تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     05-02-2015

کمزور کھانا

پچھلے دنوں وزیراعظم نوازشریف کراچی تشریف لے گئے۔ دورے کا پس منظر کراچی میں بگڑتی ہوئی امن وامان کی صورت حال اور ایم کیوایم کے کارکن کا ماورائے عدالت قتل تھا۔ وزیراعظم سٹاک مارکیٹ گئے تو کھانے کا اہتمام تھا۔ اخباری اطلاع کے مطابق مینو میں باربی کیو‘ فش فنگر، ملائی بوٹی ، کباب ، سپیشل دال چاول اور فروٹ ٹرائفل شامل تھے۔ مگر وزیراعظم نے اسے کمزور کھانا کہا۔ کھانے تو بے شمار تھے‘ ہوسکتا ہے کہ کک یا شیف میاں صاحب کے معیار کا نہ ہو۔ عام طور پر ایسی صورتحال ہو جائے تو بھی میزبان کا دل رکھنے کے لیے تعریف کردی جاتی ہے لیکن لگتا ہے کہ کم مزہ کھانے نے میاں صاحب کو سچ بولنے پر مجبور کردیا۔ اب یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ وزیراعظم ہزاروں میل کا سفر کرکے کراچی آئیں اور لذیذ کھانا بھی نہ ملے۔ لیکن ہمارے ایک درد مند دوست مصر تھے کہ کراچی کے حالات گمبھیر ہیں اور میاں صاحب کو کھانے کی کوالٹی کی فکر ہے۔ اپنی گورننس کی کوالٹی پر بھی غور کرلیا کریں۔
ویسے کھانا لاہوریوں کی کمزوری ہے۔ میں خود بھی دس سال لاہور میں رہا ہوں۔ مجھے آج تک نیو ہوسٹل کے باورچی محمد دین کا کھانا یاد ہے۔ لاہور میں اب بھی میرے کئی جگری دوست رہتے ہیں۔ وہاں جب بھی جاکر دوست کو اطلاع کرتا ہوں تو پہلی بات کھانے کی دعوت ہوتی ہے۔ مسقط میں انڈین سفیر اشوک کمار امرتسر سے تعلق رکھتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ میں لاہوری ہوں اور مجھے چھیڑتے ہوئے کہتے تھے کہ لاہور والے کھانے کے لیے زندہ ہیں اور اگر کھانا لاہور والوں کی کمزوری ہے تو لاہور میں رہنے والی کشمیری برادری تو بہت ہی خوش خوراک ہے اور غالباً میاں صاحب کا تعلق اسی برادری سے ہے۔ چلیں میاں صاحب سے ہٹ کر پاکستان کے ایک اور بڑے سیاست دان کی بات کرتے ہیں۔ 1996ء کی بات ہے۔ موصوف ان دنوں وزیر ماحولیات تھے۔ وزیراعظم کے شوہر کی حیثیت میں مرد اول بھی تھے۔ صدر امام علی رحمانوف کی دعوت پر دو شنبے آئے۔ پاکستان ایئرفورس کا پورا جہاز ان کے زیر تصرف تھا۔ ساتھ صرف سات آٹھ لوگ تھے اور ان میں سے ایک پی آئی اے کا شیف تھا جو بھنڈی پکانے میں مہارت رکھتا تھا۔ زرداری صاحب کو بھنڈی بہت پسند ہے۔
ویسے خوش خوراکی اور اچھی صحت کا تعلق نہ دینی طور پر ثابت ہے اور نہ دنیاوی میڈیکل سائنس کی رو سے۔ اقبال نے کہا تھا کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری اور پھر ایک اور جگہ لکھا کہ ؎
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدرؓ بھی عطا کر 
میں کئی ایسے ممالک میں رہا ہوں جہاں موٹاپا وبا کی شکل اختیار کرگیا ہے مثلاً کینیڈا جہاں فاسٹ فوڈ نے اپنے کمالات دکھائے ہیں اور خلیجی ممالک جہاں لائف سٹائل یکدم بدلا ہے۔ جو لوگ روزانہ میلوں پیدل چلتے تھے اب لمبی لمبی کاروں میں سفر کرتے ہیں یا پرائیویٹ ہوائی جہازوں میں۔ کھانے میں باسمتی چاول اور گوشت ہم سے کہیں زیادہ کھائے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے تھالوں میں چاولوں کا ڈھیر ہوتا ہے اور اوپر سالم روسٹ دنبہ۔ اہل خانہ تھال کے گرد بیٹھ کر ہاتھوں سے کھاتے ہیں۔ کچھ مشاق قسم کے لوگ ہاتھ میں چاولوں کی گیند بناکر سیدھا منہ کی طرف پھینکتے ہیں۔ اگر آپ کسی خلیجی عربی کے مہمان ہوں تو وہ خود گوشت کے پارچے آپ کی طرف کرتا جائے گا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج سے چالیس سال قبل گلف میں کل آبادی کا دو فیصد لوگ ذیابیطس کا شکار تھے آج یہ شرح دس فیصد سے تجاوز کرگئی ہے اور امراض قلب بھی بڑھ رہے ہیں۔
اور اب ذکر ہوجائے کچھ معروف لوگوں کی کھانے کی عادات کا۔ ایپل کمپیوٹر والے سٹیو جابز نے آئی ٹی کی دنیا میں بڑی شہرت پائی۔ سٹیو کئی کئی روز تک یا صرف گاجریں کھاتا رہتا تھا یا سیب ۔ امریکی صدر بارک اوباما بہت کم گوشت کھاتے ہیں۔ ان کی پسندیدہ خوراک بروکلی ہے جو کہ سرسوں کی فیملی کی ایک سبزی ہے۔ غالباً بروکلی کھانے کی وجہ سے صدر اوباما دبلے پتلے ہیں۔ روس کے وزیراعظم پوٹن کے تمام کھانے میز پر لگانے سے پہلے چیک ہوتے ہیں تاکہ یہ پتا چل سکے کہ کسی نے زہر تو نہیں ملا دیا۔ نیلسن منڈیلا ستائیس سال جیل میں رہے۔ وہ وہاں اپنی سبزیاں خود اگاتے تھے۔ گاندھی جی نے تمام عمر گوشت نہیں کھایا۔ شروع میں وہ کسی حیوان کا دودھ پینا بھی معیوب سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ ایسے بیمار ہوئے کہ ڈاکٹر کو علاج کے لیے بکری کا دودھ استعمال کرانا پڑا۔ اس کے بعد بکری گاندھی جی کی زندگی کا ایسا حصہ بنی کہ ٹرین کے سفر میں بھی ساتھ ہوتی تھی۔
سرد ملکوں کے لوگ گوشت زیادہ کھاتے ہیں۔ بابر ہندوستان آیا تو حیران ہوا کہ یہاں کے لوگ اناج کو اناج سے کھاتے ہیں یعنی روٹی اور دال یہاں کے اکثر لوگوں کی خوراک تھی۔ ہندوستان میں گوشت کا استعمال مسلمان فاتحین کے ساتھ آیا۔ میں جن ملکوں میں رہا ہوں ان میں سے مجھے شام اور یونان کے کھانے سب سے اچھے لگے۔ دونوں جگہ سلاد بہت اچھا بنتا ہے۔ شام اور لبنان کے کھانے ایک ہی ہیں اور دونوں میں واضح طور پر ترکی دسترخوان کی مماثلت نظر آتی ہے۔ شامی کھانوں سے پہلے کئی طرح کے Appetizers جنہیں عربی میں مقبلات کہا جاتا ہے‘ رکھے جاتے ہیں۔ یہ گویا کھانے کی تمہید ہیں۔ مقبلات میں مجھے حمص اور متبل پسند تھے۔ حمص چنے اورتل کو گرائنڈ کرکے بنایا جاتا ہے اور اوپر زیتون کا تیل دو چار چمچے ڈال دیا جاتا ہے۔ متبل دہی اور بینگن کو گرائنڈ کرکے بنتا ہے اور اس کے اوپر بھی تھوڑا سا روغن زیتون ہوتا ہے۔ شامی خبز کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے یہ مقبلات آرام آرام سے کھائے جاتے ہیں اور آخر میں گوشت کے تکے یا کباب ہوتے ہیں۔ میٹھے میں چاول کی فرنی یا ام علی پیش کی جاتی ہے۔ ام علی دراصل مصری ڈیزرٹ ہے جس کی کچھ کچھ مشابہت ہمارے شاہی ٹکڑے سے ہے لیکن ام علی میں روٹی کے ٹکڑوں کو دودھ میں پکایا جاتا ہے۔
بحیرۂ روم کے ممالک یعنی یونان ، اٹلی اور سپین وغیرہ کے کھانے صحت کے لیے بے حد مفید ہیں۔ یہاں گھی کا استعمال کم ہے۔ پنیر اور زیتون کا تیل کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ پھل، سبزیاں اور سلاد خوب شوق سے کھائے جاتے ہیں اور مچھلی کا گوشت اکثر دسترخوان کی زینت ہوتا ہے۔ اس پورے خطے میں لوگ صحت مند ہیں۔ امراض قلب بہت ہی کم ہیں اور کینسر کا مرض بھی باقی دنیا سے کم ہے۔ جتنے لذیذ سیب‘ مالٹے‘ آڑو اور انجیر میں نے یونان میں دیکھے ہیں اتنے کسی اور ملک میں نہیں۔ طبی ریسرچ یہ کہتی ہے کہ فروٹ اور سبزی کا کثرت سے استعمال درازی عمر کا باعث ہے۔ ویسے سبزی اور پھلوں کی فراوانی کے حساب سے پاکستان بھی خاصا خوش قسمت ملک ہے۔
سفارت کار ایک دوسرے کو کھانوں پر بلاتے رہتے ہیں۔ اکثر سفارت کاروں کو انٹرٹینمنٹ الائونس ملتا ہے۔ سفراء کا انٹرٹینمنٹ الائونس کافی زیادہ ہوتا ہے۔ اکثر مذاق میں کہا جاتا تھا کہ سفارت کاری دراصل سرکاری خرچ پر کھانا کھانے کا نام ہے لیکن اچھا سفارت کار وہ ہوتا ہے جو کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے حوالے سے باتیں بھی لطیف انداز میں کرتا جائے۔ میں نے مختلف ممالک کے سفراء کے بے شمار کھانے کھائے ہیں۔ یقین مانیے سب سے کمزور کھانا امریکی سفیر کے ہاں ہوتا تھا۔ چار جولائی کے قومی استقبالیہ پر بھی امریکی صرف چند چیزیں ہی رکھتے ہیں۔ اتنی کم کہ آپ سمجھیں گے کہ کسی غریب ملک کی طرف سے دعوت ہے۔ چونکہ امریکہ خود طاقت ور ہے لہٰذا کمزور کھانا کھلاکر اسے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی طبی ریسرچ موٹاپے کے خلاف شور مچارہی ہے اور یہ بات سنت رسول ؐ سے بھی واضح ہے کہ کم کھانا انسان کو صحت مند رکھتا ہے۔
روسی اور چینی دونوں خوش خوراک ہیں۔ روس میں برف بہت پڑتی ہے لہٰذا گوشت گھریلو مینو کا حصہ ہوتا ہے۔ جسم کی حرارت کے لیے روسی کھانے کے ساتھ اپنی مشہور شراب ووڈکا کو بھی تصرف میں لاتے ہیں۔ روسی دعوتوں میں تواتر کے ساتھ میزبان کے لیے ٹوسٹ تجویز کیے جاتے ہیں اور ہر مہربان چند تعریفی جملے ضرور بولتا ہے۔ ایسے موقعوں پر میں ووڈکا کی بجائے پیگ میں پانی ڈال کر ٹوسٹ تجویز کرتا تھا۔ دونوں کا رنگ ایک ہی ہوتا ہے لہٰذا کام چل جاتا ہے۔ ویسے بھی سفارتی دنیا میں کوئی کسی کو شراب پینے پر مجبور نہیں کرتا۔
کھانوں کے سب سے زیادہ کورس چین میں ہوتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا کھانا آتا جاتا ہے۔ ٹوسٹ تجویز کرنے کا رواج چین میں بھی ہے۔ چین میں کھانوں میں گھی استعمال نہیں ہوتا‘ لہٰذا کم تیل میں پکائے ہوئے یا ابلے ہوئے کھانے زود ہضم ہوتے ہیں۔ پاکستان میں مچھلی کو تیل کی کڑاہی میں فرائی کرنے کا رواج ہے لیکن یونان اور چین میں بغیر تیل کے بھنی ہوئی مچھلی ملتی ہے جو صحت کے لیے مفید ہے۔
پاکستان کے موجودہ معروضی حالات میں کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہماری اشرافیہ پانچ دس سال کمزور کھانا کھا لے اور قوم کو طاقت ور بنائے۔ آخر بارک اوباما بھی تو بروکلی کھا کرزندہ ہے اور سٹیو جابز نے گاجریں کھاکر کتنی اعلیٰ ایجادات کیں۔ ذرا سوچیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved