کرپشن اور ''جمہوریت‘‘ دو ایسے موضوعات ہیں جنہیں سیاست اور صحافت پر مسلط کر کے عوام کی وسیع اکثریت کے حقیقی مسائل کو دبا دیا گیا ہے۔ اس عہد کے کردار سے مطابقت رکھنے والے ''دانشور‘‘ اس جعلی بحث کو پورے سماج پر حاوی کرنے میں دن رات سرگرم عمل ہیں۔ حاوی سیاست بھی اسی تاریک عہد کی ذلت، فریب، خود غرضی اور منافقت کی امین ہے۔ ''جمہویت کو وقت دو‘‘ کا عجب اصرار ہے۔ بھارت میں یہ جمہوریت بغیر کسی تعطل کے چھ دہائیوں سے چل رہی ہے اور عوام کی غربت، بھوک اور محرومی کسی طور یہاں سے کم نہیں ہوئی۔ یہ سوال کوئی نہیں اٹھاتا کہ کرپشن کے پیسے سے چلنے والی ''جمہوریت‘‘ بھلا کرپشن کو کیسے ختم کر سکتی ہے۔ کالے دھن کی سیاست میں بدعنوانی اور لوٹ مار بھلا کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ پرانے وقتوں میںمواصلاتی خرابی کی صورت میں ٹیلی وژن پر ''انتظار فرمائیے‘‘ کا پیغام گھنٹوں آویزاں رہتا تھا۔ اس ''جمہوریت‘‘ کا بھی یہی حساب ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ خرابی ٹھیک ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
جمہوریت اور آمریت سماج پر ایک ہی نظام کو مسلط رکھنے کے دو طریقے ہیں‘ جنہیں حکمران طبقہ اپنی ضرورت کے تحت استعمال کرتا رہتا ہے۔ یہاں نظام کو چھوڑ کے اسے چلانے کے طریقہ کار پر بحث ہوتی ہے، سماجی اور معاشی مسائل نظام کے طریقہ کار کی نہیں۔ جمہوریت کے پنپنے کا جتنا بھی انتظار کر لیں یہ مسائل بڑھتے ہی چلے جائیں گے کیونکہ اس جمہوریت میں دولت کی آمریت نے جمہور کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ جمہوریت کے نام پر جمہور کی آرزوئوں، امنگوں اور ضروریات کو آئینی، قانونی، مذہبی اور ''قومی‘‘ بھول بھلیوں میں الجھا کے غرق کر دیا گیا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں عوام‘ حکمرانوں کے آپسی تنازعات کے بدنصیب تماشائی بن کے رہ گئے ہیں؟ اپنے خون پسینے سے سماج کو چلانے والے محنت کشوں کو اس نظام نے حکمران طبقے کی ہوس کا ایندھن بنا کے رکھ دیا ہے۔ محنت کش طبقے کو بے بسی اور لاچارگی کی کیفیت میں اس کی سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادتوں نے مبتلا کیا ہے۔ اس روایتی قیادت نے ان کے نیک جذبوں اور مخلص جدوجہد کا سودا حکمرانوں سے کیا ہے۔ محنت کش پسپا ضرور ہوئے ہیں، ہارے نہیں۔
آمریت کا سب سے بڑا المیہ عوام کے ذہنوں میں ''جمہوریت‘‘ سے متعلق خوش فہمیاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جب یہ امیدیں ٹوٹتی ہیں تو جنم لینے والی پراگندگی اور بدگمانی کے عہد بعض اوقات طویل بھی ہو جاتے ہیں۔ بھارت سے لے کر یورپ اور امریکہ تک، حکمران طبقہ مختلف طریقہ ہائے واردات سے لوٹ مار اور استحصال کا نظام برقرار رکھتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں پیسے کی اس جمہوریت کے فنکاروں کے لئے بنیاد پرستی ایک ایسا اوزار ہے جس کے ذریعے عوام کو مسلسل خوف میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔ ''لبرل‘‘ اور ''سیکولر‘‘ پارٹیوں کے دور اقتدار میں عوام پر ہونے والے معاشی حملے، لوٹ مار اور بد اخلاقیاں مذہبی سیاست کو خوب آکسیجن فراہم کرتی ہیں۔ آمریت کے ذریعے بہتری کی نوید سنانے والے بھی اسی رجحان کا حصہ ہیں۔ جمہوریت کی ناکامی کے بعد آمریت اور آمریت کے جبر میں جمہوریت سے امید کی اس چکی میں عوام پستے چلے جا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معیشت کا بحران جوں جوں شدت اختیار کر رہا ہے، عوام کی زندگیاں اور بھی اجیرن ہو رہی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور انتشار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں حقیقی مسائل اور ایشوز کے گرد ابھرنے والی عوامی تحریکوں میں بھی شدت آ رہی ہے۔
عوام کو ''قومی سالمیت‘‘ کا درس دینے والے ان حکمرانوں کے اپنے مقدرکا فیصلہ سامراجی قوتیں کرتی ہیں۔ یہاں کی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے طے کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران اس سامراجی لوٹ مار میں کمیشن ایجنٹ ہیں اور معیشت کے ساتھ ساتھ سیاست، ثقافت اور معاشرت میں بھی اپنے آقائوں کی خوب جی حضوری کرتے ہیں۔ ''مشرقی تہذیب‘‘ اور ''مغربی روشن خیالی‘‘ پر سیاست کرنے والے مولویوں اور ''لبرلز‘‘ کے درمیان سرمائے کی حاکمیت پر بہرحال کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ امریکہ بہادر کا کوئی کھلا وظیفہ خوار ہے تو کوئی یہ وظیفہ ایسے لیتا ہے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔
امریکہ کی اپنی حالت بھی روز بروز پتلی ہو رہی ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین جمہوریت امریکہ میں پائی جاتی ہے جس کی رگ رگ میں بدعنوانی اور ضمیر فروشی رچی بسی ہوئی ہے۔ 22 جنوری کو
نیویارک کی ریاستی اسمبلی میں 21 سال سے چلے آرہے سپیکر سیلڈن سلور کو بدعنوانی کے پانچ کیسوں میںگرفتار کیا گیا۔ اس پر ریئل اسٹیٹ کی مختلف اجارہ داریوں کے حق میں قانون بنا کر کروڑوں ڈالر رشوت لینے کے الزامات سر فہرست ہیں۔ ہر کیس انتہائی سنگین نوعیت کا ہے جس میں اسے 20 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ قوی امکان ہے کہ دو دہائیوں میں اس نے جتنی دولت جمع کی ہے اس کے بل بوتے پر جلد ہی رہا ہو جائے گا۔ امریکی سماج میں کرپشن کی یلغار کا اندازہ آج کل نیویارک کے تھیٹر میں چلنے والے ڈرامے ''ہملٹن‘‘ کے اس گیت سے لگایا جا سکتا ہے: ''کرپشن کا گیت اتنا پرانا ہے کہ سب ایک ہی لے میں گا سکتے ہیں، اور دارالحکومت سے زیادہ مضبوط کرپشن اور کہیں نہیں ہے!‘‘
سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ جریدہ اکانومسٹ اپنے تازہ شمارے میں لکھتا ہے کہ ''امریکی نظام ایک بحران میں مفلوج ہے۔ امریکہ میں دولت کی سیاست زیادہ غلیظ اور گندی ہو چکی ہے۔ یہ جاگیردارانہ سیاست بنتی جا رہی ہے جس کا اظہار یہ ہے کہ 2016ء کے صدارتی امیدوار (جیب) بش اور (ہلیری) کلنٹن ہوں گے۔ ''Washington Consensus‘‘ کے مطابق تو تاریخ نے ختم ہو جانا تھا اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نسخے نے دنیا کو آزاد کروانا تھا لیکن آزادی کے وہ لمحات رک سے گئے ہیں۔ جمہوریت اب متوقع منزل نہیں رہی۔ روس اور ترکی جیسے ممالک‘ جہاں جمہوریت کے کچھ مواقع 20 سال پہلے پیدا ہوئے تھے‘ نے
بھی زار اور سلطان اپنا لیے ہیں۔ جابرانہ چین کی فی کس آمدن میں جمہوری ہندوستان کی نسبت دو گنا اضافہ ہوا ہے‘‘۔
یہ سامراج کے سب سے جارح اور سخت گیر نمائندوں کا اپنا تجزیہ ہے۔ جمہوریت اور سرمایہ داری کے اس امتزاج نے نسل انسان کو بھوک، غربت اور بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پچھلے 25 سال میں برازیل کے چار کروڑ انسانوںکو غربت سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ ان کی آمدن 25 سے بڑھ کر 27 ڈالر ماہوار ہو گئی ہے! دعوے کیا ہیں اور حقائق کیا۔ مہنگائی اور افراط زر کو مدنظر رکھا جائے تو غربت میں ہر طرف اضافہ ہی ہوا ہے۔
اس ملک میں بیس لاکھ نوجوان ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔ کالے دھن پر مبنی یہ بدعنوان سرمایہ داری کتنی ملازمتیںکن شرائط پر فراہم کر رہی ہے؟ حکمران طبقے کے دانشوروں اور ٹی وی اینکروںکے پاس شاید اس کا جواب تلاش کرنے کا وقت نہیں ہے۔ کچھ بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن بولتے نہیں کہ یہی نوکری کی شرط ہے۔
جمہوریت کے اس آٹھ سالہ ''تسلسل‘‘ کے بعد اب عوام مزید دھوکہ نہیں کھا سکتے۔ حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں وہاں جائز اور ناجائز کا فرق ہی مٹ گیا ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں رہا۔ کرپشن اس نظام کا ناگزیر حصہ بن چکی ہے اور اسی کرپشن پر یہ جمہوریت مبنی ہے، لیکن جمہور کب تلک مجروح اور مجبور رہے گا؟ محنت کشوں کی جمہوریت دولت سے نہیں محنت کے اشتراک سے جنم لیتی ہے۔ محنت کا یہ اشتراک جب سیاسی اشتراک میں بدلے گا تو اس سے پھوٹنے والا انقلاب کرپشن کی جمہوریت اور جمہوریت کی کرپشن کے اس کھلواڑ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر ڈالے گا!