پانی نشیب کو بہتا ہے۔ آدم کی ساری اولاد یکجا ہو کر بھی اس قرینے کو بدل نہیں سکتی۔ یہ مالک کا قانون ہے۔ فرمان اس کا یہ ہے: اللہ کی سنت کو تم کبھی بدلتا ہوا نہ پائو گے۔ کیا مئی 2013ء میں منتخب ہونے والی عوامی حکومت خطرے میں ہے؟ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے۔ فوری طور پر نہیں۔ مہلت اس کے لیے موجود ہے۔ ایک سال یا شاید اس سے کچھ زیادہ۔ اپنی روش اس نے تبدیل نہ کی‘ امن و امان‘ ٹیکس وصولی اور معیشت کو بہتر نہ بنایا تو حادثے کا اندیشہ بہت ہے۔ پانی ڈھلوان کو لپکے گا اور کوئی اسے تھام نہ سکے گا ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
کوئی مخلص آدمی پسند نہ کرے گا کہ نوازشریف تیسری بار بھی ناکام ہو جائیں۔ حکمران جماعت کی تباہی صرف اس کی نہ ہوگی بلکہ سلطانیٔ جمہور کی۔ صبر سے کام لینا چاہیے اور جمہوری نظام کو جڑ پکڑنے کا موقع دینا چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آزادی کی فضا ہی میں انسانی صلاحیت بکمال و تمام بروئے کار آتی ہے۔ قانون کے دائرے میں مکمل آزادی اور اس کا مطلب ہے‘ آزادی میں ڈسپلن۔ جبر کے موسم میں لوگ یوں سہم جاتے ہیں جیسے آندھی اور برفباری میں پرندے۔ فروغ پانے والے تمام معاشرے طاقتور سول اداروں کے بل پر ثمر خیز ہوتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری منزل سر کرتے ہیں۔
جمہوری حکومتیں مگر اس وقت تک برقرار رہتی ہیں جب انہیں ایک کم از کم حمایت حاصل ہو۔ عام آدمی کو دو چیزیں مطلوب ہوتی ہیں۔ تحفظ اور روزگار۔ وہ فکرو فلسفے کی گود میں پناہ نہیں لیتا۔ یہ دانشوروں کا میدان ہے۔ اگر ایک حکمران معیشت کو صحت مند رکھنے کے بنیادی تقاضے نظرانداز کردے‘ لوگ مہنگائی کی چکی میں پسنے لگیں‘ روزگار کے دروازے بند کردیئے جائیں تو وہ حکومت کا دفاع کیوں کریں گے۔ ان کی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے۔
اسحق ڈار کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وزیراعظم کے سمدھی ہیں۔ آپ نے اعلان فرمایا کہ امسال مالی خسارہ ایک سو ارب روپے بڑھ جائے گا۔ یہ ارشاد انہوں نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ہنگام کیا۔ ان کا اصرار ہے کہ یہ 4 فیصد سے تجاوز نہ کرے۔ قرائن مگر یہ ہیں کہ پانچ فیصد تک پہنچے گا۔ ڈار صاحب کو بہت بھلا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ کچھ دن سے ان کے انداز مختلف ہیں ؎
بدلے بدلے مرے سرکار نظر آتے ہیں
گھر کی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں
سرکاری افسروں‘ حتیٰ کہ منتخب نمائندوں تک کو ڈانٹ دیتے ہیں۔ پختون خوا کے وزیراعلیٰ کو بیان جاری کرنا پڑا کہ چھ ماہ سے وہ ملاقات کے منتظر ہیں‘ ظاہر ہے کہ وہ مصروف ہیں۔ وزیراعظم کا کچھ بوجھ بھی انہی نے اٹھا رکھا ہے کہ میاں صاحب کا موڈ کام کرنے کا نہیں۔ مطلب کیا یہ ہے کہ وہ‘ دستک دینا جن کا حق ہے‘ ان کی بات ہی سنی نہ جائے؟ انہیں دھتکار دیا جائے؟ جمہوریت تو کیا بادشاہت میں بھی یہ تماشہ ممکن نہیں ؎
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خامشی تری، سب کے جواب میں
ظاہر ہے کہ پرویز خٹک کسی معمولی مسئلے پر بات نہیں کرنا چاہتے‘ یہ کارسرکار ہے جو مشاورت اور مکالمے ہی سے ممکن ہے۔ سب سے اہم شعبہ خزانے کا ہوا کرتا ہے۔ اگر ایک صوبے کا وزیراعلیٰ‘ وزیر خزانہ سے مل نہیں سکتا تو کام کیسے چلے گا۔ ایسے ہی اگر وہ مبتلا ہیں تو سیکرٹری فنانس علامہ وقار مسعود کو اختیار دیا ہوتا۔ یہ بھی نہیں تو ایک نائب وزیر خزانہ مقرر کریں۔ یہ کیا روش ہے کہ سب کچھ خاندان کے سائے میں رہے گا۔
منصب داروں کی ایک طرف ایسی بہتات کہ خدا کی پناہ‘ دوسری طرف ضروری فرائض انجام دینے والے بھی مہیا نہیں۔ ملک کے ساڑھے چار وزیر خارجہ ہیں۔ اختیارات وزیراعظم کے ہاتھ میں ہیں۔ دو مشیر‘ جناب سرتاج عزیز اور حضرت طارق فاطمی۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف بھی۔ بڑے بھائی کی معیت میں یا تنہا‘ جس وقت وہ چاہیں‘ کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ آدھے وزیر خارجہ میرے محترم دوست چودھری نثار علی خان ہیں۔ طبیعت حاضر ہو تو ایک آدھ بیان وہ بھی داغ دیتے ہیں۔ بیت اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا تو ان کا احتجاج آسمان کی خبر لایا ؎
عاقبت منزل ما وادیِ خاموشان است
حالیہ غلغلہ در گنبد افلاک انداز
(آخر کو مٹی میں جا سونا ہے‘ آج ایسا ہنگامہ برپا کرو کہ فلک تک پہنچے)
ایک وزیر خارجہ کیوں نہیں؟ سرتاج عزیز بہت ہی باخبر اور طرح دار آدمی ہیں۔ زراعت‘ معیشت‘ خزانہ‘ تعلیم اور امور خارجہ کے رمز شناس۔ وہ مگر بوڑھے ہو چکے اور گاہے بے وقت کی راگنی الاپتے ہیں۔ طارق فاطمی کیوں نہیں کہ بھلے چنگے ہیں۔ ڈانٹ سنتے اور جبیں خم رکھتے ہیں۔ انیس ماہ‘ جس حال میں گزارے‘ اس پہ حیرت ہے ؎
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
غالب کے ساتھ تو یہ دوسری بار تھا‘ فاطمی صاحب نے مستقل ہی صنم کدہ ویران کردیا۔ اس کے باوجود ان کی وفاداری پہ اعتبار کیوں نہیں؟ وزیرداخلہ الگ سے نالاں ہیں۔ انہیں گلہ ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے اور امن و امان قائم کرنے کے لیے ترجیحات درست نہیں۔ مزید یہ کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ میاں شہبازشریف سمیت پارٹی کے دوست اگر مصر نہ ہوتے تو کب کے وہ الگ ہو گئے ہوتے ؎
سایۂ ابر گریزاں سے مجھے کیا لینا
ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک لائق وزیردفاع بھی درکار ہے۔ پاکستان حالتِ جنگ میں ہے۔ دفاع اس شخص کے ہاتھ میں ہونا چاہیے‘ وزیراعظم کا مکمل اعتماد جسے حاصل ہو‘ جس کی اہلیت اور کردار کے سبب‘ جنرل حضرات اس کی عزت کریں‘ سر آنکھوں پر اسے بٹھائیں۔ دنیا کے ہر دارالحکومت کا قصد سپہ سالار ہی کیوں کریں۔ وزیر دفاع کیوں نہیں۔ خواجہ آصف ایک جہاندیدہ سیاستدان ہیں۔ واقعات ایسے ہوئے کہ پسپا ہو کر وہ بجھ سے گئے ہیں۔ دوسرے میدانوں میں وہ عَلم گاڑ سکتے ہیں۔ یہ ذمہ داری کسی اور کو سونپ دی جائے۔ خود حکومت کے مفاد میں یہی ہے۔
سینیٹ کے الیکشن سر پہ ہیں۔ کوئی حقیقی دبائو وزیراعظم پر نہیں۔ ثناء اللہ زہری ایسے لوگوں کی دل جوئی کا کوئی اور سامان وہ کر سکتے ہیں۔ بہترین لوگ منتخب کرنے کا یہ موقع ہے‘ سیاستدان اور بیوروکریٹ۔ سینیٹ الیکشن کے فوراً بعد کابینہ کی تشکیل نو ہونی چاہیے۔
ٹیکس وصولی ایک اور نازک شعبہ ہے۔ ایف بی آر کے موجودہ چیئرمین یکسر ناکام ہو چکے۔ ایماندار آدمی ہیں مگر بیکار۔ اورنگ زیب عالمگیر نے کہا تھا ''سادات بلگرام‘ چوب مسجد الحرام‘ سوختنی‘ نہ فروختنی‘‘۔ ایف بی آر کو قوت فیصلہ رکھنے والا ایک سربراہ درکار ہے۔ 30 لاکھ خاندان ہیں‘ جن کے بچے مہنگے سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ چھٹیوں میں بیرون ملک جاتے ہیں۔ محلات ایسے گھروں میں قیام فرما ہیں۔ ان گھرانوں کی خواتین زیورات سے لدی پھندی رہتی اور خریداری کے لیے دبئی تشریف لے جاتی ہیں۔ سالِ گزشتہ اگر ان میں سے دس لاکھ کو بھی نوٹس بھیجے نہ گئے اور پانچ لاکھ سے بھی ٹیکس وصول نہ ہو سکا تو وزیر خزانہ اور چیئرمین صاحب کا مصرف کیا ہے؟ جوڑی کے دونوں بیل کھونٹے پر ہی سوا لاکھ کے‘ ہل چلانے کے کام نہیں آتے۔
چینی سفیر عمران خان سے ملے اور پوچھا: ہماری مخالفت کیوں؟ وہ حیران رہ گئے اور وضاحت کی: ہمارا اعتراض پاکستانی حکومت اور اس کے اندازکار پہ ہے۔ اللہ جانے وہ مطمئن ہوئے یا نہیں‘ مگر اب چینی حکومت مشترکہ منصوبوں کے باب میں شکوک کا شکار ہے۔ گڈانی کا منصوبہ تو سراب ہی نکلا۔ کہیں اور بھی پیش رفت نہیں۔ بس ایک کے بعد دوسری میٹرو۔ اس طرح کام کیسے چلے گا جنابِ وزیراعظم۔ نئی ملازمتیں اگر پیدا نہ ہوں گی تو بے روزگاروں کے لشکر کس کے گھر جائیں گے۔
فوج ہی نہیں‘ فعال طبقات اور عامیوں کا درد سر بھی یہ ہے کہ معیشت اگر ڈوب گئی تو کیا ہوگا۔ ایک ایسے دشمن کے پڑوس میں جو ہماری تباہی کے در پے ہے۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کوئی نہیں چاہتا۔ اگر حال یہی رہا تو اسے گوارا کیا جائے گا۔ اس کا خیرمقدم ہوگا۔
پانی نشیب کو بہتا ہے۔ آدم کی ساری اولاد یکجا ہو کر بھی اس قرینے کو بدل نہیں سکتی۔ یہ مالک کا قانون ہے۔ فرمان اس کا یہ ہے: اللہ کی سنت کو تم کبھی بدلتا ہوا نہ پائو گے۔