تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     07-02-2015

پرکھوں اور پریوںکا دیس جموں

میں نے بچپن میں اپنے دادا اللہ رکھا میر سے کئی بار یہ سنا کہ ''ہم ایک دن لوٹ کر واپس کشمیر جائیں گے‘‘۔ ہجرت کے کئی سال بعد تک دادا یہ سمجھتے رہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے بعد وہ دوبارہ اپنے دیس‘ اپنے گھروں میں جا بسیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ یہ آرزو دل میں لئے دادا 1974ء میں گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں دفن ہوئے اور جموں سے نسبت کے باعث ان کی قبر پر جو کتبہ آویزاں ہوا اس پر لکھا گیا ''میر اللہ رکھا جموں والے‘‘۔ دادا لگ بھگ 27 سال تک گجرانوالہ رہے۔ اس عرصہ میں وہ ہر روز اپنے شہر کو یاد کرتے رہے لیکن دوبارہ جموں دیکھ نہ سکے۔ دادا کے بعد اس آس، اُمید اور خواہش کی کونپلیں میرے والد غلام سرور میر کے دل میں بھی کھلتی اور مرجھاتی رہیں‘ لیکن وہ بھی کبھی جنت نظیر وادیٔ کشمیر کو دوبارہ نہ دیکھ سکے۔ بھارتی ٹی وی پر کبھی کبھار جب دریائے توی دیکھتے تو میرے والد کی آنکھیں بھیگ جایا کرتی تھیں۔ والد صاحب وادی اور جموں سے محبت کا ورثہ تیسری نسل کو منتقل کرکے 2003ء میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ 
25 اکتوبر 2003ء کی رات مجھے بھولتی نہیں۔ میں رات دیر گئے لاہور سے گجرانوالہ پہنچا‘ جہاں بیمار والد میرے منتظر تھے۔ رات ڈھائی بجے کا وقت تھا۔ میں نے دیکھا‘ میرے والد‘ جو اپنے زمانے میں ایک وجیہہ، خوش شکل اور خوش پوش جوان کے طور پر پورے جموں شہر میں مشہور تھے، ہڈیوں کا پنجر بن چکے ہیں۔ ان کا نحیف جسم ایسا ہو گیا تھا جیسے بستر کے ساتھ بچھا دیا گیا ہو۔ مجھ سے اپنے والد کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ میں نے ان سے کہا ''ابا جی میں جموں جا رہا ہوں‘‘۔ یہ بات میں نے اس خیال سے کہی تھی کہ جموں کے نام سے والد صاحب کا دل بہل جائے گا‘ لیکن میرا یہ کہنا تھا کہ والد صاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں، کمزوری اور نقاہت کے باعث وہ اپنے خشک گالوں پر بہنے والے آنسوئوں کو پونچھنے سے بھی قاصر تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر ان کے آنسو پونچھے۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ میں نے انہیں کہا کہ میں کہیں جا رہا ہوں‘ تو وہ خوش ہونے کی بجائے اداس اور غمناک ہوگئے تھے۔ انہوں نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور کہا ''اچھا یار فیر جموں دی مٹی ای میری قبر تے پا دینا‘‘ (اچھا دوست پھر جموں کی مٹی ہی میری قبر پر ڈال دینا)
دادی بھی جموں کی کہانیاں سناتی گجرانوالہ میں دفن ہوئیں۔ وہ ہمیشہ جموں کا ذکرکرتے ہوئے کہا کرتیں ''ساڈا جموں‘‘ (ہمارا جموں)۔ دادی بتاتی تھیں کہ ہمارے جموں کی فضائیں ہر وقت پھولوں کی خوشبوئوں سے مہکتی رہتی تھیں۔ بقول دادی جموں میں موتیے کے پھول کا سائز بھی سورج مکھی کے پھول جتنا تھا۔ چاندنی رات میں رات کی رانی کی خوشبو سے معطر ٹھنڈی ہوائیں جموں کو کسی جادوئی بستی کا روپ دے دیا کرتی تھیں۔ یخ بستہ راتوں میں ہلکی آنچ پر پکائی جانے والی شب دیگ کا ذائقہ ایسا تھا جیسے آسمان سے اترا من و سلویٰ ہو۔ ناشتہ سبز چائے اور پراٹھوں سے کیا جاتا اور دوپہر کے کھانے کے بعد سہ پہر کو چائے کے ساتھ باقر خانی کھانا جموں میں بسنے والوں کا معمول تھا۔ اس شہر کے باسیوں میں شامل بزرگوں کی زندگی میں اکثر و بیشتر ایسا واقعہ ضرور پیش آتا تھا‘ جس میں ان کا آمنا سامنا کسی جن اور بھوت سے ہوتا۔ بہت چھوٹی عمر تک تو میں یہ سمجھتا رہا کہ ہمارا جموں، کوہ قاف کی کسی تحصیل یا ڈسٹرکٹ کا نام ہے‘ جہاں جنوں کی آبادی بھی انسانوں جتنی ہے۔ دادی اپنے ابا اور اماں یعنی ہمارے پڑنانا اور پڑنانی سے منسوب جنوں، بھوتوں اور پریوں کے کئی قصے کہانیاں سنایا کرتیں‘ جسے ہم سب بہن بھائی اس قدر انہماک سے سنا کرتے‘ جیسے سالانہ امتحان میں انہی واقعات پر مبنی سوالات پوچھے جائیں گے۔
جموں میں میرے والد کے نانا چراغ دین پہلوان ایک عدد ہوٹل کے مالک تھے‘ جس کا نام تاج ہوٹل تھا۔ یہ ہوٹل اردو بازار میں واقع تھا۔ اردو بازار کا نام اب تبدیل کرکے راجندر کمار بازار رکھ دیا گیا ہے۔ تاج ہوٹل کے سامنے جموں کی جامع مسجد بھی ہوا کرتی تھی‘ جس کے ساتھ تالاب کھڑئیکاں تھا۔ کھڑئیکاں کھال سے چمڑا بنانے کے کام کو کہا جاتا ہے۔ یہ تالاب ہمارے بزرگوں کے وقت سے ہے اور جموں شہر میں یہ کام اب بھی جاری ہے۔ ہمارا آبائی گھر محلہ دل پتیاں میں ہوا کرتا تھا۔ اس کے ارد گرد محلہ پیر مٹھا، کنک منڈی (گندم منڈی) اور محلہ پکا ڈنگا واقع ہیں۔ تاج ہوٹل سے کچھ فاصلے پر دریائے توی بہتا ہے، جس کا حسین تصور ہمارے ذہنوں میں دنیا کے ہر دریا سے کہیں زیادہ مسحور کن ہے۔
چند دن پہلے ملک افضل کے ہاں ایک رات بیلیوں نے محفل سجائی‘ جہاں جواں سال اجمل جامی، افضل ساحر اور پریوں کے دیس جموں سے آئے ہوئے طبع زاد ادیب خالد حسن سے ملاقات ہوئی۔ خالد حسن صاحب سے نسبت کی وجہ بھی جموں ہے۔ وہ اس شہر سے ڈپٹی کمشنر ریٹائرڈ ہوئے اور اب یہیں آباد ہیں۔ میں کبھی کبھار انہیں فون کرتا رہتا ہوں۔ ایک دن جب والد کی قبر پر فاتحہ کے لئے گیا‘ تو وہاں سے ٹیلی فون کال ملا کر سپیکر آن کر دیا۔ خالد صاحب پکے جموں کے لہجے میں بات کر رہے تھے اور میرے آنسو ابا کی قبر پر گر رہے تھے‘ جو اپنا جموں دوبارہ دیکھنے کی خواہش دل میں لئے قبر میں جا لیٹے تھے۔ خالد حسن کی پیدائش اودھم پور کی ہے اور اب وہ ایک عرصہ سے جموں میں ہی آباد ہیں۔ ان سے میری ملاقات پچھلی سردیوں لاہور میں ہوئی تھی۔ یہاں وہ عالمی ادبی کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ خالد صاحب کی آمد میرے لئے کسی بہت بڑے ایونٹ سے کم نہیں ہوتی۔ ان کی آمد ایک بڑا واقعہ محسوس ہوتا ہے۔
ملک افضل کے ہاں سجائی گئی محفل خالد صاحب نے اپنا غیر مطبوعہ افسانہ سنا کر لوٹ لی۔ افسانے کا نام تھا ''شاداں بلی جموں والی‘‘۔ مجھے پکا یقین ہے کہ جب یہ افسانہ شائع ہو گا تو شائقین اسے پڑھتے ہوئے لٹتے بھی رہیں گے اور ڈکیتی کی اس ''واردات‘‘ کی ایف آئی آر درج بھی نہیں کرائیں گے۔ افضل ساحر نے تبصرہ کیا کہ خالد صاحب نے نثر میں شاعری کر دی ہے‘ یہ افسانے کا مترنم اسلوب ہے۔ یہ حقیقی داد تھی۔ خالد صاحب نے افسانے اور شاعری کو آپس میں ضم کر دیا ہے اور اس (کراس پولی نیشن) پیوند کاری سے منٹو اور منیر نیازی کے فن پاروں سے کشید کی گئی ایک نئی قلمی اور ادبی جنس تخلیق ہو پائی ہے‘ جس کے مالک خالد حسن ہیں۔ لاہور میں سجائی جانے والی ادبی محافل سے وقت ملے تو خالد صاحب سے میں جموں کے بارے میں پوچھتا ہوں۔ خالد صاحب آج کے جموں کا بھی جو نقشہ بیان کرتے ہیں وہ دادا، دادی، ابا اور دوسرے بزرگوں کے بیان کردہ جموں سے ملتا جلتا ہے۔ 
5 فروری کو پاکستان میں سرکاری سطح پر یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ ہم پاکستانی‘ کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتے ہیں اور بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ثابت کرتے ہوئے وادی میں ایک عرصہ سے 8 لاکھ فوج تعینات کئے ہوئے ہے۔ کشمیر میں اب تک لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ وادی میں ہزاروں گمنام قبریں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی بے حسی کا اشتہار ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر سے اب تک ہزاروں مرد لاپتہ ہیں‘ جن کی بیویوں کے لئے ''ہاف وڈوز‘‘ (آدھی بیوہ) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ان ہزاروں مردوں کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ زندہ ہیں یا انہیں بھی قتل کر دیا گیا ہے۔ ان بدنصیب مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کو معلوم نہیں کہ یہ ابھی تک سہاگنیں ہیں یا بیوہ ہو چکی ہیں۔ اس لئے ان کرم جلیوں کے لئے آدھی بیوہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا اور سیاستدان مسئلہ کشمیر کو پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور ہماری حکومتوں کی سازش قرار دیتا ہے‘ جبکہ تاریخی اور معروضی حقائق اس سے مختلف ہیں۔ بھارتی میڈیا، سیاستدان اور پارلیمان جیسے ادارے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ہر وقت دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے میں کوشاں رہتے ہیں‘ جبکہ غیر جانبدار بھارتی اسے بھارتی ریاستی جبر اور مکاری سے تعبیر کرتے ہیں۔
دلیپ کمار صاحب نے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے آزادی کو کشمیریوں کا حق قرار دیا تو بھارت کے متعصب میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ دلیپ صاحب کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر زمین اور وسائل کا تنازعہ نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے‘ جو بھارت سمیت مہذب دنیا کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ بھارت، پاکستان اور سپر طاقتوں کو انسانیت کے ماتھے پر اس کلنک کے ٹیکے کو مٹانا ہو گا۔ پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کی ترجمانی مذہبی اور متشدد گروہوں کے بجائے عوامی، سیاسی، سفارتی اور حکومتی سطح پر موثر انداز میں کی جائے تو اس مسئلہ کو دوبارہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کوشش کامیاب ہوئی تو ہم اپنے پرکھوں اور پریوں کا دیس جموں دیکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved