تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     07-02-2015

کرکٹ کا زوال… ایک سماجی عمل

کرکٹ بحیثیت کھیل میرا موضوع نہیں۔ اس کی فنی نزاکتوں کو میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا عمران خان، فکرِ اقبال کی باریکیوںکو۔ میں سماجیات کا طالب علم ہوں، اس لیے کرکٹ کو بطور ایک سماجی عمل دیکھ رہا ہوں۔
کرکٹ کا زوال ان دنوں زیر بحث ہے۔ ورلڈ کپ کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ٹیم افکارِ پریشاں کا ایک مجموعہ ہے۔ کوئی شعبہ قابل بھروسہ نہیں۔ کرکٹ آج عظمت رفتہ کی ایک داستان کے سوا کچھ نہیں، امت مسلمہ کی طرح۔ جس طرح ہم صلاح الدین ایوبی اور عمر بن عبدالعزیز کے قصے سنا کر جی کو خوش کرتے ہیں، ایسے ہی عمران خان اور جاوید میانداد کی کہانیاں ہیں جو ہمیں آسودہ رکھتی ہیں... کبھی ہم بھی خوبصورت تھے! لوگ اس زوال کے فنی پہلو تلاش کرتے ہیں۔ تجزیے کا ایک میدان یقیناً یہ بھی ہے، لیکن میںکھیل کو ایک ہمہ گیر سماجی عمل کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہوں۔ ہمارا زوال محض کرکٹ تک محدود نہیں۔ ہماری ہاکی کہاں گئی؟ اِس کھیل میں تو ہمارا ماضی کہیں تاب ناک اور ہماری فتوحات کرکٹ سے کہیں زیادہ ہیں۔ باقی کھیلوں کا ذکر ہی کیا کہ ہم ان میں پہلے کون سے یکتا تھے۔ اس لیے میں کرکٹ کو اس سماجی حوالے سے دیکھ رہا ہوں۔
معاشرے میں جزیرے نہیں بنتے۔ زوال جب آتا ہے تو وہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہتا۔ وہ زندگی کو بحیثیت مجموعی اپنی لپیٹ میں لیتا اور یوں انحطاط ایک ہمہ گیر عمل بن جاتا ہے۔ قدرت صلاحیتوں کی عطا میں ہمیشہ سخاوت کا مظاہرہ کرتی ہے‘ اگر 
زوال کے بد ترین دور میں یہ غالب، سر سید اور قاسم نانوتوی پیدا کر سکتی ہے تو اب کیوں نہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ سماج عطا ئے خداوندی کی پذیرائی کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ یوں صلاحیت وہاں کا رخ کرتی ہے جہاں فضا اس کی نشوونما کے لیے سازگار ہو۔ راحت فتح علی خان پاکستان میں ہوتے ہوئے اجنبی رہتا ہے۔ بھارت کی فضا‘ جو فطری طور پر موسیقی کی تانوں سے آباد رہتی ہے‘ اسے موقع دیتی ہے اور یوں وہ صلاحیت چمک اٹھتی ہے۔ پاکستان کی فضا ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو اگل دیتی ہے تو شمال مشرقی ایشیا ان کے افکار سے آباد ہو جاتا ہے۔ ہمارے کھلاڑی برطانیہ، آسٹریلیا میں کرکٹ کھیلتے ہیں اور ان کا ہم سر کوئی نہیں ہوتا، یہاںتک کہ محمد عامر کی طرح باکسنگ میں بھی ہم نمایاں ہو جاتے ہیں۔ یہاں حال یہ ہے کہ ہم کبڈی کے میچ بھی ہار جاتے ہیں۔
ہمیں دو بنیادی مسائل درپیش ہیں۔ ایک یہ کہ ہم بحیثیت سماج زوال پذیر ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سماج ایک اکائی کے طور پر کبھی ہماری ترجیح نہیں رہا۔ ہم اپنی سماجی اقدار کے بارے میں حساس نہیں ہیں۔ ہم عرب سے مرعوب ہیں یا مغرب سے۔ کوئی عربی لباس میں دین تلاش کرتا ہے اور کوئی مغربی لبادے میں ترقی پسندی۔ یوں اسلام اور ترقی پسندی کے نام پر ہم اپنے سماجی وجود سے لاتعلق ہو گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ شتر گربگی ہے۔ ایسے عالم میں صرف ابہام جنم لیتا ہے اور ابہام میں فرد کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا پوری طرح اظہار کر سکے۔
ماضی میں،1979ء سے پہلے، جب ہمارا تہذیبی وجود باقی تھا، نوجوان فطری طور پر آگے بڑھتے تھے۔ یہاں مدارس، مساجد، جدید تعلیمی ادارے، کھیل، فنون ِلطیفہ سب کچھ موجود تھا۔ ہر کوئی اپنی صلاحیت کے مطابق کسی شعبے کا انتخاب کرتا تھا اور سماج بحیثیت مجموعی، اگر اس کی تائید نہ کرے تو کم از کم مزاحم نہیں ہوتا تھا۔ 1979ء کے بعد سماجی اعتبار سے ہماری تشکیل نو ہوئی۔ اب اقدار بدل گئیں۔ سماج بعض خاص نظریات اور کرداروں کے لیے سازگار بنا لیکن دوسرے شعبوں میں مزاحم ہونے لگا۔ مثال کے طور پر اس کے بعد اگر کسی نے چاہا کہ وہ فلم میں کوئی نام کمائے یا موسیقی میں آگے بڑھے تو اس کے لیے سماجی و ریاستی قوتیں رکاوٹ بننے لگیں۔ اس کے برخلاف اگر وہ مذہب کے نام پر پُرتشدد خیالات کو اپنا لے تو سماج اور ریاست اس کا خیر مقدم کرنے لگے۔ یوں سماج کی نوعیت یکسر تبدیل ہو گئی۔ خیبر پختون خوا کی مثال دیکھ لیجیے۔ فنون لطیفہ کے لیے حالات اگرچہ پہلے ہی زیادہ سازگار نہیں تھے، لیکن ایم ایم اے کی حکومت آئی تو فنکار افغانستان بھاگ گئے یا کہیں چھپ گئے۔ یہی نتیجہ طالبان کے فروغ کا بھی ہوا۔
دوسرا بڑا مسئلہ جو اس رویے کا ایک نتیجہ ہے، وہ یہ کہ پاکستان میں ادارے نہیں بن سکے۔ یہاں افراد کی پوجا کا کلچر ہے۔ قدرت کسی میدان میں وقتاً فوقتاً غیرمعمولی افراد پیدا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ روزمرہ بن جائے۔ ہم اس لیے ہمیشہ کسی صلاح الدین ایوبی یا کسی وسیم اکرم کا انتطار کرتے ہیں۔ ہر دور میں غیر معمولی لوگ کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔ انسان نے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اس کا متبادل اداروں میں تلاش کیا۔ جب ادارے بن جاتے ہیں تو اوسط سطح کے لوگوں میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اجتماعی طور پر غیر معمولی لوگوں کی طرح نتائج دینے لگتے ہیں۔ مغرب میں یہی ہوا ہے۔ نیوٹن یا آئن سٹائن وہاں روز روز پیدا نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود سائنسی ترقی کا عمل جاری ہے اور ہوش ربا نتائج دکھا رہا ہے۔
جب ادارے نہیں بنتے تو رشوت، سفارش اور معلوم نہیں کیسے کیسے چور دروازے کھل جاتے ہیں۔ میرٹ باقی نہیں رہتا۔ کوئی معیار نہیں ہوتا جس پر پرکھ کر کھرے اور کھوٹے کی تمیز کی جا سکے۔ اس کے نتیجے میں ہر شعبے میں تیسری اور چوتھی سطح کے لوگ بروئے کار آتے ہیں۔ پاکستان میں یہ یہی ہو رہا ہے۔ ہر شعبے میں یہی کلچر ہے اور اس کا نتیجہ ایک ہمہ گیر زوال کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ کرکٹ کا اس حوالے سے کوئی استثنا نہیں۔ ہم نے ایک طرف نوجوانوں کے لیے کھیل اور فنون لطیفہ کے دروازے بند کیے اور دوسری طرف بہت سے میدان ہائے جنگ کے پٹ کھول دیے۔ دوسرا یہ ہوا کہ ہم نے کرکٹ میں باصلاحیت لوگوںکی تلاش کے لیے ادارے نہیں بنائے۔ اس کا انجام ہماری آنکھوںکے سامنے ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ یہ محض کرکٹ کا زوال نہیں، سماج کا زوال ہے۔ سماج میں جزیرے نہیں بنتے۔ کرکٹ سمیت ہر شعبے میں ترقی کا صرف ایک راستہ ہے، سماج کو زندہ کیا جائے۔ سماج ایک نظام اقدار پر قائم رہتا ہے۔ ہمیں انہیں اقدار کو تلاش کرنا ہے۔ اس کی کوئی کوشش میں نہیں دیکھ رہا۔ ہم ابھی تک یہ خیال کرتے ہیں کہ سیاسی تبدیلی سے لوگ بدل جائیں گے۔ سیاست کا معاملہ یہ ہے کہ یہ خود نہیں بدلتی، افراد کو اپنے سانچے میں ڈھال لیتی ہے۔ کوئی چاہے تو جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف کی سیاست پر ایک نظر ڈال لے۔ اب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بیرسٹر سلطان میں اس کے علاوہ کیا خرابی ہے کہ اپنی شام برباد کر دیتے ہیں، ویسے ہیں تو 'دیانت دار‘۔ جو تھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا۔ گویا آج خواب کی بنیاد پر نہیں، صرف زمینی حقائق کی روشنی میں فیصلے ہوتے ہیں۔
اس لیے میں کہتا ہوں کہ کرکٹ کے زوال کو سماجی انحطاط کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ اسی سے اصلاح کا دروازہ کھلے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved