تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-02-2015

لائن رینٹ

جنہیں ہر حال میں پاکستان پر تنقید کرنی ہو وہ ایسا کرنے سے کسی طور باز نہیں رہتے۔ ایک بہت بڑا الزام ہے کہ ہم بیشتر معاملات میں ''کلچرڈ‘‘ نہیں ہیں۔ یہ بات بہت عجیب ہے۔ دُنیا کا کون سا ''کلچر‘‘ ہے جو یہاں پروان نہیں چڑھ رہا؟ سچ تو یہ ہے کہ جب کسی کلچر کو پروان چڑھنے کے لیے موزوں ماحول نہیں ملتا تو ہماری طرف چلا آتا ہے۔ جب بہت کلچر پروان چڑھ رہے ہیں تو کیسے ''اَن کلچرڈ‘‘ قرار پاسکتے ہیں؟ 

اب اِسی بات کو لیجیے کہ ضرورت ہو نہ ہو، ''سروس‘‘ حاصل کرنے کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ اور پھر سروس کو جاری و ساری رکھنے کے لیے لائن رینٹ دیتے رہنے کا کلچر بھی پوری توجہ سے پروان چڑھایا جارہا ہے۔ 

دُنیا بھر میں کانوں سے کچھ نہ کچھ نکالا جارہا ہے اور ہم ہیں کہ کانوں میں باتیں اُنڈیلتے رہنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہو نہ ہو، سیل فون ہر وقت ہاتھ میں تھامے رہنا ہماری عادات کا حصہ ہوگیا ہے۔ اب سیل فون ہے تو اُس میں سِم بھی ڈالی جائے گی۔ اور سِم میں بیلنس بھی ڈالتے رہنا ہے۔ ایک خاص مدت تک ایک خاص بیلنس اگر اپ لوڈ نہ کیا جائے تو سِم کو بلاک ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ یعنی سروس حاصل کرتے رہنے کا آپشن زندہ رکھنے کے لیے لائن رینٹ دیتے رہیے۔ 

لائن رینٹ اب ہماری زندگی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ کون سی چیز ہے جس کا لائن رینٹ ہمیں نہیں دینا پڑتا؟ سیل فون کا معاملہ تو پھر بھی غنیمت ہے کہ بیلنس اپ لوڈ کرنے پر کچھ منٹ یا ایس ایم ایس ملتے ہیں۔ یعنی چھوٹا موٹا پیکیج مل ہی جاتا ہے۔ اِدھر حال یہ ہے کہ حکومت کو بہت سی ایسی چیزوں کا بھی لائن رینٹ دینا پڑ رہا ہے جو بس واجبی سی میسر ہیں۔ کراچی سمیت ملک بھر کے مکین پانی کا لائن رینٹ دیتے ہیں مگر کرایہ دینے پر بھی پانی نہیں ملتا، خریدنا پڑتا ہے! 

لوگ ٹیکس، ڈیوٹیز اور فیس کی شکل میں لائن رینٹ دیتے دیتے تھک گئے ہیں۔ ہر چیز، ہر سہولت کے لیے کچھ نہ کچھ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ ریاستی مشینری ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مِصداق ہر شہری، بالخصوص پریشان اور لاچار شہریوں کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے پر تُلی ہوئی ہے۔ ہر سطح پر ٹیکس اِس طور وصول کیا جارہا ہے گویا زندہ رکھنے کا خراج وصول کیا جارہا ہو۔ پوری کوشش کی جارہی ہے کہ کسی کو سُکون کا سانس لینے کا موقع نہ ملے۔ وصولی کرتے رہو مُنّا بھائی! ع 

تیر پر تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کِس کا ہے؟

ریاست کو چلتا رکھنے کے نام پر عوام کا سب کچھ چلتا کردیا گیا ہے۔ وصولی کا سلسلہ رکتا نہیں۔ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے نام پر اُن کی جیب خالی کرائی جارہی ہے اور جب سہولتیں فراہم کرنے کی بات آئے تو ٹھینگا دِکھا دیا جاتا ہے۔ عوام پر ریاستی مشینری کی اِتنی ''عنایات‘‘ ہیں کہ باعِزّت طریقے سے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی غریبوں کے لیے ''مِشن‘‘ کا درجہ حاصل کرچکا ہے! لوگ گھر سے کام پر کیا جاتے ہیں، یُوں سمجھ لیجیے کہ ''ڈیلی مِشن امپوسیبل‘‘ پر روانہ ہوتے ہیں! زندگی اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے۔ اِسے برقرار رکھنا بھی اللہ ہی کے ذِمّے ہے۔ مگر اِس نعمت کو تسلسل سے ہمکنار رکھنا، از خود نوٹس کے تحت، حکومت نے اپنے پر ''فرض‘‘ قرار دے رکھا ہے! اور اِس فرض کے ادا کرنے کے لیے عوام سے جیب ڈھیلی کرانا حکومت کا حق ہوگیا ہے! حکومتوں کے حقوق و فرائض کچھ اِسی طرح کے ہوا کرتے ہیں۔ 

جہاں عوام کی آراء سے اُن کی مرضی کی حکومت بنتی اور کام کرتی ہو وہاں ہم پوچھیں بھی کہ صاحب! یہ کیا غضب ڈھاتے ہو کہ ملک چلانے کے نام پر عوام کو دُنیا سے چلتا کرنے پر تُلے ہو۔ یہاں تو بادشاہت ہے۔ بادشاہوں کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے اِس کے لیے وہ ہم سے کچھ پوچھنے یا ہمیں کچھ بتانے کے مُکلّف نہیں۔ ع 

رُموزِ مملکتِ خویش خُسروں دانند!

گزرے ہوئے زمانوں میں جب کوئی فوج کسی علاقے پر قبضہ کرتی تھی تو مقامی آبادی سے خراج وصول کرتی تھی۔ لوگ خراج دینے پر مجبور ہوتے تھے کیونکہ ایسا نہ کئے جانے کی صورت میں پھر قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مگر یہ تو طے تھا کہ خراج وصول کرنے والی ریاست حاکم مقرر کرکے لوگوں کے لیے چند ایک بُنیادی سہولتوں کا اہتمام تو کرتی تھی۔ یہاں تو اِس کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ 

حالت یہ ہوگئی ہے کہ کچھ ادا کئے بغیر ملنے والی زندگی کی بقاء جیب خالی کرتے رہنے کا معاملہ ہوگیا ہے۔ ہر بُنیادی سہولت کے لیے حکومت کو اُس کے استحقاق سے بڑھ کر ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اداروں کو چلتا رکھنے کے نام پر اُن میں بیٹھے ہوؤں کو پالنا بھی عوام کے فرائض میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ بھی ''خُدّام العوام‘‘ کا مثالی کارنامہ ہے کہ بُنیادی سہولتوں کو بھی آسائشوں کا درجہ مل گیا ہے۔ نظام الاوقات کے مطابق پانی مِلے تو لوگ سمجھتے ہیں مَن کی مُراد پائی۔ بجلی بہت بڑے وقفے کے بغیر آتی رہے تو عوام اپنے مُقدّر پر رشک کرنے لگتے ہیں۔ دو وقت کا روٹی سالن تیار کرنے جِتنی گیس باقاعدگی سے میسر ہو تو دِل مارے خوشی کے بَلّیوں اُچھلنے لگتا ہے، اپنی ہی بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے! 

لائن رینٹ کا معاملہ بجلی، پانی اور گیس تک محدود نہیں رہا۔ تعلیم بنیادی ضرورت ہے۔ ہر اِنسان اپنی اولاد کو بہتر تعلیم دلاکر کچھ بنانا چاہتا ہے۔ یہ اُس کی نَفسی کمزوری ہے۔ اِس کمزوری کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اب تعلیم کو بھی ''پُرتعیّش‘‘ معاملات کے زُمرے میں شامل کردیا گیا ہے۔ 

کسی بھی ریاست کو چلانے کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں۔ قدرت جو کچھ دیتی ہے اُس سے ہٹ کر عوام سے بھی بہت کچھ وصول کیا جاتا ہے۔ اور لوگ بخوشی دیتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے اسباب مہیّا کئے جاتے رہیں۔ مگر یہاں تو ایسا لگتا ہے کہ گائے سے صرف دُودھ دوہنا یاد رہ گیا ہے، اُسے کِھلاتے پِلاتے رہنا فراموش کردیا گیا ہے۔ ایسے میں نتیجہ تو یہی برآمد ہوگا کہ گائے جان سے جائے گی۔ 

کائنات اپنے اُصولوں کو منسوخ تو کیا، کبھی معطّل بھی کرتی۔ اِس پوری کائنات میں ہر معاملہ ''اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے‘‘ کے اُصول پر چل رہا ہے۔ کچھ دیا اُس وقت جاتا ہے جب کچھ ملتا ہے۔ قومی سطح پر ہم جو زندگی بسر کر رہے ہیں اور مختلف سطحوں پر حکومتیں جس انداز سے کام کر رہی ہیں وہ شرمناک حد تک مایوس کُن ہے۔ ڈھنگ سے حکمرانی کے یہ اطوار کہاں ہوا کرتے ہیں؟ عوام بہتر کارکردگی کا مظاہرہ اُس وقت کریں گے جب اُنہیں بہتر زندگی بسر کرنے کا سامان میسر ہوگا۔ سیدھی سی بات ہے، جتنا گُڑ ڈالیے گا اُتنا ہی میٹھا ہوگا۔ یہ کوئی ایسا نُکتہ نہیں جس کے سمجھنے کے لیے اِنسان کا آئن اسٹائن ہونا لازم ہو۔ یعنی یہ کہ محض لائن رینٹ لیتے رہنے سے بات نہیں بنے گی، ریاستی مشینری کو ہر بُنیادی معاملے میں حقیقی سروس پرووائڈر بھی بن کر دِکھانا ہے۔ ایسا نہ ہوا تو قوم کی حیثیت سے کچھ بننے، کچھ کر دکھانے کی ہماری اُمنگیں آف لائن ہی رہیں گی

 

!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved