تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     10-02-2015

نوازشریف قائد اعظم ثانی نہیں رہے؟

گزشتہ چند روز سے سیاسی ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں روزبروز تیزی آتی جا رہی ہے۔ اس سلسلے کے دو دائرے ہیں۔ ایک عارضی ‘ جس کا تعلق سینٹ کے انتخابات سے ہے اور دوسرا طویل مدتی‘ جس میں موجودہ حکومت کے خلاف‘ مشترکہ سیاسی محاذ منظم کرنے کی کوششیں ہوں گی۔سینٹ کی تیاریوں میں تو کئی طرح کی منڈیاں لگی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح کے پی کے اور بلوچستان میں مہنگا بازار لگتا ہے۔ سندھ میں اس کی تھوڑی سی گنجائش ہوتی ہے۔ وہاں ایم کیو ایم کے سوا‘ باقی ہر آزاد اور جماعتی امیدوار‘ خریدوفروخت کے لئے دستیاب ہوتا ہے۔ اسمبلی ممبران کی سب سے زیادہ نفری پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ ایک دور تھا‘ پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور اراکین اسمبلی کو خریدنا مشکل ترین کام تھا۔ ایک مرتبہ‘ ن لیگ اور خفیہ ایجنسیوں نے مشترکہ حملہ کر کے‘ بے نظیر بھٹو شہید کی حکومت کے خلاف‘ تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت جو گرمی بازار پیدا ہوئی‘ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہمیشہ اسے یاد رکھا جائے گا۔ دونوں گروپوں یعنی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مارکیٹنگ مینجرروزانہ رات کو‘ ممبروں کی خریداری کی مہم پر نکلتے۔ ان کی گاڑیوں میں درجن ڈیڑھ درجن بریف کیس ہوتے۔ ہر بریف کیس میں ایک کروڑ روپیہ نقد ہوتا۔ بہت سی جگہ یوں بھی ہوا کہ ایک ممبر نے دو بریف کیس لے کے سودا کیا۔ اس کی اپنی پارٹی نے تین بریف کیس دے دیئے‘ تو پہلے والی پارٹی کو فون آ گیا کہ اپنی امانت واپس لے جایئے اور بریف کیسوں سے بھری گاڑی دوبارہ آئی اور اپنے بریف کیسوں کی جوڑی واپس لے گئی۔
وہ بڑے پراسرار دن تھے۔ زیادہ سرگرمیاں رات کی تاریکیوں میں ہوا کرتیں۔گاڑیوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ ہوتا‘ جو مختلف گھروں اور اراکین اسمبلی کے ہاسٹلوں میں چکر لگاتا۔ ہر قافلے کے پیچھے دوتین موٹرسائیکلوں والے ہوتے‘ جنہیں بظاہر گارڈ کہا جاتا تھا، لیکن ان کا اصل کام یہ دیکھنا ہوتا کہ کہاں پر‘ کتنے بریف کیس نکالے گئے اور کتنے واپس لا کر رکھے گئے؟ اصول تو یہی ہونا چاہیے تھا کہ خریدا ہوا مال واپس نہیں ہو گا، لیکن بازار سیاست میں اصولی تجارت نہیں ہوتی، وصولی تجارت ہوتی ہے۔ جہاں زیادہ وصولی ہو گئی‘ وہیں پر سودا ہو گیا۔ یہ سودا اس وقت تک کے لئے سمجھا جاتا ہے‘ جب تک بڑی آفر نہ ہو۔ بڑی آفر ہوتے ہی‘ پہلے وصول کی گئی رقم لوٹا دی جاتی۔ جب دونوں فریق بار بار سودے منسوخ ہونے سے تنگ آ گئے‘ تو ایک نیا طریقہ کار نکالا گیا۔ ایک کیمپ مری میں بنایا گیا اور دوسرا سوات میں۔ وجہ یہ تھی کہ مری پنجاب میں واقع ہے اور یہاں ن لیگ والوں کی حکومت تھی اور سوات کے پی کے میں ‘ جہاں پیپلزپارٹی حکمران تھی۔ اب یوں ہوا کہ روزکا خریدا ہوا مال‘ روز کے روز اپنے اپنے صحت افزا مقامات کے ویئرہائوسز میں جمع کردیا جاتا۔ ن لیگ والوں کا ویئر ہائوس مری میں تھا اور پیپلزپارٹی کا سوات میں۔ دونوں ویئرہائوسز میں جو مسئلہ پیش آیا‘ وہ یہ تھا کہ خریدے ہوئے سامان کو 24گھنٹے مصروف کیسے رکھا جائے گا؟ دونوں طرف کے خریداروں کو دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر انہیں بیکار بٹھایا‘ تو یہ سازشیں کریں گے۔ چنانچہ دونوں کے لئے‘ ہمہ وقت مصروفیت کے پروگرام بنائے جانے لگے تاکہ نہ انہیں فرصت ملے اور نہ وہ سازش کریں۔ ملک کے بہترین مغنی بلائے گئے۔ مغنیائیں بلائی گئیں۔ مسخرے بلائے گئے۔ رقاصائوں کو جمع کیا گیا۔ لیکن یہ سارے فنکار‘ سیاستدانوں سے مختلف کردار کے مالک نکلے۔ جس فنکار کے ساتھ بھی ایک پارٹی نے سودا کیا‘ وہ آخر تک اسی پر قائم رہا۔ اگر کسی پارٹی نے سودا توڑ کر اپنی طرف لے جانے کی کوشش کی‘ تو انہیں صاف جواب مل گیا۔ دو فن کار ایسے تھے‘ جن کے تعلقات دونوں پارٹیوں میں تھے۔ چنانچہ وہ یہ کہہ کر دونوں طرف آتے جاتے رہے کہ ہم دوستی کے رشتے نبھانے پر مجبور ہیں۔ دونوں طرف حکومتیں تھیں۔ دونوں طرف طاقت تھی۔ دونوں صوبوں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ ان کے ماتحت تھے۔ مگر انہی اداروں کی گاڑیوں میں‘ گتے کی پیٹیاں لاد کر‘ مری اور سوات پہنچائی جاتیں۔ یہی پیٹیاں کسی پرائیویٹ ویگن یا لوڈر میں ہوں‘ تو انہیں وہی لوگ پکڑتے ہیں‘ جو خود ایسی ہی پیٹیاں لے کر جا رہے تھے۔ میچ ختم ہوا‘ تو نتیجہ وہی نکلا‘ جو میچ شروع ہونے سے پہلے تھا۔ یعنی جہاں پر‘ جس پارٹی کی حکومت تھی‘ وہ میچ ختم ہونے کے بعد بھی قائم رہی۔
موجودہ سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل‘ ابھی منڈی تک نہیں پہنچا۔ ابتدائی مراحل میں ہے۔ البتہ عمران خان کے دھرنے کی ابتداء میں کچھ لین دین ضرور ہوا۔ کیونکہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری کی ساری اپوزیشن ‘ حزب اقتدار کی نہ صرف حامی بن گئی بلکہ اس کے لیڈروں نے حکومت کی خوشامد میں جتنی پرجوش تقریریں کیں‘ ان کی صرف ایک ہی مثال میرے ذہن میں آ رہی ہے کہ خیبر پختونخوا کے مسلم لیگی لیڈر ‘ پیرصابر شاہ نے مسلم لیگ کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے ایک دم رنگ بدلا اور جوش و خروش کے ساتھ ''گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔ وہ ایسے جوش اور سرمستی میں یہ نعرے لگا رہے تھے کہ اپنے ساتھیوں کے الفاظ اور اشاروں کو بھی خاطر میں نہیں لائے‘ جن کے ذریعے وہ بار بار انہیں متوجہ کر رہے تھے کہ پیر صاحب قبلہ! آپ نے اپنی لفظی توپوں کا رخ ‘اپنے ہی لیڈر کی طرف کر دیا ہے۔ایسی ایک مثال گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں بھی سامنے آئی۔ ن لیگ نے ہائی کورٹ میںپیشی کے موقع پر‘ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کے حق میں نعرے لگانے کے لئے اپنے آزمودہ کارکنوں کو بھیجا کہ گو عمران گو کے نعرے لگائیں۔ پارٹی کارکن یہی نعرہ لگانے میں مصروف تھے کہ ایک خاتون اور اس کے آس پاس کھڑے چند ساتھی کارکنوں نے ''گونوازگو‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ اس خاتون کو احساس ہوا کہ وہ کس لہر میں بہہ گئی ہیں؟ تو فوراً ہی اپنے ساتھیوں سے معذرتیں کرتی دکھائی دیں۔ لیکن ٹی وی چینلز کو بہرحال ایک اچھی فٹیج مل گئی‘ جو موقع بہ موقع ان کے کام آتی رہے گی۔بہرحال جن سیاسی منڈیوں کا میں نے تذکرہ کیا ہے‘ ابھی وہ تو شروع نہیں ہوئی ہیں۔ ویسے بھی سید غوث علی شاہ اور سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ‘ بریف کیس کی سیاست نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے سرکاری خزانے یا کروڑوں کے عطیے دینے والے‘ غرض مندوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو فی الحال ان دونوں کے پاس نہیں۔ یہ وہ گروپ ہے‘ جو مسلم لیگ کے نام پر منظم کیا جا رہا ہے اور اس کا نعرہ وہی ہو گا‘ جو پاکستان میں ہر پانچ سات سال کے بعد لگتا ہے کہ مسلم لیگیوں کو متحد کرو۔ پاکستان میں جتنی بار مسلم لیگی متحد ہوئے ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ مرتبہ منتشر ہوئے ہیں۔ مگر اس جماعت کی خوبی یہ ہے کہ قائم رہتی ہے۔چونکہ پاکستان میں زیادہ تر حکومتیں مسلم لیگوں نے بنائیں۔ اس لئے کہنہ مشق سیاست دان‘ ہمیشہ مسلم لیگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کو یہ حقیقت جان کر حیرت ہو گی کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے‘ لندن سے واپسی کے بعد 1934ء میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تھی اور 1947ء میں چھوڑ دی تھی۔ اس طرح وہ 14سال‘ مسلم لیگ کے صدر رہے۔ میاں محمد نوازشریف ‘ جونیجوصاحب کی وفات کے بعد 1993ء میں مسلم لیگ کے صدر بنے اور آج تک چلے آ رہے ہیں۔ ان کی مکمل صدارت کا عرصہ تادم تحریر 23سال بنتا ہے۔ یہ سب ہذامن فضل ربی ہے۔ رب کریم کا فضل‘ جب تک جاری رہے گا‘ مسلم لیگ کے صدر نوازشریف ہی رہیں گے۔ میرا خیال ہے‘ ان کے متوالوں کو قائد اعظم ثانی کے نعرے پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ کے عرصہ صدارت 14سال کے اعتبار سے ‘ اب محمد علی جناحؒ قائد اعظم ثانی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان بناتے ہی مسلم لیگ کی صدارت سے سبکدوش ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن ان دنوں مارکیٹ میں بھانت بھانت کی جتنی مسلم لیگیں بھی پائی جاتی ہیں‘ ان میں سے کسی کا صدر ریٹائر نہیں ہوا کرتا۔ اس وقت بھی مسلم لیگوں کے‘ دس گیارہ صدر بیک وقت مارکیٹ میں پائے جاتے ہیں۔ 
موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس پر ایک بات چھیڑیں‘ تو دس باتیں خودبخود نکل آتی ہیں۔ فی الحال یہی عرض کروں گا کہ اب ایک نئی مسلم لیگ بننے کی تیاری ہے اور دوسری طرف نیا پاکستان بنانے والی تحریک انصاف بھی‘ نئی تحریک انصاف بننے کی طرف گامزن ہے۔ سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور‘ تحریک انصاف میں آیا ہی چاہتے ہیں۔ برصغیر کی تمام سیاسی جماعتوں کا پرائمری سکول برطانوی تھا۔ بھارت میں ابتدائی سکولنگ کے بعد بھی‘ سیاست ترقی کرتی رہی۔ لیکن ہماری سیاست پرائمری سے آگے نہیں نکلی۔اب برطانوی سیاست کے گریجویٹ ‘تحریک انصاف کے ذریعے قومی سیاست میں اتریں گے‘ تو ہو سکتا ہے کہ ہماری سیاست کا تعلیمی معیار بھی قدرے بلند ہو جائے۔ چھوٹے چھوٹے ندی نالے تیزی سے نمودار ہو کر‘ ایک دوسرے کی طرف بڑھتے آ رہے ہیں۔یہ کسی وقت بھی تبدیلی کے دریا میں بدل سکتے ہیں۔پاکستانی سیاست کے بڈھے دریا کو‘ تازہ اور اُجلے پانیوں کی توانائیاں درکار ہیں‘ جو سیاسی تبدیلی ہی مہیا کر سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved