تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     07-02-2015

امریکی فوجی غرور کا خاتمہ

صدر اوباما یوکرائن کو ہتھیار بھجوانے کی تجویز پر غور کرتے ہیں۔کیا اس سے امریکی صدر کی توہین کا ایک پہلو نکلتا نہیں دکھائی دیتا؟ اگر ماضی قریب میں امریکہ کی طرف سے کی جانے والے مداخلت کا حشر دیکھیں تو سپرپاور کی مزید جگ ہنسائی کے سوا اور کچھ نہیں۔ افغانستان میں تیرہ سال تک وحشیانہ جنگ لڑنے کے بعد امریکی افواج طالبان کے ہاتھ میدان چھوڑ کر رخصت ہورہی ہیں۔ ہزاروں جانیں اور اربوں ڈالر کے ضیاع کے باوجود واشنگٹن بہت کم جنگی اہداف حاصل کرپایا ہے۔ عراق میں آج امن کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ معدوم ہیں۔ صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنا اور ان کی فوج کو شکست دینا بہت آسان تھا، لیکن اس کے بعد خونریز خانہ جنگی نے ملک کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا جبکہ نسلی اور مسلکی کشمکش انسانی جانوں کا خراج لے رہی ہے۔ عراق کے زیادہ تر علاقے داعش کے قبضے میں ہیں اورشیعہ سنی گروہوں کے درمیان خونیں جنگ جاری ہے۔ 
صدر قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کی امریکی کوشش کی وجہ سے لیبیا بھی مکمل طور پر عدم استحکام سے دوچار ہوچکا ہے۔ اگرچہ قذافی ایک آمر تھے لیکن اُنھوں نے ملک کو یکجا کیا ہوا تھا۔ اب جنگجومسلح گروہ ہر طرف راج کررہے ہیں جبکہ ملک میں حکومت نامی کوئی چیز موجود نہیں۔وہاں جاری خانہ جنگی کاکوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا ہے۔ آج یمن بھی افراتفری کی سرزمین ہے۔ دارالحکومت پر ہائوتھی (Houthi) قبائل کا قبضہ ہے جبکہ ایک مرتبہ پھر ملک کے دولخت ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔ ان قبائل نے پنٹاگان کی طرف سے فراہم کیے گئے چارسو ملین ڈالر مالیت کے اُن ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا ہے جوالقاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھجوائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ قذافی کے اسلحہ خانہ سے ہتھیاروں کی فروخت بھی جاری ہے۔ ان ہتھیاروںسے اُن علاقوں میں بھی خونریزی ہورہی ہے۔ داعش کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھ عراق کو فراہم کردہ امریکی ہتھیار آسانی سے لگ گئے تھے۔ اس سے بھی قبل کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ویت نام میں امریکی مداخلت کی وجہ سے خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی‘ جس میں لاکھوں افراد بلاوجہ ہلاک کر دیے گئے تھے۔ مجھے ابھی تک وہ منظر یاد ہے جس میں ایک امریکی ہیلی کاپٹر سیگون(Saigon) پر چکر لگارہا تھا جبکہ بہت سے شہری اس کے نیچے لٹکے ہوئے رسوں سے چمٹے ہوئے تھے‘ کیونکہ ویت کانگ کے گوریلے ویت نام کے دارالحکومت کی طرف پیش قدمی کررہے تھے۔ 
تاریخ کا یہ مختصر سا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی مداخلت کو تباہی سے تعبیر کرنامبالغہ نہ ہوگا۔ اگرچہ زیادہ تر امریکی اس بات کو تسلیم کرنے میں تامل سے کام لیتے ہیں کہ ا فغانستان میںان کی فوج کو شکست ہوچکی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہوچکا ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔ بارہار امریکی افواج لاشیں چھوڑ کر میدان سے بھاگی ہیں‘ لبنان اور صومالیہ جیسے ممالک سے بھی امریکی افواج بہت سے فوجیوں کی ہلاکت کے بعد فرار ہو گئی تھیں۔ اس کے باوجود بہت سے امریکی جنگی جنون میں مبتلا ہیں۔ وہ اب بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں فوجی کارروائی کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال صدر اوباما پر کتنا دبائو تھا کہ وہ شام میں فوجی کارروائی کریں تاکہ بشارالااسد حکومت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ واشنگٹن اور تل ابیب میں جنگی جنون رکھنے والے بہت سے افراد صدر اوباما پر تنقید کرتے رہتے ہیں کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے فضائی بمباری نہیں کرتے۔ شاید کلنٹ ایسٹ ووڈ(Clint Eastwood) کی نئی فلم ''امریکن سنائپر‘‘ کی باکس آفس پر بھاری کامیابی کی وجہ امریکیوں کا جنگ کے لیے نہ ختم ہونے والا جنون ہے ۔ یہ فلم ایک امریکی فوجی، کرس کیل کی کتاب پر مبنی ہے۔ اس میں ایک سنائپر کی بہادری کی سچی کہانی بیان کی گئی ہے کہ وہ کس طرح طویل فاصلے سے کئی ایک عراقیوں کو نشانہ بناتا ہے۔ یقینا ہر ہلاکت پر امریکی سینما گھر تحسین کے نعروںسے گھونج اٹھتے ہوں گے۔ فلم کے ڈائریکٹر اور مصنف نے ہلاکت خیز انسانی مشین پر سے تمام شکوک و شبہات اور احساس ِ جرم کے جذبات ختم کردیے ہیں ۔ ان کے نزدیک تمام عراقی وحشی اور ظالم ہیں، اس لیے ان کے ناظرین عراقیوں کی ہلاکت پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔۔۔ ایک بہادر سنائپر طویل فاصلے سے ان کے جسموں میں گولیاں اتاررہا ہے اور وہ خوشی سے پاگل ہورہے ہیں!
اب واپس یوکرائن کی طرف آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں کوئی امریکی لیڈر سوویت یونین کی سرحدوں کے نزدیک کسی کشمکش کا حصہ بننے کا حوصلہ نہ رکھتا تھا۔ اگرچہ 1956ء میںہنگری میں ہونے والی شورش میںہنگری عوام کے ساتھ امریکی ہمدردی موجود تھی، لیکن واشنگٹن نے بہت خاموشی سے سرخ فوج کو قتل ِعام کرتے دیکھا اورآواز تو کجا، بلند سانس تک نہ لیا۔ پرانے قارئین کو یاد ہوگا کہ جب ماسکو نے کیوبا میں میزائل نصب کرنے کی کوشش کی تو جان ایف کینیڈی نے کیا رد ِعمل دکھایا۔ 1962ء کے ان دنوں دنیا ایٹمی تصادم کے خوف کے سائے منڈلاتے ہوئے محسوس کررہی تھی۔ چنانچہ یہ تصور کرنا کہ واشنگٹن کے تعاون سے سے ماسکو کے حمایت یافتہ رہنما کو منصب سے ہٹا کر مغربی ممالک یوکرائن میں اپنے حامی رہنما کو ہتھیارفراہم کرکے تقویت دیں گے اور ماسکو منہ دیکھتا رہے گا، روس کی تاریخ کونظر انداز کرنے کی حماقت کے مترادف ہے۔ ایسا کوئی بھی اقدام یقینا پیوٹن کو تصادم کی راہ دکھائے گا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں کسی قابل ِ ذکر امریکی مفاد کو خطرہ نہیں ہے۔ یوکرائن کے ووٹرزامریکی ووٹ بنک نہیں ہیں، یہاں نہ تو تیل ہے اور نہ ہی کوئی تجارتی بندرگاہ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں نہ تو امریکی بنک ہیں اور نہ ہی دیگر کارپوریشنز، چنانچہ کسی مالی مفاد کو خطرہ نہیں ہے۔ تو کیا امریکہ صرف جنگی جنون کو تسکین دینے کے لیے پیوٹن کو تائودلانے کا متحمل ہوسکتا ہے؟ امریکی اس راستے پر کیوں چل رہے ہیں؟ شاید وہ پیوٹن کو کمزور کرنا چاہتے ہیں؟اس سے پہلے روس نے اسد کے خلاف یواین سکیورٹی کونسل کی قرارداد کو مستر د کرتے ہوئے امریکہ کو تائو دلادیا تھا۔ بہرحال ایسی کوئی بھی کوشش کرنے سے پہلے امریکہ کو یاد رکھنا چاہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس نے بہت سے جنگوں میں حصہ لیااور بہت سے خطوں پر فضائی بمباری کی لیکن ان سب کارروائیوں کا انجام بہت برا ہوا۔ کیا وقت نہیں آگیا جب مزید کوئی کارروائی کرنے سے پہلے صدر اوباما اپنی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت کرلیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved