ہمارے ہاں کا پولیس کا محکمہ کوئی علم دوستی کی شہرت تو رکھتا نہیں ہے لہٰذا نفرت انگیز مواد ضبط کرنے کی کارروائی کے ضمن میں اس محکمے کے بندوں سے منسوب یہ جو باتیں منظرعام پر آ رہی ہیں کہ ان لکھنے والوں کو بھی تلاش کرتے پائے گئے ، جن کو اس دنیا سے گئے برسوں گزر چکے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی باتیں نہیں۔ وہ لطیفہ بھی اس محکمے سے منسوب ہے کہ حکام بالا نے ایک ملزم کی تین مختلف تصویریں تھانے بھجوائیں اور کارروائی کا حکم دیا۔ دو دن بعد جب حکام بالا نے متعلقہ تھانیدار سے کارروائی کی پیش رفت دریافت کی تو بولے ''جناب والا، دو ملزم حراست میں ہیں تیسرے کی تلاش جاری ہے‘‘۔
یہ لطیفہ بھی پولیس سے متعلق ہے کہ ایک ٹریفک سارجنٹ نے ایک شخص کا چالان کرتے وقت اس کا نام پوچھا تو اس شخص کو شرارت سوجھی۔ اس نے کہا میرا نام ہے ،مستنصر حسین تارڑ۔ چالان کی کاپی سارجنٹ کے ہاتھ میں تھی اور وہ سوچ میں گم تھا کہ اتنا مشکل نام وہ کیسے لکھ پائے گا۔ لہٰذا اس نے کاپی واپس رکھتے ہوئے اس شخص کو زبانی وارننگ دے کر چھوڑ دیا۔ ان پرانے گھسے پٹے لطیفوں سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ہماری پولیس کتنی علم دوست ہے۔ لہٰذا اس محکمے سے شکوہ فضول ہے۔ اصل شکوہ تو اُن سے ہے جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں۔
آج کل ٹیلی وژن کے پروگراموں میں پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے علم دوستی کا جو مظاہرہ ہوتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کسی وزیر کو اسمبلی میں کسی قانون کا متن پڑھنا پڑھ جائے تو موصوف کی علمی صلاحیت سب پر عیاں ہو جاتی ہے۔ جس شخصیت کو ٹی وی کی وساطت سے ایک جید ہستی سمجھا جاتا ہے ان کو شرلاک ہومز کردار کے خالق سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ادیب Conan Doyle کو Canon Dial بول کر حاضرین و ناظرین کو متاثر کرتے میں ٹی وی پر دیکھ چکا ہوں۔ لہٰذا کس کس تعلیم یافتہ کا ذکر کیا جائے۔ چلیے، آج کے دور کو چھوڑتے ہیں اور ماضی میں جھانکتے ہیں جہاں آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنے ملک میں انگریزوں کے دور کا جو میرٹ پر مبنی نظام تھا اس کی کس طرح دھجیاں اڑائیں۔ میرٹ کے نظام کی دھجیاں اڑانے کی وجہ ہی سے ہم اس انجام تک پہنچے ہیں کہ صحیح طور پر کسی تعلیم یافتہ شخص کا ہمارے ملک میں پایا جانا محال ہو چکا ہے۔ جب برسوں تک مسلسل آپ سفارش کے ذریعے اور کوٹہ سسٹم کے ذریعے جاہلوں کو پڑھے لکھے لوگوں پر مسلط کرتے رہیں گے تو پھر نتیجہ یہی ہوگا کہ اساتذہ بے علم ہو جائیں گے‘ سرکاری افسر نااہل ہو جائیں گے اور اس سسٹم سے جو لوگ سیاست میں آئیں گے وہ بھی کم علمی کے ضمن میں اپنی مثال آپ ہوں گے۔
میری رائے میں ایوب خان کے دور تک ہمارے ہاں میرٹ کی بہرحال قدر کی جاتی تھی۔ سب سے پہلے میرٹ کی درگت ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت کے دور میں بنی جس کے بعد ہم آج تک سنبھل نہیں پائے۔ مجھے یاد ہے بھٹو صاحب کے دور میں ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر کی تیس کے قریب اسامیوں کا تمام بڑے اخبارات میں اشتہار دیا گیا۔ پاکستان بھر سے ہزاروں کی تعداد میں امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ پانچ شہروں یعنی اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور کوئٹہ میں ان امیدواروں کے تحریری امتحانات لیے گئے۔ سب کے پرچے چیک کرنے کے بعد کوئی چھ یا سات سو امیدواروں کو انٹرویو کا اہل قرار دیا گیا۔
مذکورہ پانچوں شہروں میں ریڈیو افسران اور دانشوروں پر مشتمل انٹرویو بورڈ نے ان چھ سات سو امیدواروں کے انٹرویو کیے اور پھر چالیس امیدواروں کی ایک حتمی فہرست تیار کی جن میں سے پہلے تیس کو خالی اسامیوں پر تعینات کرنا تھا اور دس نام Stand by رکھنے تھے کہ اگر ان تیس امیدواروں میں سے کچھ ملازمت میں آنے سے انکار کردیں تو دس ناموں میں سے ان کی جگہ پروڈیوسر بھرتی کر لیے جائیں۔
بھرتی کے اس سارے عمل میں چار ماہ صرف ہوئے۔ انٹرویو بورڈ نے جو پانچوں شہروں کا دورہ کیا وہ تو ایک ماہ میں مکمل ہوا مگر اس سے پہلے ہزاروں امیدواروں کے تحریری امتحان کے لیے پرچے بنائے جانا‘ پھر امتحانوں کا انعقاد‘ پھر پرچوں کا چیک کیا جانا اور پھر جا کر چھ سات سو ایسے امیدواروں کی فہرست مرتب کرنا جن کا انٹرویو کیا جائے‘ اس سارے عمل میں تین ماہ صرف ہو گئے۔ ریڈیو پاکستان کا اس تمام کارروائی پر اچھا خاصا بجٹ بھی خرچ ہوا تھا۔
ہوا یہ کہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل اجلال حیدر زیدی نے منتخب ہونے والے تیس امیدواروں کی فہرست وزارت اطلاعات و نشریات‘ کوحتمی منظوری کے لیے بھجوا دی۔ اس دور میں مولانا کوثر نیازی وزیر اطلاعات و نشریات تھے۔ اجلال حیدر زیدی کو غالباً اس ضمن میں سیاسی حکومت کا پہلا تجربہ تھا کیونکہ قبل ازیں ایوب خان اور یحییٰ خان کا دور وہ دیکھ چکے تھے اور جیسا میں نے ذکر کیا کہ ان ادوار میں بہرحال میرٹ کی اتنی بے قدری نہیں تھی۔
تو جناب ہوا یہ کہ اجلال حیدر زیدی صاحب کی بھجوائی گئی فہرست کے جواب میں وزارت اطلاعات و نشریات سے ایک بالکل نئی فہرست موصول ہوئی، اس حکم کے ساتھ کہ ان افراد کو تقرر نامے جاری کر دیے جائیں۔ زیدی صاحب ازحد پریشان ہوئے لیکن انہوں نے نئی فہرست کے مطابق تقرر نامے بھی جاری نہ کیے۔ یہ تعطل کچھ عرصہ قائم رہا۔ پھر وزیر اطلاعات نے تنگ آ کر خود زیدی صاحب سے رابطہ کیا۔ اپنی سیاسی مجبوریوں کا ذکر کیا، دیگر وزراء کے سیاسی دبائو کی بات کی۔ جواب میں زیدی صاحب نے وزیر موصوف کے سامنے وہ سارا عمل دہرایا کہ کس طرح اشتہار دیا گیا‘ تحریری امتحانات ہوئے‘ انٹرویو ہوئے۔ زیدی صاحب چونکہ بہت قابل افسر تھے اور دیگر CSP افسران میں بھی ان کی بہت عزت تھی لہٰذان کے موقف کو رد نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن ادھر بھی عوامی حکومت تھی۔
بہرحال آخرکار فیصلہ یہ ہوا کہ آدھے میرٹ پر رکھے جائیں گے اور آدھے سیاسی بنیادوں پر۔ جن کو سیاسی بنیادوں پر رکھا جائے گا انہوں نے اگر تحریری امتحان اور انٹرویو نہ دیے ہوئے تو خانہ پری کے لیے ان کے امتحانی پرچے تخلیق کیے جائیں گے اور انٹرویوز میں بھی ان کی موجودگی کا اندراج کیا جائے گا تاکہ ریکارڈ مکمل رہے۔
بعدازاں یہ ہوا کہ تقریباً روزانہ ہی وزیر اطلاعات‘ ڈائریکٹر جنرل ریڈیو کو محبت بھرا ایک فون کر کے درخواست کرتے کہ مجبوری ہو گئی ہے۔ ایک پروڈیوسر کا کوٹہ میرٹ سے ہٹا کر سیاسی کھاتے میں ڈال دیں۔ اس طرح آٹھ دس دن میں میرٹ لسٹ سے مزید کئی نام حذف ہو گئے اور جب حتمی طور پر تقرر نامے جاری ہوئے تو تیس میں سے صرف گیارہ ناموں کو میرٹ کی بنیاد پر تقرر نامے جاری ہو سکے۔
اب عوامی حکومت کی قسمت دیکھیے کہ جن گیارہ لوگوں کو تقرر نامے جاری ہوئے ان میں چھ سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات پاس کرنے کی وجہ سے جائن نہ کر سکے جبکہ دو کو اپنے پسند کے شہروں میں لیکچرر کی نوکری مل گئی تھی۔ محض تین پروڈیوسر میرٹ پر بھرتی ہو سکے۔ بقیہ ستائیس پروڈیوسروں کی بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوئیں۔
ستر کے بعد آپ کسی سرکاری محکمے میں تحقیق کر لیں۔ آپ کو یہی نکتہ ملے گا جس کا میں نے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی یہی کچھ جاری رہا پھر میاں نوازشریف اور بے نظیر کے ادوار میں تو میرٹ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔ اب جو صورت ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
ایک محکمہ جس نے اپنے آپ کو میرٹ سے دور نہیں ہونے دیا وہ پاک افواج ہے۔ ہمارے سول حکمرانوں کو اس بارے میں غور کرنا چاہیے،بجائے اس کے کہ دل ہی دل میں پاک فوج کو اپنا کوئی مدمقابل باور کیا جائے‘ ہمارے سول حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر میرٹ کی وجہ سے ہمارے ہی ملک کا ایک ادارہ اس قدر مضبوط ہے تو پھر کیوں نہ دیگر اداروں میں میرٹ پر سختی سے عمل کروا کے ان کو بھی مضبوط بنایا جائے۔