تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-02-2015

موسمِ گل کا خواب

کشمیر کیسے آزاد ہو گا؟ پاکستان کیسے بنا تھا؟ 1947ء سے ربع صدی پہلے سپین کے سفر میں کسی نے سپنا دیکھا تھا ؎
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی 
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب 
پوٹھوہار میں بہار کا موسم دھوم مچاتا ہوا آتا ہے۔ کل شب چودھویں تھیں۔ گردشِ لیل و نہار کا وہ دن، جب چاند زمین کے سب سے زیادہ قریب آ جاتا ہے۔ شہر کے باہر ایک پہاڑی پر فاصلہ جیسے کم ہوتا گیا۔ لگا کہ ہاتھ بڑھائو تو چھو لو۔ بلال الرشید نے بتایا: ماہتاب سے سورج چار سو گنا بڑا ہے مگر برابر لگتا ہے کہ وہ کرّۂ خاک کے اتنا ہی قریب ہے۔ یہ اتفاق ہے یا خالق کے ذوقِ جمال کا مظہر؟ فرمایا: اللّٰہ جمیل و یحب الجمال۔ اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔
سحر وہی سنہری دھوپ۔ جھیل کی بجائے جنگل کا رخ کیا۔ شکر پـڑیاں میں سرِ راہ اس چھوٹی سی کینٹین پر تنہائی میسر ہے۔ مالٹے کے تین درختوں پر ثمر سنہری ہو گئے ہیں۔ پتوں کے بغیر ٹہنیاں دعا کے ہاتھ اٹھائے کھڑی ہیں۔ کچنار پر کونپلیں ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ مارگلہ کی بلندی پر قطار در قطار اُگے خود رو درختو ں پر یہ پھل نمودار ہو گا اور دستر خوانوں پر مہک اٹھے گا۔ جو بچ رہے گا، وہ پھولوں میں ڈھل جائے گا اور ہفتوں حیران کرتا رہے گا۔ خصوصیت اس کی یہ ہے کہ ایک صبح پھول اچانک کھلتے ہیں۔ آپ کھڑکی کھولتے ہیں اور صحن گلستاں۔ دو پودے پرانے گھر میں گاڑے تھے۔ مارچ کے مہینے میں دمک اٹھتے۔ دوسری منزل پر اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیر تک میں دیکھتا رہتا۔
خیال کا ماجرا عجیب ہے۔ بہت دیر سبزہ و گل میں مگن نہ رہ سکا اور ایک وادی کے تصور میں کھو گیا... وادیٔ کشمیر، اے وادیٔ کشمیر!
ایک درگاہ ہے، ایک جھیل، ایک آدمی اور ایک تصویر دل میں بسی ہے۔ ساڑھے تین سو برس ہوتے ہیں، اورنگ زیب عالمگیر نے جب سرکارؐ کا موئے مبارک کشمیر کی درگاہ حضرت بل کو روانہ کیا۔ شاعر نے لکھا کہ وادیء کشمیر آج حجاز کی ہم پلّہ ہو گئی۔
کشمیریوں کو مسلمان ہوئے ابھی ڈیڑھ سو برس ہی گزرے تھے، جب قرآنِ کریم کی کتابت سے ذاتی اخراجات پورے کرنے والے سلطان نے ان کی دل جوئی کی۔ اقبالؔ نے عالمگیر کے بارے میں یہ کہا تھا۔ 
درمیانِ کارزارِ کفر و دیں
ترکش ما را خدنگِ آخریں 
اسلام اور کفر کے معرکے میں ہمارے ترکش کا وہ آخری تیر تھا۔ دو صدیوں کی کوشش کے باوجود اسلام دشمن اور ان کے مرعوب مسلمان پیروکار عالمگیر کی تصویر آلودہ نہیں کر سکے۔ تین ہزار برس ہوتے ہیں، جب بخت نصر کی یلغار نے بلادِ شام میں حضرت موسیٰ ؑ کے پیروکاروں کو ہجرت پر مجبور کیا۔ کچھ خراسان میں براجے، بعد ازاں احمد شاہ ابدالی نے جسے افغانستان بنا دیا۔ دوسروں نے دنیا کے سب سے بلند اور دشوار گزار میدان کا رخ کیا۔ اسے کشیر کہا جاتا تھا، امتدادِ زمانہ سے کشمیر ہو گیا۔ کہر اور دھوپ کے بے شمار موسموں نے عم زاد قبائل کو دو اقوام بنا دیا۔ حالات کی بوالعجبی نے انہیں اجنبی کر دیا۔ ڈی این اے کی مشین پر خلیات جانچے جائیں تو وہ سچّی گواہی دے۔ 
ایک ہزار سال قبل محقق، مفکر اور مورخ البیرونی نے ''کتاب الہند‘‘ لکھی ''کوئی غیر یہودی وادی میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘ مزید پانچ سو سال گزر چکے تو سرزمینِ ایران سے ایک درویش نے خراسان کے راستے کٹھن زمینوں سے گزرتے ہوئے، جنہیں بالآخر پاکستان کا شمال ہونا تھا، کشمیر کا رخ کیا۔ قاچار بادشاہوں نے ابھی اقتدار نہ سنبھالا تھا اور سنی العقیدہ ایران عالمِ اسلام سے ہم آہنگ تھا۔ شاہ ہمدانؒ کے قدموں نے اس سرزمین کو چھوا تو شامی قبائل کی تقدیر ہی بدل گئی۔ ربع صدی ہوتی ہے، درگاہ حضرت بل کی ایک تصویر دیکھی تھی۔ ذہن سے وہ منظر کبھی محو نہ ہو سکے گا۔ قطار در قطار، سر ڈھانپے سری نگر کی بیٹیاں محوِ عبادت ہیں۔ فرشتوں کی پاکیزگی اور اولیا کا قرار۔ 
ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کبھی اس دیار کی زیارت نصیب ہو۔ زعفران، پاکیزہ چشموں اور محبت سے لبریز مکینوں کی بستی۔ ڈل جھیل، درگاہ حضرت بل۔ سیّد علی گیلانی۔ ایک مزدور کا بیٹا، جو مجاہد بنا، لیڈر ہوا، رہنمائوں کا استاد قرار پایا اور زندگی ہی میں اساطیری شخصیت ہو گیا۔ کبھی کسی لیڈر سے ملاقات کی تمنّا اس شدّت سے نہیں جاگتی، مگر اس بے نیاز سے۔ وہ شاہ ہمدانؒ اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ روح اللہ آیت اللہ خمینی کے اجداد بھی کشمیر سے ہجرت کر کے ایران گئے تھے۔ بعد ازاں اگرچہ ملّائوں نے اس کے انقلاب کو برباد کر ڈالا مگر شاید ایک دن اس کے بطن سے سویر پھوٹے۔ وہ آدمی، جس نے آرزو کی کہ اس کی قوم فرقہ ورانہ اختلاف سے اوپر اٹھے۔ جس نے انہیں سنّی طریقے سے حج کا مشورہ دیا۔ یہ الگ بات کہ پڑوسیوں پہ جہالت غالب آئی اور عراق چڑھ دوڑا۔ 
روایت ہے کہ دوسری بار گئے تو شاہ ہمدان اپنے ساتھ شال، پیپر ماشی اور دوسرے فنون کے دو سو سے زیادہ ہنر مند لے گئے۔ کشمیر اور افغانستان کی ثقافتوں میں جو امتیاز کارفرما ہے، موسم اور تاریخ کے علاوہ وہ عارف کا فیض ہے۔ 
دانشوروں کو کیا خبر، عارف اور شہید ہی آنے والے زمانوں کی نیو رکھتے ہیں۔ دانشور تو کل تک یہ فرماتے رہے کہ آزاد کشمیر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی چراگاہ ہے۔ کوئی دن میں وہ دیکھ لیں گے کہ مسلم کانفرنس کی طرح پیپلز پارٹی بھی خاک بسر ہوئی کہ دونوں ہاتھوں سے اس کے لیڈر بستیوں کو لوٹتے رہے۔ اب تحریکِ انصاف اس کی جگہ لے گی۔ حقائق کا ادراک کر سکے اور موزوں حکمتِ عملی بنا سکے، جس کی امید اس سے کم ہے تو حکومت کرے گی ورنہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہو گی۔ بیرسٹر سلطان محمود اپنی شام برباد کیے رکھتے ہیں مگر کرپشن کا ان پہ کبھی الزام نہ لگا۔ سیاسی تجربہ بھی بہت۔ کچھ زیادہ نہ کر سکے تو پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی مدد سے تیرہ چودہ سیٹیں جیت لیں گے۔ گو فاروق حیدر کا تاثر ان سے بہتر ہے؛ اگرچہ سیاست کم جانتے اور لاابالی بہت ہیں۔ نوجوان مگر انہیں پسند کرتے ہیں کہ کبھی لوٹ مار کی اور نہ کرنے دی۔ 
مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ آزادی زندہ ہے اور فروغ پذیر۔ پڑوس سے امداد پانے کی بجائے، اب وہ اپنے پائوں پہ کھڑی ہے۔ ذہنی طور پر اہلِ کشمیر بھارت سے جدا ہو چکے۔ اب کبھی وہ یکجا نہ ہوں گے۔ رفاقت قلوب اور اذہان کی ہوتی ہے۔ اگر نہ رہے تو خونی رشتے بھی برقرار نہیں رہتے۔ یہ تو جبر کا پیمان ہے۔ کب تک حالات بھارت کے لیے سازگار رہیں گے، کب تک؟ دورِ زماں کی ایک کروٹ اور وہ منہ کے بل گرے گا۔ کشمیریوں کو فقط یہ کرنا ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ پاکستان کا وظیفہ یہ ہے کہ ایک طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت سارے عالم میں ان کے لیے سفارتی جنگ لڑے۔ یہ کام مظفر آباد بھی کر سکتا ہے، اگر اسے اختیار ملے۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت جو خودمختاری چاروں صوبوں کو حاصل ہے، آزاد کشمیر کو کیوں نہیں مل سکتی۔ ان کے افسروں اور ججوں کا تقرر اسلام آباد کیوں کرے؟ بجٹ کی ترجیحات پاکستان کا وزیرِ اعظم کیوں طے کرے؟ 
موسمِ گل میں ذہن زرخیز ہو جاتا ہے۔ ایک سے ایک شاندار خیال۔ اب یہ آدمی کی مرضی ہے کہ خیالات کی وادیوں میں بھٹکتا پھرے یا اقبال ؔ کی طرح ایک نئے عصر کا خواب دیکھے۔ کشمیر کیسے آزاد ہو گا؟ پاکستان کیسے بنا تھا؟ 1947ء سے ربع صدی پہلے سپین کے سفر میں کسی نے سپنا دیکھا تھا ؎ 
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی 
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved