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیںاور انہیں ہی زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ نسیم حجازی نے تاریخ کو فکشن کے رنگ میں رنگ دیا۔ اس نے عوام کی سوچ کو شدیدمتاثر کیا۔ دراصل تہذیب کے ٹکرائو کی تھیوری کے خالق Samuel Huntington نہیں بلکہ نسیم حجازی تھے۔ یکے بعد دیگرے مختلف ناولوں میں اُنھوں نے مسلمان مجاہد ہیرو متعارف کرائے جو یہودیوں، عیسائیوں اور ہندووں کے خلاف لڑتے تھے۔ اس صنف ِ ادب کو اپنانے والے دیگرمصنفین، جیسا کہ طارق اسماعیل ساگر نے غیر ملکی محاذوں پر ہونے والی بین المذاہب کشمکش کو اپنا موضوع بنایا۔ اُنھوں نے پاکستان کے مدِ مقابل سی آئی اے اور را کو لاکھڑا کیا۔ ابتدمیں اشفاق احمد اس گروہ میں شامل نہیں تھے لیکن ضیا دور کے بعد اُنھوں نے بھی صوفی ازم کی آڑ میں اتھارٹی کے سامنے اطاعت اور فرماں برداری کا درس دیا۔ اسی طرح بشریٰ رحمن نے خواتین کے ویسے ہی مثالی کردار تراشے جیسے نسیم حجازی کے ناولوں میں مسلمان مردوں(مجاہدین) کے ملتے ہیں۔ حجازی کا ناول ''داستانِ مجاہد‘‘ جہاد اور شہادت کو ایسا معمول بنا کر پیش کرتا ہے کہ ہر مسلمان گھرانہ اس کا متمنی ہوتا ہے۔ بہرحال والدین اور اساتذہ بچوں اور نوجوانوں کو منٹو پڑھنے سے تو منع کرتے ہیں لیکن اُنہیں نسیم حجازی پر کوئی اعتراض نہیں۔ ان کے ناول ہر سکول اور کالج کی لائبریری میں مل جاتے ہیں۔ ان ناولوں کے قارئین کی دنیا میں منٹو اور فیض کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دراصل نسیم حجازی کے ناولوں نے وہ ذہنی زمین تیار کی ہے جس میں ملا آسانی سے انتہا پسندی کے بیج بوسکتے ہیں۔ اسی فصل کا پھل تشدد ہے۔ رہی سہی کسر مذہب کی بنیاد پر قوم پرستی نے پوری کردی۔