وہ زمانے ہوا ہوئے جب ہم آپ ملتے تھے اور مل بیٹھ کر کچھ بتیا لیا کرتے تھے۔ انسانوں کا انسانوں سے رابطہ ناگزیر ہے کہ ایسا کئے بغیر دِل سے دِل نہیں ملتے، بات نہیں بنتی، آنکھوں میں چمک پیدا نہیں ہوتی اور حقیقی ہم آہنگی کے درشن نہیں ہوتے۔
دنیا میں کم ہی انسان ہیں جو سیدھی راہ پر چل کر منزل تک پہنچنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہر دور میں تحقیق اور ترقی کے لیے مصروفِ جہد رہنے والوں کا ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ وہ سیدھی سی بات کو ٹیڑھا کردیتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی اپنے بیٹے کے ساتھ جا رہا ہو اور آپ پوچھیں کہ یہ کون ہے تو وہ بتائے کہ یہ بچہ اُس کی اکلوتی ساس کی اکلوتی بیٹی کا اکلوتا بیٹا ہے! ارے بھائی! سیدھا سیدھا بول کہ میرا بیٹا ہے!
بات ہو رہی تھی انسانوں کے مابین رابطوں کی، تعلقات کی۔ ابھی کل تک یعنی یہی کوئی بیس پچیس سال پہلے تک لوگ دفتر، فیکٹری یا دکان سے گھر آنے کے بعد تازہ دم ہوکر گھر سے نکلتے تھے کہ دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزاریں۔ کسی چبوترے پر یا پھر ہوٹل میں بیٹھ کر کچھ دیر گپ شپ لگانے سے تمام اُلجھنیں دور ہو جاتی تھیں یا پھر خوش گوار لمحات میں ایسی دب جاتی تھیں کہ تادیر پریشان کرنے سے توبہ کرلیتی تھیں۔ اب لوگ شام کو گھر واپسی کے بعد تازہ دم ہوکر یا تو ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں یا پھر کمپیوٹر کھول کر انٹرنیٹ کے ذریعے کسی سوشل نیٹ ورک کے آستانے پر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں!
نئی نسل کو گھومنا پھرنا اچھا لگتا ہے۔ مگر اب گھومنا پھرنا بھی نیٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ آج کے بچے اور لڑکے نیٹ کے ذریعے دوستوں سے ملتے ہیں۔ چیٹنگ، وائس چیٹنگ اور وڈیو چیٹنگ ... تمام ہی آپشنز موجود ہیں۔ ذرا فلمی انداز سے کہیے تو
بولو جی! تم کیا کیا خریدو گے؟
ہم نے ایک زمانے سے یہ وتیرہ اپنا رکھا ہے کہ جب بھی فراغت کے چند لمحات میسر ہوتے ہیں، دوستوں سے ملنے پہنچ جاتے ہیں۔ دوستوں میں جو مقام مرزا تنقید بیگ کا ہے وہ کسی اور کا نہیں۔ اور کیوں نہ ہو؟ اُن کا مقام یعنی مکان ہمارے مکان سے زیادہ دور نہیں۔ دو گلیاں پار کیجیے اور مرزا کا دولت کدہ آنکھوں اور قدموں کے سامنے ہوتا ہے۔ آج کے زمانے میں ایسی یاری ہی سَچّی یاری ہے یعنی سَچّا دوست وہ ہے جس کے گھر تک پہنچنے کے لیے کچھ خرچ نہ کرنا پڑے!
مرزا سے ہماری دوستی اِتنی پُرانی ہے کہ بہت سے لوگ مارے حسد کے ہمیں ''قدامت پسند‘‘ کہنے لگے ہیں! اور ہمیں اِس لیبل پر کوئی اعتراض نہیں۔ اِس لیے کہ لوگ مرزا کو نہیں جانتے ورنہ ہمیں ''شِدّت پسند‘‘ سے کم کچھ بھی قرار نہ دیتے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے ہماری اور مرزا کی دوستی میں بھی نقب لگادی ہے۔ چند ماہ سے مرزا نے گھر میں بیٹے کے کمپیوٹر پر نیٹ سے محظوظ ہونا شروع کردیا ہے۔ اب ہم جب بھی مرزا کے گھر جاتے ہیں، وہ ہمیں نیٹ پر گُل کِھلاتے ہوئے ملتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ کسی بھی ویب سائٹ کے انجانے اور ''شجرِ ممنوعہ‘‘ قسم کے گوشے میں داخل ہوتے ہیں اور پھر معاملہ اِتنا اُلجھ جاتا ہے کہ اُن کے بیٹے کو خاصی محنت کرکے معاملات درست کرنے پڑتے ہیں یعنی وائرس کی راہ مسدود کرنی پڑتی ہے۔
مرزا سے ہماری ملاقاتوں کی تازہ ترین اپ ڈیٹ کل کی ہے۔ شام کا وقت تھا۔ فضاء میں اعتدال تھا۔ ہم نے سوچا چلو کچھ دیر مرزا کے ساتھ گپ شپ ہی لگالیں۔ گھر والوں نے روکا بھی کہ ایسی سُہانی شام کو مرزا کے ساتھ گزارنا کفرانِ نعمت کے مترادف ہے۔ مگر شامتِ اعمال دیکھیے کہ ہم نہ مانے۔ مرزا کے ہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ سماجی رابطوں کی ایک ویب سائٹ سے دھینگا مُشتی کر رہے ہیں۔ ہم نے سلام دعا کے بعد کونا پکڑ لیا کہ وہ فارغ ہوں تو ہم کچھ بات کریں۔ وقت گزرتا گیا اور مرزا کا جوشِ جُنوں پروان چڑھتا گیا۔ ہم شش و پنج میں مبتلا رہے کہ مرزا کو ٹوکیں یا نہ ٹوکیں۔ اُن کا جوش و خروش اور جذبۂ جُنوں دیکھ کر خیال آیا کہ اگر اِس میں سے تھوڑا سا حصہ ہماری کرکٹ ٹیم کو مل جائے تو ورلڈ کپ کے بغیر گھر وطن کا رُخ نہیں کرے گی!
خاصا وقت گزر گیا تو ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں یعنی ہم بھی کمرے میں موجود ہیں۔ ہماری بات سُن کر اُنہوں نے خاصی متجسس نظروں سے ہمیں دیکھا اور کچھ سوچنے کے بعد آن لائن رہنے کو ترجیح دی۔ ہمیں بہت غصہ آیا مگر چُپ رہے۔ چند ہی لمحات گزرے تھے کہ مرزا (اپنا) سَر پیٹنے لگے۔ ہمیں زیادہ حیرت نہ ہوئی کیونکہ یہ منظر ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ جن کی امان چاہی اور سبب پوچھا تو مرزا بولے: ''کم بخت وائرس آگیا۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، ملائیشیا اور یو اے ای میں چار افراد سے چیٹنگ ہو رہی تھی۔‘‘
ہم نے مرزا کو غور سے دیکھا۔ مرزا نے شدید پریشانی کے عالم میں پہلے تو اپنے ''آئی ٹی ایکسپرٹ‘‘ بیٹے کو آواز دی۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ چند لمحوں کے بعد بیٹا نمودار ہوا اور مرزا کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سمجھ گیا کہ وہ کوئی گڑبڑ گھوٹالا کر بیٹھے ہیں!
بیٹے کو ''ٹاسک‘‘ دینے کے بعد مرزا ہماری طرف آئے یعنی کُرسی کا رخ ہماری طرف کرلیا۔ ہم نے کہا: بھائی! یہ کس دھندے سے لگ گئے ہو۔ ہم دو گلی چھوڑ کر رہتے ہیں۔ ہم تک تو آتے نہیں اور امریکہ، کینیڈا، یو اے ای اور ملائیشیا کی خاک چھانتے پھر رہے ہو۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ یہ رابطے کچھ نہ دیں۔ جن سے چیٹنگ کر رہے ہوں وہ ایک پیالی چائے بھی نہیں پلا سکتے!
مگر وہ مرزا ہی کیا جو شرمسار ہوجائیں! بولے: ''میاں! تم کیا جانو نئے زمانے کی باتیں۔ تم اب تک بستر پر دراز ہوکر تکیے پر سَر ٹِکائے کتابیں چاٹتے رہتے ہو۔ آن لائن ہو جاؤ یعنی لائن پر آجاؤ۔‘‘
ہم نے عرض کیا کہ ہمیں اپنے وقت کو ''بے فضول‘‘ میں ضائع کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ کچھ فراغت نصیب ہوتی ہے تو ہم کوئی کام کی چیز پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آن لائن کلچر ہمارے نزدیک علم اور آگہی میں اِضافے کی سبیل نہیں، ہاں وقت کے قتلِ عام کا راستہ ضرور ہے!
مرزا نے متفق ہونا تو سیکھا ہی نہیں۔ ہماری دقیانوسی سوچ کو ''خراجِ عقیدت‘‘ پیش کرتے ہوئے کہنے لگے: ''نیا زمانہ ہے۔ اِس کے تقاضوں کو نبھانا لازم ہے ورنہ ہم پیچھے رہ جائیں گے۔‘‘
ہم نے کہا: ''عمر کے اِس مرحلے پر نوجوانوں کے سے چونچلے اختیار کرنا بھی وائرس سے کم نہیں۔ انسان ایسا اُسی وقت کرسکتا ہے جب ذہن میں خلل واقع ہوچکا ہو‘‘۔
مرزا نے تپ کر کہا: ''براہِ راست سماجی رابطے کا کیا فائدہ اگر ایسی جلی کَٹی سُننے کو ملیں؟ اب دیکھو نا، میں نیٹ پر کیسی ٹھنڈی ٹھار چیٹنگ کر رہا تھا۔ اب تم شروع ہوئے ہو تو وہ سارا مزا جاتا رہا۔‘‘
ہم نے کہا: مرزا! سوال نیٹ پر وائرس آنے کا نہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس خود وائرس بن کر رہ گئی ہیں اور یہ وائرس ہمارے پورے سوشل سسٹم کو ہینگ کرنے پر تُلا ہوا ہے! خرابی تھوڑی سی ہو تو دور کرنے کا سوچا جائے۔ جب بہت کچھ بگڑ گیا ہو تو اِنسان کیا کرے، کون سا ہُنر آزمائے؟ ؎
درد ہو دِل میں تو دوا کیجے
دِل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے!
بہت بلکہ اچھا خاصا غور کرنے پر بھی ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ آن لائن رابطوں کے پھیر میں پڑ کر حقیقی، بالمشافہ رابطوں کو ٹِھکانے لگانا کہاں کی دانش مندی ہے؟
مرزا نے ہماری بات سُن کر خاصی بلند بڑبڑاہٹ میں کچھ فرمایا۔ ہم سمجھ تو گئے مگر خوفِ فسادِ خلق کے باعث یہاں بیان نہیں کرسکتے! یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ اگلے ہی لمحے ہم اُن کے گھر سے آف لائن ہوگئے یعنی چل دیے۔