تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     08-02-2015

سلامتی کونسل کی نشست

جون1998ء میں جنیوا میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کے ایک اہم اجلاس کے بعد کانفرنس ہال کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران بھارت کی سکیورٹی کونسل میں ممکنہ شمولیت بارے سوال کیا گیا تو اس وقت کی کلنٹن حکومت کی سیکرٹری آف سٹیٹ میڈلین آلبرائٹ نے بڑے ہی نپے تلے الفاظ میں جواب دیا تھا کہ '' اپنے متعلق ابھرنے والے خوش کن تاثر اور عالمی برادری کی نظروں میں اپنے اچھے نام کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے بہت زیا دہ گہنا دیا ہے ،اس لیے آج کے بعد بھارت سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دے!!‘‘۔ لیکن آج وہی امریکہ ہے اور میڈلین آلبرائٹ کی وہی ڈیموکریٹ پارٹی ہے جس کے صدر بارک اوباما بھارت کو نت نئی نیو کلیئر ٹیکنالوجی دینے اور سول نیوکلیئر کلب کا رکن بنانے کا عندیہ دے رہے ہیں اور ایٹمی تجربات کرنے کی کھلی چھٹی دینے کے بعد نئی دہلی میں کھڑے ہو کرانتہائی خوشامدانہ لہجے میں بھارت کو پیغام دے رہے ہیں کہ امریکہ سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لیے آپ کے حق کو سب سے مقدم گردانتا ہے اور امریکہ کی خواہش ہے کہ بھارت جلد از جلد سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن کر دنیا کے معاملات حل کرنے میں ہم سب کی مدد کرے۔ 
پھر اگر کسی کو یاد رہ گیاہو تو یہی امریکہ تھا جس نے 2002 ء میں بھارت کے گودھرا ،صوبہ گجرات میں2300 کے قریب مسلمان مردوں، بچوں اور عورتوں کے سفاکانہ قتل عام کے براہ راست ذمہ دار نریندر مودی کو عالمی مجرم قرار دیتے ہوئے اسے
امریکی ویزے کیلئے بلیک لسٹ کر دیا تھا۔اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ ان فسادات کے دوران ایک بیکری میں پناہ لینے والے 87 سے زائد مسلمان بچوں اور عورتوں کو اردنی پائلٹ کی طرح زندہ جلائے جانے پر پورا یورپ نریندر مودی کو دہشت گرد اور قتل عام کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا اور اسے قصاب (بوچر) کے نام سے پکار رہا تھا ۔آج اسی نریندر مودی سے امریکہ کی ڈیمو کریٹ اور انسانی حقوق کی علمبردار جماعت کا منتخب کردہ امریکی صدر جپھیاں ڈال رہا ہے ،اس کے ہاتھوں سے بنائی جانے والی چائے کو امرت دھارا سمجھ کر پی رہا ہے اور اس چائے کے نشہ سے مدہوش ہوکر اسے سلامتی کونسل کا رکن بننے کی نوید دے رہاہے ؎
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
آج سے چھپن برس قبل بعض تنظیموں کی جانب سے کہاگیا تھا کہ اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر نیویارک سے کسی دوسری غیر جانبدار جگہ پر منتقل کر دیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ امریکہ مدتوں سے اس سے نا جائز فوائد اٹھائے جارہا ہے ۔ آج وہ خدشات حقیقت بن کر سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں اور اس وقت اقوام متحدہ ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے جس سے چند قبضہ گروپ اپنی مرضی کے فیصلے کراتے ہیں۔اگر کسی کو ذرا سا بھی شک ہے تو اقوام متحدہ میں امریکہ کی طرف سے تباہ کن اسلحہ کی موجو دگی کی جھوٹی داستان سناکر عراق پر حملے کی قرارداد کی منظوری اور پھر افغانستان پر یو این او کی اجا زت سے کیا جانے والا امریکی فوجی قبضہ سب کے سامنے ہے۔ان ممالک پر امریکی فوجی جارحیت کی اجا زت تو اقوام متحدہ نے دے دی ،لیکن کیا اب وہ ان قرارد ادوں کو منظور کرنے کے نتیجے میں مذکورہ ممالک میں ہونے والی لاکھوں انسانی جانوں کی ہلاکت اور وہاں کے شہریوں کے کھربوں ڈالرکے نقصانات کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے؟ ۔ یو این او کے سائے میں دنیا بھر کے کمزور ممالک کو اپنی حکم عدولی کی سزا دینا امریکہ کا معمول ہوگیا ہے اور اسے ذرہ بھر احساس نہیں ہوتا کہ اس کے نتیجے میں نوع انسانی پر کیا کیا قیا متیں گزرجا تی ہیں۔جب عراق بارے یو این او کی قرار داد کی مکمل نفی ہو گئی تو امریکہ کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ عراق میں '' ماس ڈسٹرکشن‘‘ کے ہتھیاروں کے بارے میں مبالغہ آمیز رپورٹ پیش کی گئی تھی لیکن عراق میں اس کے نتیجے میں جو اب تک قتل و غارت ہو رہی ہے اس پر اقوام متحدہ نے امریکہ کے خلاف کیا ایکشن لیا ہے؟
اگر اقوام متحدہ کا ریکارڈ دیکھیں تو امریکہ نے اس کے ذریعے دنیا کے ہر خطے میں اپنی فوجی مداخلت کو جائز ثابت کرنے کے لیے اسی طرح کے کئی ڈرامے کیے اور اس کا آغاز ویت نام پر حملہ کرنے سے کیا تھا ۔ اب امریکہ کے دائو پیچ تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں۔اب اس نے ''عرب سپرنگ‘‘ کا منصوبہ بنایا اور دولت اسلامیہ کی ریاست بنا کر داعش کے دہشت گردوں کے ذریعے خطے میں جنگی کیفیت اور خوف اور دہشت کی ایک نئی فضا قائم کردی ہے ۔ القاعدہ کے خوف کے بعد اب داعش کے نام پر امریکہ دنیا بھر کے ممالک کو خوف میں مبتلا کئے ہوئے ہے اور پیرس میں چارلی ہیبڈو کی خونریز کارروائی کے ذریعے ہر شخص پر داعش کی سفاکیت سے لرزہ طاری کر رکھا ہے۔
دنیا کے صرف پانچ ممالک جو لا محدود ایٹمی قوت اور سرمائے کے مالک ہیں ،کو یہ اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ دنیا کی قوموں کی تقدیر کے فیصلے اپنی مرضی سے کرتے رہیں ؟۔ کشمیر کا مسئلہ ،جس کی وجہ سے اب تک ایک لاکھ سے زائد لوگ اپنی جانوں سے گئے ، کب کا پر امن طور پر حل ہو چکا ہوتا اگر روس ویٹو پاور با ر بار استعمال نہ کرتا ؟یہ خون اس نام نہاد ادارے کے زیر سایہ بہا اور بہہ رہا ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد بننے والی لیگ آف نیشنز اور پھردوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں '' اقوام متحدہ ‘‘ کے نام سے قائم ہوا۔ابتدا میں اس کے ارکان کی اکثریت ان ممالک پر مشتمل تھی جنہوں نے اس عالمی جنگ میں براہ راست کردار ادا کیا ، بہت سے اس سے متا ثر ہوئے اور کئی اس دوسری عالمی جنگ کے محور بنے رہے ،اس لئے ابتدا میں جیسے ہی کہیں جنگی جنون یا دو ممالک کے درمیان سرحدی یا کسی بھی قسم کی کوئی چپقلش شروع ہونے لگتی، یہ ممالک فوراً مداخلت کرتے اور اسے وہیں ختم کرا دیتے لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کا کردار مدھم اور جانبدارانہ ہوتا گیا اور آج کی اقوام متحدہ امریکہ جیسی بڑی طاقت کے ایک مہرے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔بلکہ اگر لوگوں کو یاد رہ گیا ہے تو1959ء میں ہی''John Birch Society'' نے ایک تحریک شروع کرتے ہوئے نعرہ لگایا تھا کہ'' اقوام متحدہ کو امریکہ کی پہنچ سے دور رکھو‘‘ ۔اس کا آج سے56 برس قبل کہنا تھا کہ امریکہ کے ہاتھوں میں اقوام متحدہ کی لگام دے کراسے واحد سپر طاقت بنایا جا رہا ہے اس لئے کرہ ٔارض کی بقا کی خاطر ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کو امریکی غلبے سے دور رکھا جائے۔
2004ء میں اقوام متحدہ میں سابق سفیرDore Gold نے''Tower Of Babble'' کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی ۔ اس میں اس نے بتایا تھا کہ کس طرح اقوام متحدہ نے دنیا کے مختلف ملکوں میں نفرت ،ابتری اور بغاوت کے جراثیم پہنچائے اور وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کرایا۔ 
کیا عالم اسلام بھی کبھی یک جان اور ہم آواز ہو کر کہے گا کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں عالم اسلام کو بھی نمائندگی دی جا ئے ورنہ۔۔۔۔۔؟!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved