تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-02-2015

تماشا کر اے محو آئینہ داری

وزیر اعظم نے گویا پتوار ہی ڈال دیے۔ اس طرح نہیں ہوتا۔ جب تک چپو ملاح کے ہاتھ میں ہوں، دستبردار وہ نہیں ہو سکتا۔
تماشا کر اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
عرض کیا تھا یہی حال رہا تو نوبت ٹیکنوکریٹس کی حکومت تک پہنچ سکتی ہے۔ یار لوگ ناراض ہیں۔ دوسرے نکتے کو نظر انداز فرمایا: یہ مہلت موجود ہے۔ معیشت اور امن و امان اگر بحال کیے جائیں تو اقتدار نہ صرف سلامت رہے گا بلکہ مضبوط اور مستحکم ہوتا جائے گا۔
ریلوے ایک مثال ہے۔ ریل میں کارکردگی جانچی جائے تو قابل داد ہے۔ صبح آٹھ بجے دنیا ٹی وی سے ایک پروگرام نشر ہوتا ہے۔ ''خبر یہ ہے‘‘۔ یہ ناچیز اب اس کا حصہ ہے۔ ہمارے پیش روئوں نے ریاضت کی تھی۔ بڑا چیلنج تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ رفتہ رفتہ اب اور بھی پذیرائی ہے۔ اہم خبروں پہ اس میں تبصرہ ہوتا ہے۔ پس منظر کے ساتھ کچھ تازہ خبریں بھی۔ ایک ہفتہ ادھر حبیب اکرم این ایل سی پہ چڑھ دوڑے۔ انہوں نے کہا‘ ریلوے کو یہ ادارہ ہتھیانا چاہتا ہے۔ این ایل سی کے سابق باخبر منتظمین سے ملاقات ہوئی۔ حبیب صاحب کی اطلاع کا ایک حصہ درست تھا کہ کوریا سے درآمد کیے گئے بعض انجن خراب ہیں۔ اس کے علاوہ مگر بہت ہی چشم کشا خبریں ہیں۔ ایک تو یہ کہ این ایل سی نے ریل پر قبضہ کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا ہے اور نہ ریل کی وزارت سے اس کا تصادم ہے۔
سول اور عسکری قیادت میں کشمکش کی اطلاعات کو ہم بہت اچھالتے ہیں۔ بعض اوقات صداقت بھی ہوتی ہے۔ کئی عشروں کی بے اعتمادی اور تلخیوں کا پس منظر ہے، لوگ یقین کر لیتے ہیں۔ ایک پہلو مگر اور بھی ہے۔ بعض اوقات باوردی افسر خاموشی سے سول انتظامیہ کی مدد بھی کرتے ہیں۔ فوج ایک جدید ادارہ ہے۔ انجینئرز سمیت ہر طرح کے ماہرین اس میں موجود ہیں اور وہ ایک مربوط نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ غلام احمد بلور نے ریلوے کو یکسر تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔ ادارے کی زمینیں ریوڑیوں کی طرح وہ بانٹ دینا چاہتے تھے۔ نئے انجن وہ خریدنا چاہتے تھے کہ بالائی اتار کر کھائیں۔ (پوری طرح بلویا جائے تو مکھن اوسطاً بیس فیصد اور بالائی دس فیصد ہوا کرتی ہے) ایک مرکزی خیال کے گرد این ایل سی نے ایک منصوبے کا تارپود بنا۔ ریل میں آمدن دراصل مال گاڑیوں سے ہوتی ہے۔ سرمایہ ان کے پاس موجود ہے اور ساکھ بھی۔ ریل والوں کے برعکس مالیاتی ادارے آسانی سے قرض انہیں دے سکتے ہیں۔ اگر وہ انجن درآمد کر لیں اور مال گاڑیاں چلائیں تو ریل پیل ہو جائے گی۔ وہ تو کمائیں گے ہی ریلوے کو کرایہ بھی ملے گا۔ پھر یہ کہ صحت مند مقابلے کا ایک سلسلہ شروع ہو گا۔ 
پشاور شہر میں بالائی سے ناشتہ کرنے کا رواج صدیوں پرانا ہے۔ دودھ اگر ناکافی ہو تو شیر فروش سنگھاڑے کا آٹا اس میں ڈال دیتا ہے۔ بلور صاحب کا نسخہ بھی یہی تھا۔ پیپلز پارٹی والوں سے پوچھا جاتا تو وہ یہ کہتے: مخلوط حکومت ہے، بلور صاحب سے ہم نجات نہیں پا سکتے۔ بات اصل میں یہ تھی کہ اے این پی میں بلور خاندان طاقتور بہت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق گجرات سے ہے اور اہل گجرات کی تر دماغی مشہور ہے۔سنتے ہیں کہ اسفند یار ان سے خوفزدہ تھے۔ ہنر مندی اور سرمایہ۔ ایک زمانے میں پارٹی کی قیادت ہتھیانے کا ارادہ بھی انہوں نے کیا تھا۔
این ایل سی موزوں انجن کی تلاش میں نکلی تو انکشاف ہوا کہ کوریا والوں کے پاس موجود ہیں۔ بیچنے پر آمادہ بھی۔ وہی امریکہ میں بنے دنیا کے بہترین Locomotive۔ بحال کردہ (Reconditioned) جاپانی کاروں کی طرح، جو دنیا کی ہر مارکیٹ میں قابل قبول ہیں۔ ڈھانچہ پرانا، انجن نیا۔ ورکشاپیں کوریا والوں کی اچھی ہیں۔ قیمت ناقابل یقین، دس ملین کی بجائے ایک ملین ڈالر۔ اس زمانے میں جنرل کیانی سے بات ہوئی تو انہوں نے تصدیق کی۔ ایسا لگا کہ پورے معاملے کی نگرانی وہ کر رہے ہیں کہ گڑبڑ نہ ہونے پائے۔ سرما کی ایک شب تفصیل سے بتایا کہ ریل کے وزیر اور سیکرٹری صاحب کو مدعو کرکے راہ بتا دی ہے۔ دو طرح کے منصوبے تھے۔ ریل کی وزارت چاہے تو خود انجن منگوا لے۔ نوے فیصد بچت ہو گی۔ اگر نہیں تو مال گاڑیوں کا ایک حصہ این ایل سی کے سپرد کر دے۔ بوگیاں بھی وہ درآمد کر لیں گے۔ آخرکار سمجھوتہ ہو گیا۔
خواجہ سعد رفیق کو داد دینی چاہیے کہ وزیر بنے تو جنرلوں سے انہوں نے یہ کہا: جی نہیں، ریل کو ہم خود چلائیں گے۔ انجن آپ ہمیں کرایے پر دے دیجیے۔ انداز فکر ان کا یہ تھا کہ اگر ہتھیار انہوں نے ڈال دیے تو رفتہ رفتہ ریل کا پورا نظام حکومت کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اب ایک نیا سمجھوتہ ہے۔ ریل کی مزدور انجمنوں کو مگرپریشانی لاحق ہے۔ ان کا سکہ تبھی چلتا ہے کہ خرابی برپا رہے اور افسروں پر وہ دھونس جماتے رہیں۔ اخبار نویسوں کو وہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ منصوبے کو سبوتاژ کریں۔ انجنوں کے ناقص ہونے کا افسانہ انہی نے تراشا ہے۔ این ایل سی والے تو مال گاڑیاں خود چلانا چاہتے تھے۔ وہ کیا پاگل تھے کہ بگڑے ہوئے انجن درآمد کرتے۔ یہ نکتہ معاہدے میں شامل ہے کہ برآمد کرنے والی کمپنی انجنوں کو صحت یاب رکھے گی۔ ان کی مرمت کرتی رہے گی۔ ایک سالم فالتو انجن بھی موجود ہے کہ ہنگامی صورتحال میں کوئی بھی پرزہ اس سے نکال کر بیمار انجن میں لگا دیا جائے۔ سعد رفیق کی حکمت عملی بعض اعتبار سے ناقص بھی ہے۔ اس پر مگر ان کی تحسین چاہیے کہ ریل کا خسارہ انہوں نے کم کر دیا ہے۔ ان کے باقی معاملات جیسے بھی ہوں مگر اس ادارے کو بہتر بنانے کی سرتوڑ کوشش انہوں نے کی ہے۔ وفاقی حکومت خاص طور پر عظیم اور تاریخ ساز اکائونٹنٹ گرامی قدر وزیر خزانہ اگر ان کی مدد کریں۔ اگر سعد رفیق ماہرین کی مدد لیں اور وقتی طور پر سیاست کو خیرباد کہہ کر ساری توجہ اس طرف مبذول رکھیں تو زیادہ سے زیادہ، جی ہاں زیادہ سے زیادہ دو سال میں ریل کو منافع بخش بنا سکتے ہیں۔ اگر دس ارب سالانہ کما سکیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ملک کو 43 ارب سالانہ کی بچت ہو گی۔ معاہدے کے مطابق افغانستان جانے والا سارا سامان ریل کے ذریعے جانا چاہیے۔ یہ ایک ادارے کی کہانی ہے۔ پی آئی اے کیوں ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ بدقسمتی سے ٹریڈ یونین یہاں بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ چار گنا زیادہ سٹاف۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ باری باری ان کی ناز برداری فرماتی ہیں۔ گولڈن شیک ہینڈ دے کر زائد سٹاف کو اگر فارغ نہیں کیا جا سکتا تو کوئی دوسری راہ ڈھونڈی جائے۔ سٹیل مل اور بجلی کمپنیوں کے لیے بھی مضمونِ واحد ہے۔ ان اداروں پر ہر سال چار سو ارب روپے لٹ جاتے ہیں۔
لاہور کی ایک تقریب میں وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ وہ پیشگی خریداری والے بجلی کے میٹر کیوں نہیں لگاتے۔ عملے کی بچت، آمدن میں اضافہ۔ فرمایا: اس کا آغاز کیا تو دو ماہ کا بل خریداروں کو دینا پڑے گا۔ عرض کیا: حضور قسطیں کی جا سکتی ہیں۔ تین بار یہ بات میں نے ان سے کہی مگر جواب ہی نہ دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ناراض ہیں۔ میں نے پیغام بھیجا حضور، اپنی رائے سے دستبردار تو میں ہو نہیں سکتا لیکن ذاتی شکایت ہو تو تدارک پر آمادہ ہوں اور جس طرح آپ پسند کریں۔ جواباً شکریہ کا پیغام ملا۔ ناچیز بھی شکر گزار ہے۔ مگر التماس یہ ہے کہ جناب والا، کوئی ذاتی رنج نہیں۔ معیشت، امن و امان اور ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کی واقعی اگر آپ کوشش کریں تو کون کافر آپ کی مدد نہ کرے گا۔ اسحاق ڈار تو خیر، آپ نے ملک کو پرویز رشید وں کے سپرد کر دیا۔ کون گوارا کرے جنہیں قائد اعظم کے نام سے چڑ ہے۔ 
سول ملٹری تعلقات، دہشت گردی، بجلی اور گیس۔ کون سا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ریاضت اگر کی جائے، منصوبہ اگر درست ہو اور مردان کار کا انتخاب۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، آج کل تو میاں شہباز شریف بھی نیمے دروں، نیمے بروں ہیں۔ خیر، اس پر کل صبح آٹھ بجے دنیا ٹی وی پر بات ہو گی۔
وزیر اعظم نے گویا پتوار ہی ڈال دیے۔ اس طرح نہیں ہوتا، جب تک چپو ملاح کے ہاتھ میں ہوں، دستبردار وہ نہیں ہو سکتا۔
تماشا کر اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved