aبھارت کی فوجی برتری کی کہانیاں پڑھتے پڑھتے‘ مجھے اکتاہٹ ہونے لگی ہے۔ ہمارے ہاں دفاعی تیاریوں کو بہت ہی نازک تصور کیا جاتا ہے۔ اب تو خیرپاکستان بہت سے ہتھیار خود بنانے لگا ہے۔ جس زمانے میں ہم‘ اپنے دفاعی سامان کا بیشتر حصہ دوسرے ملکوں سے خریدا کرتے تھے‘ اس وقت بھی ہماری ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ کی توجہ ہر وقت شدید رازداری پر مرکوز رہتی تھی۔ آج کی دنیا میں اسلحے اور دفاعی ضروریات کے دیگر سازوسامان کی نقل و حرکت کے بارے میں‘ پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ پر تازہ ترین معلومات دستیاب رہتی ہیں۔ اس وقت ہم ہنسا کرتے تھے کہ ہمارے دفاعی بیوروکریٹ‘ جن ہتھیاروں کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے اور ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے یوں ڈرایا کرتے جیسے کہ اس قسم کی خوفناک بات کو منہ پر لانابھی خطرناک ہے۔ میں بہت عرصہ پہلے سنا کرتا تھا کہ پاکستان نے زمینی جنگ میں ‘استعمال کرنے والے منی ایٹمی ہتھیار بھی تیار کر لئے ہیں جنہیں ٹینک سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سنی سنائی باتیں ہوا کرتی تھیں اور سچی بات ہے‘ سن کر ہمیں خوشی بھی ہوتی تھی ۔ لیکن ہمارے دفاعی بیوروکریٹ ان چھوٹی چھوٹی خبروں کو ہم سے چھپاتے رہتے کہ کہیں ہم اعلیٰ سطح کے خفیہ راز ظاہر نہ کر بیٹھیں۔ حالانکہ خفیہ رازوں کے معاملے میں پاکستانی میڈیا کے رپورٹر اور مبصر اتنے ہی بے خبر ہوتے ہیں‘ جتنا کہ دشمن ملک کا عام شہری۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ بھارت کے باخبر شہریوں کو‘ ہماری دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں زیادہ علم ہو‘ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میںکوئی تبصرہ یا تجزیہ کر سکیں۔ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔
آج ایک امریکی ویب سائٹ پر Pakistan Wants 'Battlefield' Nukes to Use against Indian Troops کے زیرعنوان ایک رپورٹ نظر آئی۔جس میں عالمی خطرات کے موضوع پر بات کرتے ہوئے‘ ہائوس آرمڈ سروسز کمیٹی کے لیفٹیننٹ جنرل ونسنٹ آر- سٹیورٹ اور ڈائریکٹر آف ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی کی گفتگو سامنے آئی جس میں وہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے ایٹمی اثاثوں پر بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ''ہمارا اندازہ ہے کہ پاکستان اپنے نئے ڈلیوری سسٹم بشمول کروز میزائلز اور کلوز رینج بیٹل فیلڈ نیوکلیئر ویپنز کی ترقی جاری رکھے گا۔‘‘سٹیورٹ نے اپنی گفتگو کے ابتدائی کلمات میںیہ بھی کہا کہ ''میں ان معلومات پر سرکاری سکرپٹ کے مطابق بات کر رہا ہوں۔ ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار کم توانائی کے شارٹ رینج ایٹمی ہتھیار ہوتے ہیں‘ جو دشمن کے شہروں کی بجائے‘ میدان جنگ میں مخالف فوجوں کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں۔ امریکہ اور روس دونوں ہی اس سسٹم کو ڈویلپ کر رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے ہتھیار وہ اپنے ملکوں اور یورپ کے کئی مقامات پر سرد جنگ کے دوران گرائونڈ فورسز کو بھی دے چکے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو روس اور امریکہ کے درمیان ‘آرم کنٹرول کے موجودہ معاہدوں میں شامل نہیں کیا گیا۔ یعنی ان چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار پر کوئی پابندی قبول نہیں کی گئی۔ پاکستان کا ''نصر‘‘60کلومیٹر تک ایٹمی ہتھیار لے جا سکتا ہے۔ اسے شوٹ اینڈ سکوٹ ہتھیار بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی چلائو اور بھاگو۔ زمینی جنگ میں سٹریٹجک ڈیٹرنٹ کی یہ صلاحیت‘ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیرحد تک لے گئی ہے۔پاکستان نے منی ایٹمی ہتھیاروں کے معیار میں گزشتہ 4سال کے دوران حیرت انگیز ترقی کی ہے اور مغرب کے دفاعی ماہرین گمان کرتے ہیں کہ اکتوبر 2013ء کے ٹیسٹ کے بعد زیادہ آزمائشی تجربے کئے گئے اور پاکستانی حتف-9پر انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ چین کے ڈبلیو ایس-2 شارٹ رینج بلاسٹک میزائل سے ملتا جلتا ہے‘ جسے چین نے 2012ء سے برآمد کرنے کی خاطر بنانا شروع کیا۔ پاکستان نے یہ ہتھیار‘ بھارت کی بڑھتی ہوئی دفاعی طاقت کے مقابلے کے لئے تیار کئے ہیں۔یہ بھارت کے کولڈ سٹارٹ ملٹری ڈاکٹرائن کے جواب میں بنائے گئے۔ ایک تجزیہ کار نے وضاحت کی کہ ''یہ ایٹمی ہتھیار ‘ بھارتی افواج کو ان کے اپنے ہی علاقے میں بھسم کر کے‘ ان کی پاکستان کی طرف ہونے والی پیش قدمی کو ناممکن بنا دیں گے۔ ‘‘ پاکستان نے بھارت کی طرح‘ ایٹمی ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کا یکطرفہ اعلان نہیں کر رکھا‘ لیکن ابھی تک ایسی کوئی اطلاع دیکھنے میں نہیں آئی‘ جس میں بتایا گیا ہو کہ پاکستان نے اپنے یہ جدید چھوٹے ایٹمی ہتھیار ‘ زمینی افواج کے حوالے کئے ہیں‘ حالانکہ روس اور امریکہ نے نہ صرف یہ ہتھیار اپنی افواج کو دے رکھے ہیں بلکہ یورپ کے بعض مقامات پر بھی یہ موجود ہیں۔ میں نے رپورٹ کی پوری تفصیل نقل نہیں کی۔ صرف عمومی نوعیت کی معلومات کا ذکر کیا ہے۔ بھارت جو کہ جارحانہ عزائم بھی رکھتا ہے‘ یقینا وہ بھی اسی نوعیت کے ہتھیاروں سے مسلح ہو رہا ہو گا۔یہاں آ کے میں اپنی صحافیانہ مجبوری پر قابو نہیں پا سکا اور یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ دونوں ملکوں کی قیادتوں کے لئے اب یہ سوچنے کا وقت آ گیا ہے کہ پرامن بقائے باہمی‘ جیسے دیتانت
معاہدوں کے لئے مذاکرات شروع کر دیں۔ یاد رہے‘ سٹریٹجک مذاکرات ہر صورتحال میں جاری رکھے جاتے ہیں۔ یہ سردجنگ کے دوران بھی جاری رہے ہیں اور جب سوویت یونین اور امریکہ پراکسی جنگیں لڑ رہے تھے‘ مذاکرات ان کے دوران بھی جاری رہے اور پرامن بقائے باہمی کے متعدد معاہدے‘ سردجنگ اور پراکسی جنگوں کے دوران بھی کئے گئے۔ ہمیں بھی یہی طرزعمل اختیار کرنا پڑے گا۔ ہمارے درمیان باہمی کشیدگی خواہ کتنی ہی زیادہ ہو‘ خواہ جنگ بندی لائن کی دوطرفہ خلاف ورزیاں تسلسل سے جاری ہوں‘ خواہ ہمیں بعض محاذوں پر محدود جنگوں کا بھی سامنا ہو‘ لیکن امن مذاکرات کا سلسلہ کبھی نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ یہ مذاکرات مسلسل جاری رکھے جائیں۔ دونوں طرف کے دفاعی ادارے ‘ ان مذاکرات میں ہونے والی بات چیت کے ہر ریکارڈ کا تجزیہ کریں۔ جو کچھ بھارت کی طرف سے کہا جائے‘ اس میں امن کے امکانات کو تلاش کریں اور ان کی بنیاد پر‘ اپنے مذاکراتی وفد کو بریف کریں کہ وہ مثبت اشاروں کی روشنی میںاپنی طرف سے امن کے امکانی پہلوئوں کا جائزہ لیں۔ ایٹمی قوتوں کے مابین ایسے مذاکرات کا مسلسل جاری رہنا ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ میرا قیاس ہے کہ دنیا کی تمام ایٹمی طاقتیں اس طرح کے مذاکرات‘ مسلسل جاری رکھتی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے‘ چین اور بھارت کے مابین اسی طرز کی بات چیت جاری رکھنے والے سیل‘ معرض وجود میں آ چکے ہوں۔ یہ مذاکرات باہمی کشیدگی حتیٰ کہ باقاعدہ فوجی جھڑپوں کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے جاری رہنا چاہئیں۔درحقیقت یہی تسلسل‘ چھوٹے چھوٹے معاملات پر‘ جنگ کی طرف بڑھنے کے رجحانات کا
ازالہ کرتا رہے گا۔ بہتر ہو گا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ممکنہ جنگوں سے محفوظ رہنے کے لئے‘ ایک دوسرے کی مدد کر سکیں اور ایسے معاہدوں پر اتفاق رائے کر لیں‘ جو امن کی ضمانت مہیا کرتے ہوں۔ جو کچھ میں نے پڑھا ہے‘ اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ اب پاک بھارت جنگ کا تصور کرنا‘ انسانیت دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ ہم دونوں ہی مکمل دوطرفہ تباہی کی اہلیت حاصل کر چکے ہیں۔ بھارتیوں کو ابھی تک یہ وہم ہے کہ پورے پاکستان کو تباہ کرنے کے بعد ‘اس کا ایک بڑا حصہ پھر بھی محفوظ رہ جائے گا۔ اول تو یہ سوچ ہی غیرانسانی اور وحشیانہ ہے۔ بھارتی فیصلہ ساز نفع نقصان کو اس طرح ناپتے ہیں کہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام ختم ہو جائیں یا جزوی طور پر اذیت ناک زندگی گزارنے کے لئے بچے رہیں۔ یہی کچھ وہ اپنے عوام کے لئے بھی کرنا چاہتے ہوں گے‘ جب وہ کہتے ہیں کہ سارا پاکستان تباہ کرنے کے بعد ‘وہ بچ رہیں گے‘ تو اس کامطلب یہ ہو گا کہ پاکستان سے زیادہ یا اس سے دوگنا اپنی آبادی کو بھی تباہ کر کے وہ بچ رہیں گے۔ یہ پاگل پن کی سوچ ہے۔ کوئی حکومت اپنے عوام کے بارے میں اس طرح کے خیالات ذہن میں نہیں لا سکتی۔خطرناک پہلو یہ ہے کہ دونوں طرف ابھی تک ایٹمی ہتھیاروں کے کسی نہ کسی حد تک استعمال کی وحشیانہ سوچ پائی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے‘ میڈیا پہل کرتے ہوئے‘ امن کے حق اور ایٹمی جنگ کی مخالفت میں‘ تحفظ انسانیت کے لئے ایک مہم چلائے۔ دانشور ‘ شاعر‘ ادیب اور اساتذہ‘ عوام کو اپنے اپنے ملک کی بقا کو لاحق خطرات سے آگاہ کریں تاکہ فیصلہ سازوں کے درمیان جو انسان دشمن عناصر پائے جاتے ہیں‘ ان کی طاقت ختم کی جا سکے اور انسانیت کی بقا اور تحفظ کرنے والوں کو بالادستی حاصل ہو۔اگر ہم اب بھی یہ مہم شروع نہیں کریں گے‘ تو اپنے انسانی فرائض سے اجتناب کا گناہ کریں گے۔