امریکہ کا مضحکہ اڑاتے ہوئے روسی صدر پیوٹن نے پھر کہا ہے کہ انہیں امریکی پابندیوں اور تیل کے ہتھیار کی ذرہ بھر بھی پروا نہیں اور روس پہلے کی طرح ڈٹ کرمقابلہ کرے گا ۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں فی بیرل ایک امریکی ڈالر کی کمی ہو تی ہے تو روس کو اس ایک ڈالر کمی کے بدلے میں2 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔اسی تناظر میںورلڈ بینک نے ابھی حال ہی میں روس کو جو وارننگ جاری کی ہے اس کے مطا بق2015 ء میں تیل کی قیمتیں اگر اسی رفتار سے کم ہوتی رہیں تو روسی معیشت کا گراف 0.7فیصد نیچے آجائے گا۔اس وارننگ کے با وجود روس کے توانائی کے وزیر الیگزینڈر نوواک کہتے ہیں کہ اگر ہم سعودی پریشر کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اپنے تیل کی پیداوار میں کمی کردیتے ہیں تو اس سے مارکیٹ میں ہماری ملکی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ اگر تیل کی قیمتوں میں کمی کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور ساتھ ہی یوکرائن میں فوجی مداخلت کے جرم میں امریکہ کی عائد کی جانے والی پابندیاں بھی جاری رہیں تو کیا روس کیلئے اپنے پائوں پر کھڑا رہنا ممکن ہو سکے گا؟ گزشتہ چھ ماہ سے تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں پچاس فیصد سے بھی زیا دہ کم ہو چکی ہیں اور سعودیہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس وقت قیمت فی بیرل44 ڈالر ہے اور اسے اگر بیس ڈالر تک لانا پڑا تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ سفارتی اور معاشی ماہرین تو اس بات پر حیران ہو رہے ہیں کہ سعودی عرب کے ذریعے رو س، ایران اور وینز ویلا کا جو حشر کیا جا رہا ہے وہ امریکہ اور اسرائیل لاکھ کوششوں کے باوجود گزشتہ پندرہ سالوں میں بھی نہیں کر سکے۔
عالمی مارکیٹ میںگزشتہ چھ ماہ سے تیل کی مسلسل گرتی ہوئی قیمتوں نے تیل بر آمد کرنے والے ممالک کے بوجھل خزانوں کو ہلکا پھلکا کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ ممالک 2010 ء سے2014 ء تک جب فی بیرل تیل کی قیمت110 ڈالر تھی ،کا آج سے موازنہ کرتے ہیں تو ان کے ہاتھ پائوں پھولنے لگتے ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے تیل کی کم کی جانے والی قیمتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کریملن اب اس کوشش میں ہے کہ بھر پور سادگی اختیار کرتے ہوئے اپنے بجٹ کے اخراجات بچائے کیونکہ پینتالیس بلین ڈا لر کا جو ریونیو اسے حاصل ہو رہا تھا ،اب انتہائی کم ہوچکا ہے اور امریکی خواہش یہ ہے کہ اس طرح روس اپنے دفاعی اخراجات کم کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر یہ سوال ہو گا کہ کیا روسی صدر ولا دی میر پیوٹن اس صورت میں اپنا مشہور زمانہ '' نیشنلسٹ کارڈ‘‘ کھیلنے کی پوزیشن میں رہ جائیں گے؟ کیونکہ اس وقت روس میں شرح سود بھی اسی وجہ سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے جس سے معیشت پر بوجھ پڑنے سے ایک بار پھر روبل، ڈالر کے مقابلہ میں کانپنا شروع ہو چکا ہے ۔روسی صدر پیوٹن گوکہ ابھی تک معاشی بحران کی بات نہیں کر رہے لیکن اس کے وزیر اعظم برملا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ ابھی تک 2008 ء کے معاشی بحران سے باہر نہیں نکلے تھے کہ یہ نئی افتاد ان کے سامنے آ گئی ہے ۔کیا معیشت کی گرتی ہوئی صورت حال کے اس مقام پر روس خود آیا ہے یا اسے سعودی عرب اور امریکہ کی وجہ سے پہنچایا گیا ہے؟ جواب کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ روس نے تاریخ سے شائد کوئی سبق سیکھنا منا سب نہیں سمجھا ۔جن نتائج کا سامنا افغانستان پر بزور طاقت قبضہ کرتے ہوئے اسے کرنا پڑا تھاانہی حالات کایوکرائن میں فوجی مداخلت کے نتیجے میں اسے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
روس کے بعد امریکہ کو آنکھیں دکھانے والا وینز ویلا اس نئی افتاد کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے جو دنیا میں سب سے زیا دہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہے اور اپنے شہریوں کو سستا ترین تیل فراہم کر رہا ہے ۔اسے اپنے عوام کو یہ رعائت دینے کیلئے سالانہ 12.5 بلین ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ماہرین معاشیات وینز ویلا کے صدر میڈرو پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ عوام کو دی جانے والی یہ رعائت ختم کر دیں یا تیل کی پیداوار سعودیہ کی طرح دگنی کر دیں کیونکہ اس وقت اس کے ملک کی اکانومی ساٹھ فیصدinflationکا شکار ہو چکی ہے لیکن وینزویلا کے صدر نے کہا کہ وہ نہ تو تیل کی پیداوار بڑھائیں گے اور نہ ہی عوام کو دی جانے والی رعائت ختم کریں گے ۔اس کی وجہ وہ ممکنہ خوف بھی ہو سکتا ہے کہ جب1989ء میں وینزویلا میں تیل کی قیمتیں بڑھائی گئی تھیں تو پرتشدد ہنگاموں میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
اوپیک کے با اثراور دنیامیں سب سے زیا دہ تیل پیدا کرنے والے سعودی عرب کا ایک وقت میں ارادہ تھا کہ فی بیرل تیل کی قیمت85 ڈالر تک برقرار رکھی جائے لیکن اس وقت تیل کی قیمتیں بڑھانے یا اپنی تیل کی پیداوار کم کرنے کا اس کا ابھی تک کوئی ارادہ سامنے نہیں آرہا۔اس کی وجہ شائد یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے موجو دہ ریزرو فنڈز700 بلین ڈالر سے بھی زائد ہیںاور وہ عرصے تک اپنے موجودہ فیصلے پر قائم رہ سکتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر اس سے سعودیہ کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟۔کیا وہ اس طرح اوپیک کو کسی پابندی یا دائرے میں لانا چاہتا ہے یا وہ امریکہ کی شیل آئل اور گیس انڈسٹری کو دبائو میں لانے کا خواہشمند ہے؟ سعودی اقدام سے تیس سال بعد امریکہ کو اپنے تیل کی پیداوار کو بڑھانا پڑ رہا ہے۔اب اگر سعودیہ تیل کی قیمتیں بڑھانے کے علا وہ اپنی پیداوار بھی کم کرنا چاہتا ہے تو اسے1980 ء کی صورت حال کو بھی سامنے رکھنا ہو گا جب اس نے تیل کی قیمتیں بڑھانے کیلئے اپنی پیداوار میں کمی کر دی تھی لیکن اس سے اس کی اکانومی بکھر کر رہ گئی۔
خلیجی ممالک میں سے کویت اور متحدہ عرب امارات کے اپنے زرمبادلہ کے ریزرواس قدر ہیں کہ وہ کئی سال تک اس صورت حال کا بآسانی مقابلہ کر سکتے ہیں،تاہم اوپیک کے دوسرے ارکان جن میں عراق، ایران اور نائیجیریا اپنی بھاری آبادیوں اور کم ریزرو کے ساتھ شاید زیا دہ حالات کا مقابلہ نہ کر سکیں کیونکہ وہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔دوسری جانب داعش نے عراق اور شام کے بہت سے تیل کے کنوئوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ بلیک مارکیٹ میں تیس سے ساٹھ ڈالر فی بیرل کے حساب سے روزانہ تین ملین ڈالر کے حساب سے تیل کے سودے کر رہی ہے۔ تیل کی قیمت میں جیسے ہی دس فیصد کمی ہوتی ہے تویورپی یونین کی اکانومی میں 0.1فیصدبڑھوتری آجاتی ہے ۔ جاپان سمیت چین جو سب سے زیا دہ تیل امپورٹ کرنے والا ملک ہے ،اس صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بھارت جو اپنے ملک میں استعمال ہونے والا75 فیصد تیل بر آمد کرتا ہے، سعودی عرب کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں کمی کرنے کی وجہ سے اپنے اکائونٹ deficit میں بہتری لا رہا ہے اور پاکستانی حکومت اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی سیا سی دکانداری چمکانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے...!!