امریکہ جدید مادّی اور سائنسی دنیا کی قیادت کا بلاشرکتِ غیرے دعوے دار ہے۔ اس کا اظہار صدرِ مملکت بارک حسین اوباما نے اپنے آخری ''اسٹیٹ آف دی یونین ایڈریس ‘‘میں بھی کیا ہے اور اعلیٰ ٹیکنالوجی (High Tech.)پراپنے قومی تفاخر کا اظہار کیا ہے۔ بوجوہ عالمی اقتصادیات اور سیاسیات اس کے کنٹرول میں ہیں، عالمی ادارہ اقوامِ متحدہ (UNO)بھی اس کے گھر کی لونڈی ہے۔ اسی لئے بہت سے لوگوں کی خوابوں کی جنت یہی بنا ہوا ہے۔ مسلمانوں بطورِ خاص پاکستانیوں کا تضاد یہ ہے کہ امریکہ سے نفرت بھی شدید ترین درجے میں رکھتے ہیں اوراپنی دنیا سنوارنے کے لئے وہاں جانا بھی چاہتے ہیں ۔
امریکہ میں پاکستانیوں کے کئی طبقات ہیں : ایک کاروباری طبقہ ہے، جو مرفَّہ الحال ہے اور دنیاکی راحتوں سے لطف اندوز ہورہا ہے، ان کے لئے پاکستان آنا جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دوسر ا طبقہ ڈاکٹر صاحبان ، آئی ٹی اسپیشلسٹ اور دوسرے شعبوں کے ماہرین کا ہے، جوالحمد ﷲباعزت زندگی گزار رہے ہیں اوردنیا کی ساری راحتیں ان کو حاصل ہیں، یہ اپنے وطن سے بھی کسی حد تک جڑے ہوئے ہیں۔ تیسرا طبقہ مڈل کلاس کا ہے، یہ بھی ماشاء اللہ کافی حدتک خوشحال ہے۔ ایک طبقہ ان پاکستانیوں کا ہے، جو کسی نہ کسی طرح امریکہ پہنچ گئے ہیں، کوئی نہ کوئی روزگار بھی کررہے ہیں، لیکن ان کی قانونی حیثیت (Legal Status)کوئی نہیں ہے، انہیں اپنے گھروں سے بچھڑے ہوئے سالہا سال ہوچکے ہیں، یہ نہ اِدھر کے ہیں نہ اُدھر کے۔
ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو پاکستان سے جاتے ہوئے امیگریشن کے کاغذات میں ایجنٹوں یا وکلاء کے مشورے پر غلط اندراجات کردیتے ہیں، مثلاً شادی شدہ ہیں ، بچوں والے ہیں، لیکن اپنے آپ کو غیرشادی شدہ لکھوا دیتے ہیں۔ اب اگر ان کوامریکہ میں قانونی حیثیت بھی مل جائے ، تو وہ اپنے بیوی بچوں کوSponsor کرکے وہاں نہیں بلا سکتے ، چنانچہ یہ ایک طرح کی مستقل دوری پیدا ہوجاتی ہے اور زندگی بھرکا عذاب بن جاتی ہے۔
کئی ایسے لوگ بھی ملے جو شادی کے بعد جلد کسی نہ کسی طرح امریکہ پہنچ گئے ۔ انہوںنے امیگریشن کے کاغذات میں اپنے آپ کو غیرشادی شدہ ظاہر کیا ہوا تھا، وہ امریکہ میں قانونی حیثیت نہ ملنے کی وجہ سے معلق زندگی گزار رہے ہیں اور اِدھر پاکستان میں ان کی بیویاں اذیت سے دوچار ہیں، ایسی راحتیں اور ایسے ڈالر کس کام کے کہ جن کے سبب میاں بیوی ، باپ اور اولاد کے درمیان مستقل دوری ہے،یہ لوگ زندگی کے ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں کہ نہ پائے رفتن ، نہ جائے ماندن والی کیفیت ہے۔ نہ ساری کشتیاں جلاکر واپسی کا فیصلہ کر پاتے ہیں اور نہ ہی وطن سے سارے رشتے توڑ پاتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پاکستانی اپنے حالات اور خواہشات کے تحت پاکستان سے نکل تو جاتے ہیں ، لیکن پاکستان ان کے اندر سے نہیں نکل پاتا ۔ وطن سے دوررہ کر وطن کی محبت اور دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوجاتی ہے۔ پاکستانیوں کی مساجد اور اسلامی مراکز ایک طرح سے کمیونٹی مرکز بھی بن جاتے ہیں، جہاں اختتامِ ہفتہ یا بعض دینی تقریبات کے مواقع پر یہ لوگ اپنے خاندانوں سمیت آتے ہیں اور آپس میں گُھل مل جاتے ہیں ، خواتین کو بھی آپس میں مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ بعض جگہ بچوں کی ضروری دینی تعلیم کا بھی انتظام ہوتاہے۔ یہ لوگ پاکستانی میڈیا کے ذریعے پاکستان کی جو تصویر دیکھتے ہیں، اس پر کُڑھتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ بعض صورتوں میں پاکستان کے اندر رہنے والوں سے زیادہ محب وطن پاکستانی اور اسی طرح اپنے مذہب کے ساتھ بھی جڑے رہتے ہیں۔ لیکن ان کو سب سے زیادہ اپنی اولاد کے دینی مستقبل کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔
صدرِ امریکہ بارک حسین اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن کو ورک پرمٹ یا قانونی حیثیت دلوائیں گے، لیکن تاحال وہ اپنے وعدے کو نبھا نہیں سکے، کیونکہ کانگریس میں ریپبلکن پارٹی کی اکثریت ہے اور کسی بھی قانون سازی کے لئے اس کی تائید لازمی ہے۔سیاہ فام صدر کو سفید فاموں کے غلبے پرمشتمل کانگریس کی اکثریت نے شاید دل سے کبھی قبول نہیں کیا۔ امریکی صدر کا یہ وعدہ امریکہ میں مقیم تمام غیرقانونی تارکینِ وطن کے لئے تھا، اس میں غالب اکثریت میکسیکن یا اسپینش آبادی کی ہے۔ میکسیکو کی سرحد امریکی ریاست ٹیکساس سے ملی ہوئی ہے اور آبادی کی منتقلی کا سلسلہ بھی جاری رہتاہے ، بلکہ ریاستِ ٹیکساس، جو امریکہ کی چند انتہائی مالدار اور بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے، کہا جاتاہے کہ یہ میکسیکو کا حصہ تھی، جسے امریکہ والوں نے قبضہ کرکے امریکہ میں شامل کرلیا۔ ان لوگوں کے ساتھ امریکہ کی مذہب اور تہذیب کے اعتبار سے بھی کوئی اجنبیت نہیں ہے،امریکہ میں یہی اسپینش آبادی سستی لیبرفورس کے اکثر کام انجام دیتی ہے، جس میں تعمیری شعبہ بھی شامل ہے۔ غیرقانونی تارکینِ وطن ہونے کے اعتبار سے اکثر پاکستانیوں کا مستقبل ان سے جڑا ہواہے۔
بہت سے غیر قانونی تارکینِ وطن پاکستانی وہ ہیں، جنہوں نے محنت سے پاکستان پیسے بھیجے اور کچھ جائیدادیں بنائیں، لیکن ان کی زَرخرید جائیدادوں پر مقامی مافیا ز اور قبضہ گروپوں کا تسلُّط ہے ، یہ لوگ طرح طرح کے مسائل ومصائب کا شکار ہیں۔ ایک صاحب حافظ عبدالقدیر ، قوم رحمانی ، محلہ سکندرآباد ، تھانہ لاری اڈہ گجرات کے رہنے والے ہیں ، یہ نیویارک میں ایک مسجد میںبرسوں سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، لیکن ان کو وہاں قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ ان کی بیوی اپنی چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ہمراہ گجرات میں رہ رہی ہے۔ ان کے اٹھارہ سالہ اکلوتے جواں سالہ فرزند عمر کو مبینہ طور پر ابتشام عرف رانجھا ، فرحان ولد نوید احمد ، ضرغام ولد نذیر احمد اور شرجیل ولد شیبانہ نے قتل کردیااور اس کی ایف آئی آر نمبر:205، تھانہ لاری اڈہ ، ضلع گجرات زیر دفعہ 302/449۔۔34تعزیراتِ پاکستان درج ہوئی، قتل کا یہ واقعہ 21،جون 2014ء کو وقوع پذیر ہوا، اس کی ایف آئی آر اے ایس آئی ادریس افضل کی درج کردہ ہے۔ لیکن ان کے بقول ملزمان بااثر تھے اور چھوٹ گئے ، ممکنہ طور پر یہ بچیوں کے معاملات ہوں گے۔ اب وہ خوف کے مارے اس محلے سے مکان چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں۔ ان کے ساتھ کئی حضرات میرے پاس آئے کہ ہوسکے تو ان کی کوئی مدد کریں۔ میرے پاس یہی ایک تدبیر تھی کہ اس کالم کے ذریعے آئی جی پنجاب ، ڈی پی او گجرات ، وزیر داخلہ پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب تک ان متاثرین کی فریاد پہنچاؤں ، شاید ان کے درد کا کوئی دَرماں ہوجائے اور انہیں انصاف مل جائے۔
پاکستانیوں کا بنیادی طور پر امریکہ میں کسی طبقے سے کوئی مذہبی تصادم نہیں ہے، کیونکہ امریکہ اور اہلِ مغرب نے مذہب کو اپنی عملی زندگی سے خارج کردیا ہے ، اگر چہ وہاں مسیحیوں کے چرچ اور صومِعَہ ہیں ، اسی طرح یہودیوں کے بِیعہ اور کنیسہ (Synagogue) ہیں۔ان میں مسیحیوں کے مقابلے میں یہودیوں میں مذہبیت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کا نام Knessetیعنی ان کی عبادت گاہ کے نام پر ہے ، یہودیوں کے ہاں بھی ذبیحے کا التزام ہے اور اُسے Kosherکہتے ہیں۔ بحیثیتِ مجموعی اہلِ مغرب نے یہ طے کررکھا ہے کہ وہ اپنے خیروشر کا فیصلہ اپنی اجتماعی دانش(Collective Wisdom)سے کریں گے اور اس کا پیمانہ ان کے قانون ساز ادارے یعنی پارلیمنٹ یا کانگریس ہیں۔ سو یہ ان کی تہذیب ہے اور مسلمانوں سے ان کا تہذیبی تصادم بہرحال موجود ہے، کیونکہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جو ان کی تہذیب سے کسی طرح کی مطابقت یا مفاہمت کا رَوَادَار نہیں ہے اور مسلمان عملی لحاظ سے کتنے ہی گئے گزرے کیوں نہ ہوں، باآسانی مغربی تہذیب کو اس کی تمام تر خصوصیات کے ساتھ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتے، لہٰذا یہ کشمکش شاید جاری رہے گی۔ مغرب میں وقتاً فوقتاً اسلامی شعائر کی اہانت کے جو دیدہ ودانستہ واقعات ہوتے رہتے ہیں، ا ُس سے وہاں کے مسلمانوں کو بھی شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہوناپڑتا ہے۔ ہم پاکستان یا دیگر ممالک میں اس حوالے سے جو بڑی بڑی احتجاجی ریلی نکالتے ہیں، یہ دراصل اپنے جذبات کا پُراَمن اظہار ہے، لیکن اس کے عالَمی سطح پر کوئی مثبت اَثرات مرتَّب نہیں ہوپارہے، کیونکہ جب تک حقِ آزادیِ اظہار کی ازسرِ نو تشریح نہ کی جائے اور اس کے لئے عالمی سطح پر قانون سازی کے لئے تحدید وتوازن کے کوئی معیارات وضع نہ ہو جائیں، اس کی روک تھام نہیں ہوپارہی ۔ اس کے لئے عالَمی سطح پر مسلم اہلِ دانش کو کوئی حکمتِ عملی اور ایسی تدبیر اختیار کرنے پر غور کرنا ہوگا ، جو نتیجہ خیز ثابت ہو۔