زخموںکے ماروں سے زیادہ زخموں کی تکلیف کون جانتا ہے؟ غربت اور ذلت، محرومی اورمحتاجی، بیگانگی اور تضحیک کو برداشت کرلینے سے زخموں کے درد اور روح کے روگ ختم نہیں ہوتے۔برداشت یقینا اذیت ناک ہوتی ہے لیکن محرومی اور بے بسی کے اعشارئیے بھی کسی ذی شعور انسان کے لئے کم تکلیف دہ نہیں ہیں۔ المیہ یہ ہے یہ اعداد و شمار عالیشان ہوٹلوں میں ہونے والی کانفرنسوں میں اسی نظام کے رکھوالوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں جو تمام تر بربادی کی بنیادی وجہ ہے۔ہمارے بھورے انگریز حکمران جو انگریزی جرائد بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ان میں پچھلے عرصے کے دوران بھوک اور غربت پر بہت سے اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں ۔
عوام کی اکثریت کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول ایک چیلنج بن کے رہ گیا ہے جس کا اظہار خوراک پر خرچ ہونے والے فی کس آمدن کے حصے سے ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی آمدن کا بڑا حصہ پیٹ کی آگ کی نذر ہوجاتا ہے۔ 84ممالک پر ہونے والے اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق عام پاکستانی خاندان کی کل آمدن کاتقریباً پچاس فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ ہوجاتا ہے جس کی بنیادی وجہ کم آمدن اور مہنگی خوراک ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں یہ شرح صرف 6سے 7فیصد ہے۔ حیران کن طور پر دنیا کی 40فیصد بھوک پالنے والے ہندوستان کا ''اوسط‘‘ خاندان بھی اپنی آمدن کا 25فیصد خوراک پر خرچ کرتا ہے۔ یہ تفصیل ایک معاصر میں شائع ہوئی۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں غذائی قلت یہاں کا سماجی معمول بن کے رہ گئی۔ آبادی کی وسیع اکثریت صحت بخش خوراک سے یکسر محروم ہے۔ حکومت کے اپنے غذائی سروے کے مطابق 60فیصد آبادی غذائی عدم استحکام کا شکار ہے یعنی آمدن میں معمولی کمی یا خوراک کی قیمتوں میں ذرا سا اضافہ انہیں باقاعدہ بھوک سے دوچار کر سکتا ہے۔ آبادی کے اس حصے میں 50فیصد خواتین اور بچے شدید غذائی قلت سے دوچار ہیں۔21نومبر 2013ء کو ڈان میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ خوفناک انکشافات سے لبریز ہے۔ رپورٹ میں قومی غذائی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر 44فیصد بچے ذہنی اور جسمانی طور پر نامکمل نشوونما کا شکار ہیں اور 2001ء کے بعد ایسے بچوں کی تعداد میں 3فیصد اضافہ ہوا ہے۔پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 35فیصد اموات کی براہ راست وجہ غذائی قلت ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اس صورتحال کو ''ایمرجنسی‘‘ قرار دیا ہے۔ غذائی سروے میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف تین فیصد بچے ایسے ہیں جنہیں بنیادی غذائی ضروریات کے مطابق خوراک میسر ہے۔
خوراک کی بڑھتی قیمتیں غربت میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔ ایشین ترقیاتی بینک کے مطابق خوراک کی قیمتوں میں 10فیصد اضافہ 2.2فیصد ملکی آبادی (تقریباً 34لاکھ افراد) کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیتا ہے۔ 2013-14ء کا معاشی سروے پیش کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے خود اعتراف کیا ہے کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ سروے میں مزید درج ہے کہ 2ڈالر فی کس یومیہ کو معیار بنایا جائے تو 60فیصد سے زائد آبادی غربت کا شکار ہے۔ 7فروری 2015ء کو معاصر اخبار میں شائع ہونے والی SDPIکی رپورٹ کے مطابق تیس لاکھ پاکستانی ہر سال خط غربت سے نیچے گر رہے ہیں۔14ستمبر 2014ء کو انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں نیم سرکاری ادارے آئی پی آر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ''2008ء کے بعد سے آمدن کی عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بیس فیصد غریب ترین آبادی کی حقیقی آمدن 22فیصد گری ہے ...یہ ایک المیہ ہے کہ پونے چار کروڑ لوگوں کو دو وقت کی خوراک بھی میسر نہیں ہے اور وہ بھوکے رہنے پر مجبور ہیں۔‘‘
مملکت خداد میں پینے کا صاف پانی بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ 2001ء سے 2010ء کے درمیان ایک غیر سرکاری ادارے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے مطابق شہروں میں 15فیصد اور دیہاتی علاقوں میں 18فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ 80فیصد سے زائد آبادی بیکٹیریا، آرسینک، نائیٹریٹ اور سلفر ملا پانی پینے پر مجبور ہے۔ آلودہ پانی جان لیوا بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ 17اپریل 2012ء کو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک میں 40فیصد اموات کی وجہ آلودہ پانی ہے۔ بچوں میں ہونے والی 60فیصد اموات کی وجہ غلیظ پانی ہے جو ڈھائی لاکھ بچوں کو ہر سال موت کی وادی میں دھکیل دیتا ہے۔22مارچ 2014ء کو دی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے سی ایم ایچ لاہور میڈیکل کالج میں کمیونٹی میڈیسن کے ماہر محمد اشرف چوہدری کا کہنا تھا کہ ''80فیصد بیماریوں کی وجہ گندا پانی ہے...یہ ایک المیہ ہے کہ 66سال میں ملک کی کوئی واٹر پالیسی ہی وضع نہیں کی گئی ہے...واٹر ٹیبل ہر سال ایک سے دس فٹ تک نیچے گررہا ہے اور 2020ء تک عین ممکن ہے کہ پاکستان کو سرکاری طور پر پانی کی قلت سے دوچار ملک قرار دے دیا جائے۔ ‘‘
اس نظامِ زر نے عالمی سطح پر جو بھوک پھیلائی ہے اس کا اندازہ اقوام ِ متحدہ کی ذیلی غذائی تنظیم ایف اے او کی رپورٹ سے ہوتا ہے جس کے مطابق 7.1ارب آبادی کے اس سیارے پر ہم 10 ارب افراد کی غذا پیدا کررہے ہیں، پھربھی 2 ارب انسان غذائی قلت کا شکار ہیں۔ درحقیقت آدھی سے زیادہ نسل انسانی کسی نہ کسی سطح کی غذائی قلت میں مبتلا ہے۔ آج دنیا کی صورتحال جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہ اس سے بھی بدتر ہے جس کا تذکرہ ساحرلدھیانوی نے اپنے اشعار میں کیا تھا۔ 1944ء کے قحط بنگال کے بارے میں ساحر لدھیانوی کی نظم پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھی گئی ہو۔
جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا؟
کہ اِن پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اُگلا تھا
کہ نسلِ آدم وحوا بلک بلک کے مرے
ملیں اِسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
زمیں کی قوت تخلیق کے خداوندو
ملوں کے منتظمو‘ سلطنت کے فرزندو
پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظامِ زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے‘ دم توڑتی نگاہوں سے
بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
یہ اشعار اس نظام کی ہر قدر کو ٹھوکر مارنے والا ساحر جیسا انقلابی ہی کہہ سکتا ہے ۔
کارپوریٹ میڈیا غریبوں کی غربت کا رونا تو بہت روتا ہے لیکن انقلابی سوشلزم کے ذریعے اس ذلت او راستحصال سے نجات کا سائنسی پروگرام دیا جائے تو بات گول کر دی جاتی ہے لیکن آنسو بہا کر بھی اپنے خون پسینے سے اس سماج کی تمام دولت پیدا کرنے والے محنت کشوں کو کسی ہمدردی اور ترس کی ضرورت نہیں۔ جو سماج کو چلاتے ہیں، وہ اس کو روک بھی سکتے ہیں۔ اور جو روک سکتے ہیں وہ اسے یکسر بدل بھی سکتے ہ