تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     09-02-2015

کریمونا اورگجرات

کریمونا اٹلی کے شمال میں ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں ٹھیک ایک ہزار ایک سال پہلے جیرارڈ پیدا ہوا اور جیرارڈ آف کریمونا کے نام سے یورپ کی علمی تاریخ میں امر ہوگیا۔ جیرارڈ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ اس نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو کچھ ہی عرصے بعد اپنے استادوں کے لیے وبال بن گیا۔ اس کے اٹھائے ہوئے سوالوں کا جواب وہ استاد کیا دیتے جن کی قابلیت صرف اتنی تھی کہ وہ لاطینی لکھ پڑھ سکتے تھے۔ ایک دن ایک استاد نے تنگ آکر کچھ ایسی کتابوں کے نام بتا دیے جو کریمونا میں تو کیا اٹلی میں بھی نہیں مل سکتی تھیں۔ وہ بھی جیرارڈ تھا، اس نے استاد کی بات سن کر سامان باندھا اور سپین کی طرف چل پڑا کیونکہ اس زمانے کے یورپ میں سپین ہی واحد ملک تھا جسے مسلمانوں نے علم و ادب کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ دورانِ سفر اسے معلوم ہوا کہ زمانہ قبل مسیح میں پیدا ہونے والا ایک یونانی فلاسفر اپنی کتاب میں اس کے سوالوں کے جواب لکھ چکا ہے اور اس کی کتاب یونانی زبان میں تو نہیں البتہ عربی میں دستیاب ہے۔ مزید تحقیق سے اسے یہ پتا چلا کہ سپین کے شہر تولیڈو میں یہ کتاب اسے مل سکتی ہے۔ جیرارڈ تولیڈو(طلیطلہ) جا پہنچا جہاں اس کی ملاقات ریمنڈ آف تولیڈو سے ہوئی۔ ریمنڈ اس شہر کا بڑا پادری تھا اور علم سے اپنے لگائو کی وجہ سے معروف تھا۔ جیرارڈ کو یہاں اپنی مطلوبہ کتاب تو مل گئی مگر مسئلہ یہ تھا کہ اسے عربی پر عبور نہیں تھا۔ ریمنڈ کی مدد سے اس نے اپنی عربی بہتر بنائی اور یہ کتاب پڑھنا شروع کردی۔ ریمنڈ نے اس نوجوان کا علمی شوق دیکھا تو اسے اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی، اس نے کام کی تفصیل چاہی تو پتا چلا کہ ریمنڈ عربی کتب کو لاطینی زبان میں ترجمہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی قوم مسلمانوں میں رائج جدید علوم سے شناسا ہوسکے۔ نوجوان جیرارڈ نے
بوڑھے پادری کی پیشکش قبول کرلی اورجو پہلی کتاب اس نے ترجمہ کی یہ وہی تھی جس کی تلاش میں وہ گھر بار چھوڑ کر تولیڈو آیا تھا۔ ریمنڈ کی حوصلہ افزائی نے اسے مزید مطالعے کی طرف راغب کیا اور وہ کتاب پر کتاب ترجمہ کرتا گیا۔ اس نے اپنے ساتھ مزید لوگوں کو تیارکیا اور تولیڈو(طلیطلہ) کے گرجے میں ایک ایسی مجلسِ ترجمہ وجود میں آگئی جو مسلمانوں کی لکھی ہوئی ہر کتاب کو لاطینی میں ڈھال دیتی۔ یہیں سے سپینش زبان ابھری اور کچھ ہی عرصے میں سپین کی واحدزبان کا درجہ اختیارکرگئی۔ جیرارڈ آف کریمونا اور ریمنڈ آف تولیڈو دو ایسے دیوانے تھے جو نہایت خاموشی سے تاریخ کا رخ بدل گئے۔ یورپ نے ان کی ترجمہ کردہ کتابوں کو پڑھا اور خود کو دنیا کی امامت کے لیے تیار کرنا شروع کردیا۔ مسلمانوں کے دریافت کردہ سائنسی اصولوں پر ایجادات کا آغاز ہوا، نئے خیالات کی آمد نے نظام حکومت کی اصلاح کی اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا یورپ ترقی کی نئی منزلیں مارنے لگا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ یورپ اور ترقی ہم معنی لفظ ہوگئے جبکہ مسلمان اور پسماندگی ایک دوسرے کے مترادف سمجھے جانے لگے۔ 
دوسری زبانوں کے علوم تک رسائی کو مسلمانوں کی علمی روایت میں ایک اصول کا درجہ حاصل تھا اور اس کوشش میں ان کے شغف کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس علمی رجحان کی بنیاد بھی خود حضور اکرمﷺ نے رکھی، آپ ؐ نے زید بن ثابتؓ کو چیف سیکرٹری کا درجہ دے رکھا تھا جنہیں کئی زبانوں پر عبور تھا۔ جناب رسالت مآبﷺ نے ان کو عبرانی سیکھنے کی بھی ہدایت کی اور چند ہفتوں کے اندر اندر انہوں نے عبرانی سیکھ کر اس زبان میں آنے والے خطوط و دستاویزات کو عربی میں منتقل کرنا شروع کردیا۔ یہ رجحان خلافت راشدہ میں بھی قائم رہا جس کی ایک مثال حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ ہیں۔ آپؓ کے پاس مختلف زبانیں بولنے والے غلام تھے اور آپؓ ہر ایک سے اسی کی زبان میں بات کرتے تھے۔ یہ رجحان بعد میں اس قدر طاقتور ہوا کہ مسلمان حکومتوں نے دارالترجمہ قائم کیے جن کا کام ہی یہ تھا کہ وہ دنیا بھر میں پائی جانے والی کتابوںکو عربی میں منتقل کردیں۔ ان کتابوں کی اشاعت سے ہی مسلمانوں میں علمی تحاریک کا آغاز ہوا۔ غیر عربی علوم پر غور و فکر کے نتیجے میں یونانی فلسفیوں کی توضیح و اصلاح کا کام ہوا، مسلمان سائنسدانوں نے دنیا کو نظریاتی بحثوں سے نکال کر تجربات کی طرف لگایا اور خود بھی علوم و فنون میں درجۂ کمال تک پہنچ گئے۔ شکر ہے کہ مسلمانوں میںاس وقت آج کے جاہل مطلق افسروں، دانشوروں اور سیاستدانوں کی طرح کے لوگ موجود نہیں تھے جو ڈھٹائی سے مشورہ دیتے کہ لوگوں کو جدید علوم سے استفادے کے لیے ایک نئی زبان پڑھنے کی لاحاصل مشق میں مبتلا کردیا جائے۔ قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے اپنی زبان چھوڑے بغیر اپنے چند افراد کے ذریعے دوسری زبانوں کے علوم سے فائدہ اٹھا لیا اور یورپ نے بھی انہی کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے چند لوگوں کے ذریعے عربی علوم اپنی زبانوں میں منتقل کرلیے۔ وہ ہماری طرح بے وقوف نہیں تھے کہ اردو چھوڑکر پہلے ساٹھ سال انگریزی سیکھنے میں ضائع کرتے اور آئندہ کے ساٹھ سال چینی زبان کے لیے ضائع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوتے۔ 
اردو چھوڑنے کی وجہ سے جہالت کا جو آسمان ہم پر ٹوٹا پڑرہا ہے اس پر ہر وقت دل جلتا رہتا ہے لیکن اس جلن میں کمی گزشتہ ہفتے ہوئی جب یونیورسٹی آف گجرات کے دارالالسنہ و ترجمہ کو دیکھنے کا موقع ملا۔ معلوم ہوا کہ ہم میں ابھی ایسے لوگ باقی ہیں جن کے دل میں اس قوم کی بے بضاعتی کا درد پایا جاتا ہے اور وہ کچھ کرگزرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ یہ مرکز تین سال پہلے یونیورسٹی آف گجرات کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر نظام الدین نے قائم کیا تھا۔ ڈاکٹر نظام الدین اب پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ بن چکے ہیں اوراب ان کی جگہ لینے والے ڈاکٹر ضیاء القیوم اپنے پیشر و کے اس کارنامے کی نگہبانی کر رہے ہیں۔ جملۂ معترضہ کے طور پر جان لیجیے کہ ضیاء القیوم کی عمر اتنی کم ہے کہ پہلی بار ملنے والا انہیں پختہ کار طالب علموں میں سے ایک سمجھ سکتا ہے جو عام طور پر یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے نام پر اپنی علمی حسرتوں کی تکمیل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ خیر، یونیورسٹی آف گجرات کے اس مرکز نے کچھ ادبی کتابوںکا اردو ترجمہ کرکے اپنے ہاتھ صاف کرلیے ہیں اور امید ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں ان صاف ہاتھوں کے ساتھ سائنسی علوم کو بھی اردو میں منتقل کرنے لگے گا۔ 
دوسری زبانوں سے کتابیں ترجمہ کرنے کے ادارے اصل میں قوموں کے لیے فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتے ہیںکہ کچھ لوگوں نے یہ فرض ادا کر لیا تو سب کی طرف سے اس کی ادائیگی ساقط ہوگئی۔ پاکستان کے معاملے میں ترجمہ فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہے، یعنی ہم میں سے ہر ایک پر اس کی ادائیگی فرض ہے۔ ڈاکٹر نظام نے گجرات میں دارالترجمہ قائم کرکے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ قابل تعریف تو ہے لیکن فرضِ کفایہ کے درجے میں ہی شمار ہوتا ہے۔ وہ گجرات میں رہتے تو ان سے توقعات بھی ایک حد میں رہتیں، اب وہ پنجاب میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نگران مقرر ہوئے ہیں تو ان سے امیدیں بھی سوا ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ڈاکٹر صاحب پنجاب کی ہر سرکاری یونیورسٹی میں ایک ایک دارالترجمہ قائم کروائیں جہاں دنیا کی بہترین کتابیں اردو میں منتقل کرکے چھاپ دی جائیں؟ ڈاکٹر صاحب یہ بھی توکرسکتے ہیںکہ سائنس، میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلبہ کو یہ اختیار دے دیں کہ وہ پڑھیں تو بے شک انگریزی میں لیکن امتحان اردومیں دینا چاہیں تو دے سکیں۔ان سے یہ توقع بھی تو کی جاسکتی ہے کہ وہ پنجاب کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تمام خط وکتابت اردو میں کرنے کا حکم جار ی کردیں۔ اردوکے بارے میں ہماری تمناؤںکا خون گزشتہ سڑسٹھ سال سے ہو رہا ہے، ڈاکٹر نظام الدین اور یونیورسٹی آف گجرات نے ایک بار پھر امیدیں جگا دی ہیں، شاید اب کے بات بن جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved