تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-02-2015

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

نیند بھی عجیب ہی نعمت ہے۔ ملتی ہے تو اِتنی ملتی ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ اور اگر گم ہوجائے تو اِنسان کو ایسا اور اِتنا عاجز کردیتی ہے کہ وہ اِس کی تلاش میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا دُنیائے طِب کی پُرخار وادیوں میں داخل ہو جاتا ہے اور جدید ترین تحقیق کو آزمائش میں ڈالنے پر تُل جاتا ہے! 
نیند کتنی ہونی چاہیے، یہ آج تک کوئی بھی ڈاکٹر یا حکیم طے نہیں کرسکا۔ یہ کم مِلے تو بیمار کرتی ہے اور زیادہ ملے تو لاچار۔ جو نہ سوئے وہ دُنیا کی باتیں سُنے اور جو زیادہ سوئے وہ زیادہ باتیں سُنے۔ یعنی چُھری اور خربوزے والے قِصّے کی طرح نتیجہ ایک ہی برآمد ہوتا ہے۔ جنہیں نیند نہیں آتی وہ ڈاکٹرز کو دُکھڑا سُناکر دوائیں مانگتے پھرتے ہیں۔ آج کل ڈاکٹرز کو مریضوں کی طرف سے نیند میں کمی کی اِتنی شکایات سُننی پڑ رہی ہیں کہ اُن کی اپنی نیند غائب رہنے لگی ہے۔ اور جنہیں زیادہ نیند آتی ہے وہ دوسروں کا دُکھڑا سُننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آپ کی بھرپور نیند سے متعلق دُکھڑا دو طرح کے لوگوں کا ہوتا ہے۔ ایک طرف تو اہل خانہ ہیں جو آپ کے زیادہ سونے سے پریشان رہتے ہیں۔ پریشان تو ہوں گے ہی کہ وہ کام کرتے رہتے ہیں اور بھرپور نیند نہیں مل پاتی! اُن کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ آپ کی نیند کا دورانیہ کسی طور کم ہو۔ اِس معاملے میں وہ خاصی محنت و مشقّت سے کام لیتے ہیں تاکہ آپ محنت و مشقّت کی طرف مائل ہوں! دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو لاکھ کوشش کرنے پر بھی ڈھنگ سے سو نہیں پاتے۔ پہلے وہ آپ کی بھرپور نیند کو رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر یہ رشک رفتہ رفتہ حسد میں تبدیل ہو جاتا ہے! اِس کے بعد اُن کا بیشتر وقت آپ کی پُرسکون نیند کو غارت کرنے کے طریقے سوچنے پر صرف ہوتا ہے! 
پاکستانی معاشرہ عجیب ہے۔ کسی کے پاس زیادہ سونے کا جواز ہے نہ کم سونے کا۔ سب نے اپنی مرضی سے طے کیا ہے کہ نیند کے ساتھ کیا سُلوک کرنا ہے۔ نیند جیسے اہم معاملے میں از خود نوٹس لیتے رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اللہ نے چوبیس گھنٹوں میں جو وقت سونے کے لیے مختص کیا ہے وہ یہ سوچنے میں گزر جاتا ہے کہ نیند کے طیارے اپنی آنکھوں کے پلیٹ فارم پر لینڈ کیسے کرائیں! 
نیند اللہ کی طرف سے طے یا مقرّر کردہ نظام ہے۔ جب ہم نے قدرت کے دوسرے بہت سے نظام تلپٹ کئے ہیں تو نیند کو بھلا کیوں ''اِستثناء‘‘ دیا جاتا! ایک زمانے سے ہمارے شُعراء نیند کے بارے میں ایسی اٹکل پِچّو قسم کی باتیں کرتے آئے ہیں کہ اشعار کی شکل میں اُن کے ذہن کی جَولانی کا نتیجہ دیکھنے والوں پر کبھی غُنودگی طاری ہو جاتی ہے اور کبھی نیند ہی اُچاٹ ہوجاتی ہے۔ شُعراء نے خدائی فوجدار کی حیثیت سے اُن سب کی دل بستگی کا ٹھیکا لے رکھا ہے جو محبت میں مُبتلا ہوکر رات بھر آہیں بھرتے ہوئے تارے گنتے رہتے ہیں۔ اُن کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے شُعراء دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ نیند کو بھی لپیٹے میں لیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو معاملہ کوسنے کی منزل تک پہنچ جاتا ہے ؎ 
کٹتی نہیں ہے غم کی رات آکے ٹھہرگئی ہے کیا
نیند تو خیر سوگئی، موت بھی مرگئی ہے کیا! 
اب نیند بھلا کیا جواب دے؟ آئے تو کوئی جواب دے۔ غُصّے کے مارے وہ آتی ہی نہیں اور عاشق بے چارے کروٹیں بدلتے بدلتے شام کو صبح اور رات کو دِن بناتے رہتے ہیں! 
یہ بھی اِنسان ہی کا کمال ہے کہ اوروں کی محفل میں جشن کا سماں دیکھ کر اُن کے رت جگے کے غم میں اپنی نیند کا بھی گلا گھونٹ دیتا ہے۔ ؎ 
ساقیا! آج مجھے نیند نہیں آئے گی 
سُنا ہے تیری محفل میں رت جگا ہے 
اب شاعر سے کون پوچھے کہ بھائی صاحب! کسی کی رات جاگ رہی ہے تو آپ کی آنکھوں سے نیند کیوں بھاگ رہی ہے! آپ کو کیا باؤلے کُتّے نے کاٹا ہے کہ ''بے فضول‘‘ میں جاگ کر اپنی آنکھوں کا ستیاناس کرنے پر تُلے ہوئے ہیں! مگر صاحب، شُعراء کے پاس اِتنا فالتو دماغ نہیں ہوتا کہ کام کی باتوں پر غور کرتے پِھریں! 
ہم پاکستانی کسی بھی کام کو ہر اُس جگہ کرتے ہیں جہاں نہیں کرنا ہوتا اور اُس جگہ نہیں کرتے جہاں کرنا ہوتا ہے۔ نیند کے معاملے میں ہمارا یہی وتیرہ اور مشرب ہے۔ جہاں کام کرنا ہو وہاں بھرپور نیند کا لطف لیا جاتا ہے اور جہاں سونا ہو وہاں جاگ کر خود بھی ہلکان ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی پریشانی سے دوچار رکھتے ہیں۔ 
ہمارے معمولات تو خیر ہیں ہی الل ٹپ۔ ایک نیند کا کیا مذکور، ہر معاملے میں ہم ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔ نیند کا بھی تو فرض ہے کہ ہمارے بارے میں ذرا سوچے اور ہمارے معمولات کی روشنی میں اپنے معمولات پر نظرِ ثانی کی زحمت گوارا کرے! یہ کم بخت ایسی سِتم ظریف ہے کہ جیسے ہی ہم دفتر میں قدم رکھتے ہیں، یہ Self-Activation پہ آجاتی ہے! جب تک ہم دفتر میں مصروفِ کار رہتے ہیں، یہ خود آرام کرتی ہے نہ ہمیں آرام کرنے دیتی ہے۔ ایک طرف تو غُنودگی دفتر میں ہمارا جینا حرام کرتی ہے اور اگر کبھی ہم ''مغلوب الخواب‘‘ ہوجائیں یعنی باقاعدہ سوکر چند خَرّاٹے لے لیں تو دفتر کے ساتھی شرمندہ کرنے پر تُل جاتے ہیں! ع 
خدا وندا! یہ تیرے ''سادہ دِل‘‘ بندے کِدھر جائیں! 
ہم سمجھتے ہیں ساتھ کام کرنے والوں پر اِتنا تو ضرور فرض ہے کہ ہم ذرا سی نیند لیں تو وہ پریشان نہ ہوں اور اپنا کام پوری ایمان داری سے جاری رکھیں! 
کام کے دوران سونا کچھ دفتر، فیکٹری یا دکان تک محدود نہیں۔ قتیلؔ شفائی مرحوم نے کہا تھا ؎ 
خود نُمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا 
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں! 
قتیلؔ شفائی کے کہے پر عمل کرتے ہوئے بہت سے ڈرائیور اِسی لیے چلتی گاڑی میں اسٹیئرنگ وھیل کو تکیہ بناکر سو جاتے ہیں۔ تکیہ سَر کے نیچے ہو یا تکیے پر مُنہ رکھا ہو، نیند ہر دو صورتوں میں آتی ہے اور خوب آتی ہے۔ دوسری صورت میں آنے والی نیند خاصی متعدّی ٹائپ کی ہوتی ہے یعنی ڈرائیور صاحبان وہ جب نیند کی وادی میں غوطہ زن ہوتے ہیں تو گاڑی میں سوار افراد کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔ گویا ؎ 
عشق کی اِک جست نے طے کردیا قصہ تمام 
اِس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں! 
کوئی شکوہ نہیں کرسکتا کہ ڈرائیور نے خود تو نیند کے مزے لے لیے اور ہمیں محروم رکھا! 
مرزا تنقید بیگ ایک زمانے تک بے خوابی کا شکار رہے ہیں۔ ہم نے جب اُن سے پوچھا کہ اب وہ بے خوابی ہے یا نہیں تو اُنہوں نے ایک روح فرسا قسم کا انکشاف کرکے ہمیں لاجواب کردیا۔ کہنے لگے۔ ''کیسی بے خوابی؟ ایک زمانہ ہوا، ہم تو بے خوابی سے نجات پاچکے ہیں۔‘‘ 
ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ بے خوابی کا کیا علاج کیا تو فرمایا۔ ''جب سے تمہارا کالم باقاعدگی سے پڑھنا شروع کیا ہے، ہمارا بے خوابی کا مسئلہ تو حل ہوگیا ہے۔ بات یہ ہے کہ بھائی کہ جب نیند ہماری آنکھوں سے کوسوں دور چل رہی ہوتی ہے تب ہم تمہارا کوئی کالم پڑھنے لگتے ہیں۔ ذرا سی دیر میں غُنودگی طاری ہوتی ہے اور آن کی آن میں نیند آن کر ہماری آنکھوں کو اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔ اور یوں ہم تیزی سے انٹا غفیل ہوجاتے ہیں!‘‘ 
مرزا کی یہ بات سن کر ہم پر ایسی غنودگی طاری ہوئی کہ ہم نے رسمی دعا سلام کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے فوراً گھر کی راہ لی کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ ذرا دیر اور بیٹھے تو مرزا کی باتیں سُن کر ویسے ہی انٹا غفیل ہوجائیں گے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved