تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     08-02-2015

گھٹ گھٹ کر دم توڑتا لاہور…!

سردیوں میں موٹر وے پر سفر کرنے کا بھی اپنا ایک لطف ہے۔ اگر دھوپ نکلی ہو تو اور بھی مزہ آجاتا ہے۔ اردگرد کے مناظر اتنے خوبصورت لگتے ہیں کہ آپ کا سڑک پر دھیان دے کر ڈرائیو کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ 
پوٹھوہار ایک خوبصورت دھرتی ہے۔ لاہور کی طرف گامزن موٹروے پر دائیں طرف بیٹھے اپنے دوستوں عامر متین اور ارشد شریف کو میں نے اشارہ کیا کہ ذرا باہر دیکھیں۔ جس طرح مٹی اور پتھر کے پہاڑ نظر آئے‘ اس سے یوں لگا جیسے ہم امریکی فلموں کے وہ سین دیکھ رہے ہوں جو کائو بوائے ٹائپ فلموں میں نظر آتے ہیں۔ خوبصورت سرخ پہاڑ اور تاحد نظر بازو پھیلائے نیلا آسمان ۔ درمیان میں سرسوں کے خوبصورت پھول اور ان کے درمیان کہیں کہیں سبز گھاس پر چرتے ہوئے جانور! 
میں نے کہا‘ لگتا ہے‘ ہم کائو بوائے فلموں کے دور میں پہنچ گئے ہیں۔ ہمارے فلم سازوں نے کبھی ایسے لینڈ سکیپ کو تلاش ہی نہیں کیا۔ اگر فلم کے مختلف کرداروں کے تازہ دم ہنہناتے اور اپنی جوانی کے جوش میں مگن مغرورگھوڑے ان پہاڑوں کے درمیان دوڑ رہے ہوں اور جدید کیمرے ان کے تعاقب میں ہوں تو کیا منظر بن جائے گا ۔ 
عامر متین کے ساتھ سفر کا اپنا مزہ ہے۔ ان کے پاس سنانے اور بتانے کو بہت کچھ ہے۔ ارشد شریف ہمیشہ خاموش اور ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ۔ کچھ بھی کہتے رہیں وہ ہر بات کو ٹال دے گا ۔ میں نے کہا‘ ارشد تمہیں دیکھ کر مجھے شیکسپیئر کا ڈرامہ ہملٹ کا وہ ڈائیلاگ یاد آتا ہے۔
That one may smile, and smile, and be a villain-
At least I am sure it may be so in Denmark.
زیادہ مسکرانے والے بھی ولن ہوتے ہیں۔ بچ کر رہنا چاہیے۔ لیکن شیکسپیئر میں بھی تضادات تھے۔ جولیس سیزر میں وہ سیزر کے منہ سے یہ کہلواتا ہے۔ 
Cassius would be first man I'd avoid. He reads a lot, he's a keen observe. He seldom smiles. He doesn't like plays and when he does smile, he does so in a self-mocking way, as if he scorns himself for smiling at all.
میں نے کہا یہ شیکسپیئر کیا چاہتا تھا۔ نہ اسے مسکراہٹ پسند ہے، نہ اسے خاموش لوگ پسند ہیں... تو پھر بندہ کس پر بھروسہ کرے اور کس پر نہ کرے کیونکہ انسان کی تیسری قسم تو میں نے آج تک نہیں دیکھی جو ان دونوں کے درمیان فٹ ہو۔ 
موٹروے ٹول ٹیکس سے نکلے تو عامر متین نے ٹھوکر نیاز بیگ نہیں جانے دیا اور کہا آج لاہور کے اندر سے چلتے ہیں۔ ارشد نے بھی مزاحمت کی کوشش کی ۔ میں احترام میں چپ رہا۔ اگرچہ ہم دونوں کو خطرہ تھا کہ لاہور کی روایتی ٹریفک میں پھنس جائیں گے؛ تاہم عامر متین کے سامنے ہم میں سے کسی کی نہیں چلی اور لاہور کے اندر سے ہی آنا پڑا۔ 
لاہور کے اندر پھیلا ہوا گند اور بے ہنگم ٹریفک اور فضاء میں عجیب آلودگی دیکھ کر احساس ہوا کہ ہم بلاوجہ لاہور کی ترقی سے جلتے ہیں ۔ لاہور صرف پنجاب یونیورسٹی کی نہر سے لے کر کلمہ چوک، گلبرگ، ڈیفنس اور ڈی ایچ اے تک کا نام ہے۔ باقی تو ہر جگہ گند ہی گند ہے۔ میں نے کہا عامر بھائی‘ اگر یہ حکمران ہمارے اوپر رحم کرتے‘ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ بناتے، لاہور کا کوئی میئر بننے دیتے‘ یہ سارے فنڈز ان منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی خرچ کراتے تو شہر کی حالت بہتر ہوتی۔ ہمارے حکمران ترکی جاتے ہیں اور طیب اردوعان اور ترکی کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ طیب بھی استنبول کا میئر بنا اور اس نے استنبول کی حالت ہی بدل کر رکھ دی اور لوگوں نے اسے اٹھا کر وزیراعظم بنا دیا ۔ 
ہم ترکوں سے متاثر ہوتے ہیں لیکن انہوں نے جس طرح اپنے شہریوں کی زندگیاں بدل دیں‘ اس طرف ہم نہیں جاتے۔ ہم پھر اس وقت یہ سوچتے ہیں کہ ہمارا ذاتی مفاد کس میں ہے۔ لاہور کی گندگی دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارا ذاتی مفاد اس میں ہے کہ عام انسان کی حالت کبھی نہ بدل پائے۔ ہر طرف مٹی کے ڈھیر اور ہر دیوار پر اشتہارات۔ بدصورتی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ یہ صرف ایک شہر کی نہیں بلکہ ہر شہر کی کہانی ہے۔ جمہوریت کو نوے ہزار منتخب کونسلرز کی بجائے گیارہ سو ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی کے ذریعے چلایا جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے اکثریت کرپٹ ہوگئی ہے کیونکہ کہیں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں رہا۔ لوکل لیول پر کوئی کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ بابوئوں نے ہر جگہ ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ وہ بیٹھ کر مزے کر رہے ہیں۔ لوگ جائیںبھاڑ میں۔ سگیاں روڈ سے گورنمنٹ کالج لاہور تک کی سڑک اور اس پر بے ہنگم ٹریفک دیکھ کر دل دکھی ہوا۔ عامر متین جی سی لاہور کے ہوسٹل کو دیکھ کر گہری آہیں بھرتے رہے۔ اپنے ہوسٹل اور کالج کے دوستوں کو یاد کرتے رہے کہ کیسے لاہوری ہوتے ہوئے ان کا زیادہ وقت ہوسٹل میں گزرتا تھا۔ عامر متین اپنے ماضی میں گم تھے۔ ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی اداسی دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ کہیں پڑھا تھا کہ 93 فیصد دوست جو کبھی آپ کی زندگیوں میں بہت اہم تھے وہ آج نہیں ہیں... دوست بھی بدلتے رہتے ہیں، ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ پرانے دوست کہاں بکھر گئے کہ اچانک ان کی جگہ نئے بن جاتے ہیں لیکن ان کی یادیں نہیں بدلتیں... بلکہ یادوں کا بوجھ کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔ ایک دن پتہ چلتا ہے اب تو دوست بنانے کی عمر بھی گزر گئی ہے۔ اب واقف کار بنتے ہیں جو نہ آپ سے کوئی تعلق محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی آپ ان سے کرتے ہیں۔ دونوں کو چند لمحوں کے لیے ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لمحہ گزر جاتا ہے اور یوں اپنے پرانے دوستوں کو یاد کرتے ہوئے عمر گزر جاتی ہے۔ 
عامر متین نے مجھے کہا کہ لاہور آئے ہیں تو لکشمی کے مشہور چنے کھائے بغیر نہیں جائیں گے۔ یہ وہ عامر متین نہیں تھا جسے میں جانتا تھا۔ وہ اعتماد کے ساتھ اپنے پرانے لاہور میں چنے کی دکان محبت کے ساتھ ڈھونڈ رہا تھا۔ آخر ایک دکاندار عامر متین کو پہچان کر مسکرایا اور سلام کیا۔ ایک کونے میں سیڑھیاں نیچے جارہی تھیں۔ ہم عامر متین کے پیچھے اترے تو پتہ چلا کہ وہاں بھی بیٹھنے کی جگہ تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے ہم کسی فلمی انداز سے اندھے کنوئیں میں داخل ہو رہے ہوں۔ ایک طرف پانی کا ڈرم پڑا تھا۔ میزوں پر روٹیوں کے ادھورے ٹکڑے اور کہیں پانی گرا ہوا۔ کچھ عجیب سی بدبو بھی محسوس ہورہی تھی ۔ ہمارے سروں پر ایک پرانا پنکھا لگا ہوا تھا جس کی لگتا تھا صدیوں سے کسی نے صفائی کی زحمت نہیں کی تھی۔ عامر متین نے میرا اور ارشد شریف کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہا کہ گندگی کا تعلق ہوٹل مالک کی غربت سے نہیں ہے، بلکہ یہ لاہور کا کلچر ہے۔ 
میں اور ارشد دونوں مسکرا پڑے کہ ہمارے دوست نے گندگی کا کیا جواز پیش کیا تھا۔ ہم دونوں آگے سے بحث کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔ 
چنے واقعی اچھے تھے۔ اب سمجھ آئی کہ عامر متین کا مطلب تھا کہ ماحول کے چکر میں مت پڑیں... چنے انجوائے کریں اور چلتے بنیں ۔ عامر بتانے لگے کہ لاہوریوں کا فیورٹ ٹاپک یہ ہے کہ کون کس جگہ اچھا کھانا بناتا ہے۔ یہ بھی کلچر ہے۔ لاہور کے کھابوں پر جو عامر متین نے ہمیں لیکچر دیا‘ اس سے ہم بہت متاثر ہوئے۔ عامر متین چونکہ خود بہت اچھے کک ہیں لہٰذا ارشد اور میرے لیے ان کے علم کے مقابلے میں کوئی دانشوری جھاڑنا ممکن ہی نہیں تھا۔ 
لاہور سے میری اپنی کئی یادیں جڑی ہیں۔
لیکن ہر دفعہ لاہور آتا ہوں تو مجھے لگتا ہے وہ لاہور مررہا ہے جس کی کہانیاں ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ اس کی خوبصورتی کو زنگ لگ گیا ہے۔ ٹریفک جس طرح بڑھ گئی ہے اور سڑکیں چھوٹی پڑ گئی ہیں‘ اس سے لاہویوں کی زندگی مزید عذاب بن گئی ہے۔ لاہور کے کچھ علاقوں کی ترقی اس کی دشمن بنتی جارہی ہے۔ اس ترقی کا اتنا زیادہ شور مچایا گیا ہے کہ ہم سب نے سمجھ لیا کہ لاہور لندن اور پیرس سے بھی آگے بڑھ گیا۔ قریبی علاقوں سے لوگ اب لاہور شفٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ لاہور کی آبادی میں خوفناک رفتار سے اضافہ ہوا جس کے ساتھ ہی جرائم بھی بڑھ گئے ہیں۔ لاہور اس وقت بدترین اسٹریٹ کرائمز کی فہرست میں سب سے آگے ہے۔ لاہور کے حکمرانوں کو فائدہ ہے کہ کراچی کی طرح لاہور کے جرائم اس طرح بڑے پیمانے پر رپورٹ نہیں ہوتے جیسے ہونے چاہئیں۔ بد سے بدنام برا والا حساب ہوچکا ہے۔ کراچی میں فون بھی چھن جائے تو بریکنگ اسٹوری بنتی ہے جب کہ یہاں لاہور میں قتل بھی ہوجائے تو اندر کہیں ایک کالم سرخی جمتی ہے۔ 
لاہور مر رہا ہے۔ اگر لاہور اس طرح چلتا رہا تو پھر اگلے پچاس برس کے بارے میں سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پنجاب کے نوسو ارب روپے کے سالانہ بجٹ کو صرف لاہور پربھونڈے انداز میں خرچ کر کے پورے صوبے سے لوگوں کو اس شہر کی طرف ہجرت پر مجبور کیا گیا ہے جس سے شہر کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے۔ 
گھٹ گھٹ کر مرتے ہوئے لاہور کو دیکھ کر لاہور اور روایتی لاہوریوں پر پہلی مرتبہ ترس آیا...! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved