صدراوباما کے حالیہ دورۂ بھارت کے دوران ہنگامہ خیزعہدو پیمان اور محبت کے ترانوں کی گونج نے زیر ِ زمین سرکنے والی پلیٹوں سے پیدا ہونے والے بھونچا ل کو دبادیا۔ جس طرح وزیرِاعظم نریندر مودی نے اپنے امریکی مہمان کے لیے دیدۂ ودل فرشِ راہ کیے، وہ بہت سے بھارتیوں کے لیے شرمندگی کا باعث بھی ہوسکتا تھا‘ اگر اس دورے کا جنون پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں نہ لے چکا ہوتا۔
چین کو خطے میں محدود کرنے کے مقصد کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے امریکی قیادت میں بننے والے اس اتحاد میں داخل ہو کر بھارت نے اپنی عشروں پرانی غیر جانبداری کی پالیسی کو ترک کردیا ہے۔ بلا شبہ جواہر لال نہرو غیر جانبدارانہ پالیسی کے معماروں میں سے ایک تھے۔ اس پالیسی کا مقصد سرد جنگ کے دوران عالمی طاقتوں کی محاذآرائی کا حصہ بننے سے گریز کرتے ہوئے غیر جانبدار رہنا تھا۔ تاہم بھارت کا سوویت یونین سے اس کے عروج کے زمانے میںقریبی تعلق اور اس کاخطے میں جارحانہ رویہ بہت سے پاکستانیوں کے ذہن میں اس کی امن پسندی کے دعوے پر سوال اٹھا دیتا تھا تاہم یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے طویل عرصے تک اپنی غیر جانبداری کے بھرم کو قائم رکھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد غیر جانبداری کی تحریک اپنی موت آپ مرگئی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی خارجہ پالیسی اپنی سمت کھوبیٹھی۔
کاروباری میدان میں اپنی توانائی کو مہمیز دیتے اور بڑی معاشی قوت بنتے ہوئے بھارت کی خواہش ہے کہ وہ عالمی افق پر نسبتاً بڑا کردار ادا کرے۔ تاہم کئی برسوںسے اس کی طرف سے
اٹھائے گئے اقدامات اس کے سائز اور معاشی حجم کوزیب نہیں دیتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بی جے پی اور کانگرس کے پرانی سوچ رکھنے والے رہنما بھارت کی روایتی غیر جانبداری کی پالیسی کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ان حالات میں روایت شکنی کے لیے مودی جیسا کوئی جدید سوچ کا شخص درکار تھا جوگرم جوشی سے امریکہ کے ساتھ بغل گیر ہوجائے۔ بہت سے افراد کے لیے یہ دو انتہا ئی متضاد صورتیں ہیںکہ ایک طرف مودی ہندو قوم پرستی کے جذبات تلے مغلوب ہے تو دوسری طرف وہ ملک کو اکیسویں صد ی میں ایک جدید ملک بنانا چاہتا ہے۔ ان کی طرف سے حالیہ دنوں سامنے آنے والے اعلانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہت سی جدید دریافتوں اور ایجادات کا سراغ ہندو دیومالائی داستانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہوائی جہاز کا سب سے پہلے استعمال اور سٹیم سیل کے حوالوں نے دنیا کے کان کھڑے کر دیے۔ ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو اُن کے دامن پر مسلمانوںکے خون کے دھبے لگے تھے ۔ تاہم کسی نہ کسی طور ، وہ ان تضادات سے نمٹتے ہوئے آگے بڑھنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی قیادت کے لیے وہ موزوں ترین شخص ہیں اور ان کے سامنے ایک واضح مقصد موجود ہے۔
جس طرح کبھی امریکہ نے ترکی، ایران اور پاکستان کو سینٹو(CENTO) (سوویت یونین کے خلاف بننے والے اتحاد) میں شریک کر لیا تھا، اب وہ جاپان، تھائی لینڈ ، جنوبی کوریا اور فلپائن کا اتحاد قائم کررہا ہے تاکہ چین کے پرکاٹے جاسکیں۔ چونکہ بھارت کا چین کے ساتھ دیرینہ سرحدی تنازع موجودہے ، اس لیے وہ اس گروپ میں شامل ہونے کے لیے فطری اتحادی ہے۔ تاہم اس پیش رفت سے یہ مراد نہیں لی جانی چاہیے کہ ہم ایک اور سرد جنگ کا آغاز دیکھنے جارہے ہیں۔ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ آج کی دنیا بائی پولر نہیں بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ باہم مربوط ہے۔عالمی تجارتی تعلقات کو دیکھیںتو آج چین امریکہ کا سب سے اہم تجارتی پارٹنر ہے۔ اس کے علاوہ چین خطے کے تمام ممالک کے ساتھ وسیع پیمانے پر تجارت کرتا ہے۔ اس لیے پرانے اور روایتی طرز کے سکیورٹی محاصرے کے دن اب لوٹ کے نہیں آئیں گے۔ اس کے علاوہ ایسا سکیورٹی محاصرہ کرنا آج معاشی طور پر بھی ممکن نہیں۔
بھارت کو ساتھ ملانے کے لیے امریکہ نے اُسے ایٹمی ٹیکنالوجی اور یورینیم کی سپلائی تک رسائی دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ امریکی پیش کش نئی نہیں بلکہ یہ اس سے پہلے کانگرس حکومت کے پاس بھی موجود تھی ، لیکن مالی، قانونی اور ماحولیاتی تشویش کی وجہ سے اس کی طرف قدم نہ بڑھایا گیا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ مودی نے ان تمام اعتراضات پر جھاڑوپھیر دیا ہے۔ زیادہ تر بھارتی باشندے ، چند ایک بائیں بازوکے حلقے چھوڑکر، بھارتی پالیسی میں ہونے والی اس نمایا ں تبدیلی سے خوش ہیں۔ چونکہ عوام کو ''انڈیا شائننگ‘‘ کا خواب دکھایا گیا ہے، چنانچہ صدر اوباما کی طرف سے ایٹمی ڈیل کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ اُنہیں یقین ہے کہ وہ اس سے سفارتی، فوجی اور معاشی قوت حاصل کر لیں گے۔ اس کے علاوہ صدر اوباما کے وعدے، کہ وہ بھارت کو یواین سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست دلائیںگے، نے بھی سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔
یہ پیش رفت یقینا پاک بھارت تعلقات پر اثر انداز ہوگی ۔ اسے پاکستان اپنے لیے ایک بری خبر کے طور پر بھی دیکھ سکتا ہے۔ کئی برسوں سے ہمارے دفترِ خارجہ کا اصرار تھا کہ بیرونی طاقتیں بر ِ صغیر میں معاہدے کرتے وقت مساوات کا خیال رکھیں۔۔۔ گویا بھارت کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت پاکستان کے مفاد کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ تاہم جب سے دنیا میں بھارت کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا یہ سنگِ میل اکھڑنے لگا ہے۔ دوسری طرف مذہب کے نام پر دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی پوزیشن کمزور ترہوتی جارہی ہے۔ اسے ایسے ملک کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس سے خطے کے دیگر ممالک کو خطرہ لاحق ہے۔
جس دوران چین یہ محسوس کررہا ہے کہ اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ ماسکو کے قریب ہوتا جا رہا ہے جو خود بھی تنہائی کا شکار ہے۔ اس طرح امریکی چال نے ان دونوں عالمی طاقتوں کو ایک دوسرے کا فطری اتحادی بننے میں مدددی ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے لاحق حقیقی یا فرضی خطرے کی وجہ سے ماسکو اور بیجنگ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا گیس کی سپلائی کا عظیم معاہدہ اس تعاون کی ابتداہے۔ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاملات پر ہونے والی موجودہ گفتگو کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور امریکہ نے ایران پر پابندیوں کو سخت کرنا چاہا تو تہران بھی امریکہ مخالف اس گروپ میں شامل ہوسکتا ہے۔
یہ تمام امکانات اپنی جگہ پر، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ابھی بھی فوجی اعتبار سے ایسی سپرپاور ہے جس کااس دنیا میں کوئی حریف نہیں۔ تمام دنیا مل کر دفاع پر اتنا خرچ نہیں کرتی جتنا پینٹاگان کرتا ہے۔ اگر چہ چین معاشی طور پر امریکہ کی برابری کے قریب ہے لیکن اس کی آبادی کا بہت بڑا حصہ انتہا ئی غربت کی زندگی بسر کرتاہے۔ اس کی فوج ابھی بھی اپنی سرحدوں سے باہر سٹرائیک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اسے امریکی مسلح افواج کے زیر ِ استعمال ٹیکنالوجی تک پہنچنے میں کئی سال درکار ہیں۔ اس دوران پاکستان بھی ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے امریکہ پر انحصار رکھتا ہے۔اس لیے اگر یہ بھارت کے ساتھ اسلحہ کی دوڑ میں شریک ہونا چاہے تواس کے پاس امکانات محدود ہوںگے۔ آخری بات یہ ہے کہ جب تک ہم سیاسی اور معاشی طور پر اپنا گھر ٹھیک نہیں کرتے اور دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرتے ہم عالمی سٹیج پر نظر انداز کردہ قوم ہی رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved