اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو(اس کے لئے) میخیں نہیں بنایا،(النباء:6-7)‘‘۔ان آیات سے معلوم ہوا کہ مُدَوَّر(Rounded)اور ناہموار(Uneven)زمین کے توازن کو قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بلند وبالا پہاڑ زمین میں کیلوں کی طرح گاڑ دئیے ہیں تاکہ زمین اپنی حرکت کے دوران اپنے محور پر قائم رہے اور اس سے تجاوز نہ کرے۔اسی طرح زمین کے کٹاؤ کو روکنے کے لئے قدرت نے جنگلات پیدا فرمائے ،کیونکہ ان جنگلات کی برکت سے زمین کا درجۂ حرارت کنٹرول میں رہتاہے اور یہی جنگلات سرسبزی و شادابی ، درجۂ حرارت کے متوازن رہنے اور بارشوں کا سبب بنتے ہیں ۔ پاکستان میں کشمیر سے لے کرہزارہ ڈویژن سے ہوتے ہوئے گلگت بلتستان تک ہندو کش کا جو پہاڑی سلسلہ واقع ہے ، اس کی زمینی ساخت اور بالعموم پتھر بھی کمزور ہیں، یہی وجہ ہے کہ طوفانی بارشوں ، زلزلوں اور قدرتی آفات کے نتیجے میں یہاں تباہی زیادہ آتی ہے۔ جنگلات زمین کے کٹاؤاور بہاؤ (Landslide)کو روکنے کاسبب بنتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شاہراہ ِ قراقرم پربارانی موسم میں اکثر زمین کا کٹاؤ جاری رہتاہے، سڑکیں بند ہوجاتی ہیں اور ذرائع رسل ورسائل متأثر ہوتے ہیں۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ دنیا میں ممالک کی سرزمین پر جنگلات کا جو تناسب درکار ہے، پاکستان میں جنگلات پر مشتمل رقبہ اُس سے بہت کم ہے اور جو ہے اسے بھی تیزی سے تباہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کا جنگلاتی رقبہ کل رقبے کا صرف 5فیصد ہے، لیکن یہ بھی محض تخمینہ ہے، شاید حقیقی جنگلاتی رقبہ اس سے بہت کم ہے، کیونکہ پاکستان میں ٹمبر مافیا نے جنگلات کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔اس میں ماضی کے بااثر حکمرانوں اور محکمۂ جنگلات کے افسرانِ اعلیٰ کا سب سے زیادہ کردار رہا ہے۔ خاص طور پر سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں اور اس کے بعد جنگلات کی بربادی کا سلسلہ نہایت تیزرفتاری کے ساتھ جاری رہااور اس کے نتیجے میں وہاں ایک نیا متمول طبقہ وجود میں آیااور پھر اس دولت کو سیاسی اقتدار کے حصول، ذاتی عیش وعشرت اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں سرمایہ کاری میں لگایا۔ اس طرح کی مصنوعی سرمایہ کاری کے نتیجے میں اکثر رہائشی زمینوں کی قیمتوں کا گراف غیرفطری اور غیرمعمولی رفتار سے بلند ہوتا رہتاہے۔
اس موضوع کی طرف میرا ذہن اس لئے متوجہ ہوا کہ حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان نے مانسہرہ میں یہ بیان دیا کہ وہ جنگلات کا تحفظ کریں گے ، ایک ارب درخت لگائیں گے اور ٹمبر مافیا اور محکمۂ جنگلات کی بیوروکریسی کے خلاف جہاد کریں گے، خواہ اس میں ان کی حکومت ہی کیوں نہ چلی جائے۔خان صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ٹمبر مافیا ان کی جماعت سمیت سب جماعتوں میں موجود ہے، تو کسی بھی تبدیلی کا آغاز اپنے گھر سے کرناچاہئے، اس سے اُن کے اخلاص پر لوگوں کو یقین ہوگا۔
آزاد کشمیر اور مانسہرہ سے ہوتے ہوئے گلگت بلتستان تک سرکاری جنگلات کا بیشتر حصہ پہلے ہی تباہ کیاجاچکا ہے۔ ہمیں سال دو سال میں جب کبھی مانسہرہ جانے کا موقع ملتا ہے، تو بتایا جاتا ہے کہ جہاں جہاں تھوڑے بہت درخت نظر آرہے ہیں، یہ لوگوں کی پرائیویٹ زمینوں پر ہیں ، جنگلات کی سرکاری زمینیں بالعموم چٹیل ہیں۔ خان صاحب ہیلی کاپٹر پر جب فضائی سروے کے لئے نکلیں ، تو یہ بھی معلوم کرلیں جو تھوڑے بہت جنگلات نظرآرہے ہیں ، وہ کس کی ملکیت ہیں؟۔
جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے ان علاقوں کے موسم میں کافی تبدیلی آچکی ہے، اکثر سردیوں کا موسم خشک سالی میں گزر جاتاہے، ماضی کی بہ نسبت برف باری بھی بہت کم ہوتی ہے اور اکثر سردیوں کے اختتام پر ہوتی ہے، اسی طرح بارشوں کا اوسط بھی پاکستان کے ابتدائی عشروں کے مقابلے میں بہت کم ہے، پہاڑی چشمے کافی حدتک خشک ہوتے جارہے ہیں ۔پہاڑی ندی نالوں میں موسمِ برسات کے علاوہ پانی یا تو بالکل نہیں ہوتا یا اس کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اور یہی ندی نالے دریائے سندھ کے مختلف مَنابع (Sources)ہیں۔ ہم کالا باغ ڈیم کی بات تو کرتے رہتے ہیں، لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ سیلابی موسم کے علاوہ تربیلا اور منگلا ڈیم کی جھیلیں بھی بعض اوقات پوری گنجائش کے مطابق بھر نہیں پاتیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے درخت اُگانے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:''جو مسلمان کوئی پودا لگاتاہے یا کھیت میں فصل کاشت کرتاہے ، تو (اس کی محنت کے نتیجے میں) اُس سے کوئی پرندہ یا انسان یا چوپایہ کھاتاہے، تو یہ اس کے لئے صدقہ ہے، (مسلم:2320)‘‘۔آپ نے غور فرمایا کہ عام طور پر کسی عملِ خیر پر اجر کا مَدار نیت پر ہوتاہے، لیکن یہاں رسول اللہ ﷺ نے بندۂ مومن کو نیت کے بغیربھی اجر کا حق دار قرار دیا اور اُس کے ہاتھ سے لگائے ہوئے درخت یا کھیت کھلیان سے اللہ کی جو بھی مخلوق فیض پائے، اُسے اُس کے لئے آپ ﷺ نے صدقہ قرار دیا۔ یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر درخت لگانا باعثِ اجر ہے، تو درختوں کو بچانا بھی اجر کا سبب قرار پائے گا۔ دنیا میںجنگلات کے رقبے کے اعتبار سے روس ، برازیل، امریکا، کینیڈا اور بعض دوسرے ممالک سرِ فہرست ہیں اورتمام ترقی یافتہ ممالک میں جنگلات کی حفاظت کا غیر معمولی اہتمام کیا جاتاہے۔ امریکا اور یورپ میں مکانات کی تعمیر میںبلڈنگ میٹریل میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیز لکڑی ہے، یہ وہاں کی موسمی ضرورت بھی ہے اور اب روایت بھی بن چکی ہے۔ مجھے نیویارک میںمکانوں کی تعمیرات کے شعبے میں کام کرنے والے بعض پاکستانی حضرات نے بتایا کہ وہاں جنگلات اتنی زیادہ مقدار میں ہیں کہ تعمیر کے لئے جنگلی درختوں کومفت کاٹنے کی اجازت ہے، صرف مشینی کٹاؤ ، لکڑی کی تیاری ، نقل وحمل اور دکانداروں کا تجارتی منافع لکڑی کی مجموعی قیمت قرار پاتاہے اور ایک اوسط درجے کے مکان پرتقریباً تین ہزار ڈالر کی لکڑی خرچ ہوتی ہے، جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً تین لاکھ روپے بنتے ہیں، حالانکہ وہاں مکانات کا پورا اسٹرکچر تقریبا ًلکڑی پر قائم ہوتاہے اور فرش پر بھی ٹائلوں کے بجائے لکڑی ہی استعمال ہوتی ہے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حالتِ جنگ کے لئے جو خصوصی احکام جاری کئے ،''ان میں عورتوںاور بچوں کو قتل نہ کرنا اور درختوں کو کاٹنے اور جلانے کی ممانعت بھی شامل ہے،(مصنف عبدالرزاق:9437)‘‘۔ غزوۂ بنونضیر کے موقع پر جو یہود کے درخت اور کھیت کاٹے گئے ، وہ مخصوص حالات کا نتیجہ تھے ،قرآن مجید کی سورۃ الحشر ، آیت :05میں اس کی تائید فرمائی گئی ہے ۔ آج بھی اگر کوئی جنگلات کو مورچے یا پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرے گا اور ان پر قابو پانے کا کوئی اور طریقہ نہ ہو، تو پھر انہیں کاٹا اور جلایا جاسکتاہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''یاد رکھو! دنیا کی زندگی تو صرف کھیل او ر تماشا ہے، (سامانِ) زینت ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے مقابل فخر کرنا ہے اور مال اور اولاد کی کثرت کو طلب کرنا ہے، (یہ) اُس بارش کی مثل ہے، جس کی پیداوار کسانوں کو اچھی لگتی ہے ، پھر وہ خشک ہوجاتی ہے ، تو( اے مخاطَب!) تواس کو زرد رنگ کی دیکھتا ہے ، پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور(نیکو کاروں کے لئے) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی صرف دھوکے کا سامان ہے، (الحدید:20)‘‘۔اس آیت میں بھی زمین کی ہریالی اور شادابی کو سامانِ زیب وزینت اور زمین کا حسن قرار دیا گیا ہے ، اسی طرح جنگلات بھی پہاڑوں اور زمین کی زینت ہیں اور انہیں اجاڑنا زمین کے حسن کو پامال کرنے کے مترادف ہے ۔ضلع مانسہرہ میں بعض جنگلات ،جن میں سری ڈھاکاشامل ہے ،محکمۂ جنگلات کے ریکارڈ میں کنوارا جنگل (Virgin Forest)تھا،لیکن اب اس کا تقریباً خاتمہ ہوچکاہے،کنوارپن توکیا بیوگی کے دور سے بھی گزر کر انجام پذیر ہوچکاہے۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ حکومتیں کمزور اوربے بس ہیں اورمختلف قسم کے مافیامؤثر اور طاقت ور ہیں اور ان میں ٹمبرمافیاہے، یعنی جنگلات میں صرف جنگل کے قانون کا راج ہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:'' دنیا کی زندگی کی مثال اس پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا ، تو اس کی وجہ سے زمین کی وہ پیداوار خوب گھنی ہوگئی ، جس کو انسان اور جانور سب کھاتے ہیں ؛حتیٰ کہ عین اس وقت جب کھیتیاں اپنی تروتازگی اور شادابی کے ساتھ لہلہانے لگیں اور ان کے مالکوں نے یہ گمان کر لیا کہ وہ ان پر قادر ہیں ، تواچانک رات یا دن کو (کسی وقت ) ہمارا عذاب آگیا، پس ہم نے ان کھیتوں کو کٹا ہوا (ڈھیر) بنا دیا، جیسے کل یہاں کچھ تھا ہی نہیں، ہم غوروفکر کرنے والوں کے لئے اسی طرح وضاحت کے ساتھ اپنی نشانیاں بیان کرتے ہیں،(یونس:24)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا اور میں مدینہ کو حرام قرار دیتا ہوں،اس کی پتھریلی زمین اور حدود کے اندر سب حرام ہے، اس کی تر گھاس کو نہ کاٹا جائے، اس کے شکار نہ بھگایا جائے ، اس میں کسی کی افتادہ چیز کو نہ اٹھایا جائے ، سوائے اس کے کہ جو اس کی طرف اشارہ کرے اور اس کے درخت کو نہ کاٹا جائے ، سوائے اس کے کوئی اپنے اونٹ چرائے اور اس میں جنگ کے لئے ہتھیار نہ اٹھایا جائے،(مسنداحمد:959)‘‘۔