ہمارے ایڈیٹر انچیف میاں عامر محمود نے اتوار 8فروری کو اپنا کالم بھیجا۔جس اعتماد کے ساتھ انہوں نے اروند کِجری وال کو فتح یاب تصور کرتے ہوئے تجزیہ کیا‘ میرے لئے حیران کن تھا۔ اس یقین کے ساتھ تو بھارتی تبصرہ نگار بھی نہیں لکھ رہے تھے۔ جس بات پر آج پورا بھارت بھونچکا ہے‘ وہ ہمارے ایڈیٹرانچیف نے سرکاری نتائج سے دودن پہلے لکھ دی تھی۔آج نتائج سامنے آنے کے بعد وہی کالم دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔(نذیر ناجی)
بھارت کی سابق اور موجودہ حکمران پارٹیوں نے جوسلوک‘ ایک سابق سرکاری ملازم اروند کِجری وال کو‘ سیاسی میدان میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کرکیا‘ وہ پاکستان اور بھارت کے تہذیبی اور سیاسی کلچر کا متوقع مظاہرہ تھا۔ پاکستان میں ایئرمارشل اصغرخان‘ ایمانداری اور عمدہ کردار کی مثال تھے۔ لیکن روایتی سیاستدانوں نے‘ انہیں کبھی اہمیت نہیں دی اور عوام بھی ایئرمارشل کے رکھ رکھائو کو دیکھتے ہوئے‘ ان کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ کِجری وال‘ کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے۔ انہوں نے انکم ٹیکس کی ملازمت چھوڑ کر‘ اناہزارے کی تحریک میں حصہ لیا اور اپنے انتھک کام کے باعث نمایاں ہو گئے۔ جب سابق بھارتی حکومت کے ساتھ‘ آئینی تبدیلیوں کے لئے اناہزارے نے مذاکرات کئے‘ تو ان کی ٹیم کے سب سے نمایاں رکن کِجری وال تھے۔ اناہزارے سیاست میں ملوث ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کو بھی عملی سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس لئے اناہزارے کے ساتھی کی حیثیت سے‘ کسی بڑی سے بڑی شخصیت نے بھی سیاست میں حصہ لینے کی جرأت نہیں کی۔ کِجری وال اور کرن بیدی بھی‘ سیاست سے دور رہنے کے اعلانات کرتے رہے۔ پہلے کِجری وال ‘ اناہزارے سے الگ ہوئے۔گزشتہ انتخابات سے چند ہی روز قبل عام آدمی پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کی۔ ان کے عوامی طورطریقوں ‘ انتھک محنت اور لوگوں میںگھل مل جانے کی عادت کو دیکھ کر‘ لوگ جلد ہی ان کی طرف مائل ہو گئے۔ جس تیزی کے ساتھ انہوں نے اپنے کارکنوں کو منظم کیا‘ وہ ان کی تنظیمی صلاحیتوں کی ایک روشن مثال ہے۔
2013ء میں دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوئے‘ تو بی جے پی اور کانگریس کے مابین انتخابی مقابلہ تھا۔ کِجری وال کو کسی نے اہمیت ہی نہیں دی۔ کانگریسی اور بی جے پی کے لیڈروں نے‘ انہیں حقارت سے دیکھتے ہوئے ‘ ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ میڈیا نے دہلی میں ان کی مقبولیت پر‘ سرسری سے تبصرے ضرور کئے‘ مگر انہیں انتخابی میدان میں کسی بھی سیاسی جماعت کا حریف نہ سمجھا۔ جب انتخابی نتائج آئے‘ تو بڑے بڑے جغادری سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ کہاں تو یہ بی جے پی اور کانگریس‘ دونوں دہلی میں حکومت بنانے کے لئے زور آزمائی کر رہی تھیں اور کہاں ایک ناقابل ذکر شخصیت‘ نئی پارٹی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہی تھی‘ وہ دونوں اسے خاطر میں نہیں لائے۔ میڈیا نے بھی جو بڑی مہربانی کی‘ وہ یہ تھی کہ ایگزٹ پول میں‘ اس پارٹی کو ایک یا دو نشستوں کی حیثیت دی۔ انتخابی نتائج نے نقشہ ہی پلٹ دیا۔ پتہ چلا کہ جس پارٹی کو نہ میڈیا خاطر میں لا رہا تھا اور نہ انتخابی مقابلے میں شریک‘ دونوں بڑی جماعتیں‘ اہمیت دے رہی تھیں‘ جس کلچری وال کے انتخابی نشان جھاڑو کو طنزومزاح کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور جو پیدل گلیوں میں گھوم کر‘ اپنے امیدواروں کے لئے ووٹ مانگتا پھرا‘ وہ 70 کے ایوان میں‘ سب سے زیادہ یعنی 28نشستیں لے کر اکثریتی پارٹی کا رہنما بن گیا۔ 28نشستوں کے ساتھ کِجری وال حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور انہیں دونوں روایتی پارٹیوں سے بھی کسی خیرکی امید نہیں تھی۔ دونوں ملک گیر پارٹیاں‘ دہلی کی اسمبلی میں اقلیتی پارٹیوں میں بدل چکی تھیں‘ مگر وہ کِجری وال کو پھر بھی‘ اہمیت نہیں دے رہی تھیں۔ ان دونوں کی باہمی دشمنی بھی ''ناقابل شکست‘‘ تھی۔ کانگریس کو صرف یہ ڈر تھا کہ اگر بی جے پی نے کِجری وال کو ساتھ ملا کر‘ حکومت بنا لی‘ تو دہلی میں کانگریس کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ یہ سوچتے ہوئے‘ کانگریسی قیادت نے کِجری وال کو غیرمشروط حمایت کی پیش کش کر دی۔
یہ کِجری وال کے لئے امتحان کا مرحلہ تھا۔ وہ دوبارہ الیکشن کرانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ آئین کے مطابق صرف منتخب وزیراعلیٰ ہی‘ اسمبلی توڑنے کی تجویز دے سکتا ہے‘ جس پر گورنر عملدرآمد کا پابند ہوتا ہے۔ کِجری وال نے دوہرا دائو لگایا۔ انہوں نے کانگریس کی پیشکش قبول کرتے ہوئے حکومت بنالی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ وزیراعلیٰ بنتے ہی وہ اسمبلی توڑنے کی تجویز پیش کر دیتے‘ تو دیگر اراکین اسمبلی‘ عدالت میں جا کر اس تجویز کو غیرآئینی قرار دلوا سکتے تھے۔ کیونکہ کوئی بھی حکومت حلف اٹھانے کے فوراً ہی بعد‘ بغیر کسی جواز کے اسمبلی توڑنے کا مشورہ نہیں دے سکتی۔ کوئی نہ کوئی جواز پیش کرنا پڑتا ہے۔ کِجری وال نے حکومت بنانے کے بعد‘ تیزی کے ساتھ کام کرنے کی کوششیں کیں۔ حسب توقع ہرطرف سے مزاحمت ہوئی اور کانگریس نے حمایت کا اعلان کرنے کے باوجود‘ کِجری وال کو قانون سازی نہیں کرنے دی۔ وہ خود مطلوبہ اکثریت سے محروم تھے اور کانگریس ان کی حمایت میں ووٹ دینے پر آمادہ نہیں تھی۔ دونوں ملک گیر اور تجربہ کار پارٹیوں نے‘ اس نئی حکومت کو خوب زچ کیا۔ 49دنوں کے بعد‘ کِجری وال نے دونوں جماعتوں کے منفی طرزعمل کو بنیاد بنا کر ‘ استعفیٰ دے دیا۔ کانگریس اور بی جے پی‘ دونوں ہی صوبے میں مخلوط حکومت بنانے سے ڈرتے تھے۔ 2014ء میں عام انتخابات آنے والے تھے۔ دہلی حکومت میں دونوں کولیشن بنا کر‘ ایک دوسرے کے خلاف انتخابی مہم نہیں چلا سکتے تھے۔ کِجری وال کے لئے میدان صاف تھا۔ انہوں نے اسمبلی توڑنے کا الزام بھی نہ لیا اور وزارت سے استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔
منموہن سنگھ کی حکومت کی مدت اقتدار ختم ہو رہی تھی۔ بی جے پی یہ مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں
تھی کہ دہلی میں فوری انتخابات کرائے جائیں۔ دونوں کی نگاہیں قومی انتخابات پر تھیں۔ وہی ہوا‘ جس کا اندازہ کِجری وال نے لگایا تھا کہ حکومت نے گورنرراج نافذ کر دیا۔ بھارت میں عام انتخابات ہوئے‘ تو بی جے پی فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو گئی۔ بی جے پی جو چند ہی ماہ پہلے دہلی کے انتخابات میں شکست کھا چکی تھی‘ اس نے دہلی میں اپنی پارٹی کو منظم اور مضبوط کرنے کی خاطر‘ انتخابات میں تاخیر کردی اور جب پارٹی قیادت کو یقین ہو گیا کہ اب وہ دہلی کا الیکشن آسانی سے جیت لے گی‘ تو اس نے 7فروری کو عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ جیسے ہی انتخابی مہم شروع ہوئی‘ جلد ہی بی جے پی کو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو گیا۔ وزیراعظم بننے کے بعد‘ بی جے پی نے نریندرمودی کا پتہ کھیل کر‘ تین ریاستوں کے صوبائی انتخابات جیت لئے‘ تو اس کا تکبر آسمانوں کو چھونے لگا۔ اب بی جے پی والوں کا تکیہ کلام بن گیا کہ ہمیں تو ووٹ مودی کے نام پر ملتے ہیں۔ بی جے پی کی مقامی قیادت نے‘ پارٹی کے کسی مقامی لیڈر کو وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی حیثیت میں الیکشن لڑانے کی تجویز دی‘ مودی اور ان کے مشیروں نے ‘ اپنے ہی لوگوں کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ کرن بیدی کو اپنی پارٹی کی طرف سے‘ وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنا کر میدان میں اتار دیا۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ و وٹ مودی کے نام کو ملیں گے اور کرن بیدی‘ کِجری وال کی طرح اناہزارے کے کیمپ سے آئی ہے۔ اس حوالے سے‘ وہ عام آدمی پارٹی کے ووٹ بھی توڑ لے گی‘ لیکن جیسے ہی کرن بیدی نے دہلی کے انتخابی حلقوں کا دورہ کیا‘ نتائج امیدوں کے برعکس نکلے۔ بی جے پی کے جو مقامی لیڈر‘ وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے اور جنہوں نے 14سال تک دہلی میں رہ کر ‘ کانگریسی حکومت کا مقابلہ کیا تھا‘ وہ سب بددل ہو کر‘ انتخابی مہم سے لاتعلق ہو گئے۔ وہ صرف کرن بیدی کے جلسے جلوسوں میں نظر آتے‘ مگر انہوں نے اپنے کارکنوں کو ووٹ دینے کے لئے نہیں کہا اور بعض پرانے کارکن بھی پارٹی سے باہر کی امیدوار کو ذہنی طور پر قبول نہ کر سکے۔ ان میں سے اکثر نے خاموشی کے ساتھ کِجری وال کو ووٹ دے دیئے۔ دوسری طرف کانگریس کے حامیوں کو اپنی پارٹی کی عبرتناک شکست کا ایک تجربہ ہو چکا تھا‘ وہ دوبارہ ہزیمت سے بچنا چاہتے تھے۔ ان میں سے کچھ انتخابات سے لاتعلق رہے اور جو زیادہ جوشیلے تھے‘ انہوں نے بی جے پی کو ہرانے کے لئے‘ اپنے ووٹ کِجری وال کو دے دیئے۔ دوسری طرف کِجری وال نے 49دنوں میں دہلی کے شہریوں کو جو براہ راست فوائد پہنچا دیئے تھے‘ ان کی مثالیں پیش کر کے‘ کِجری وال نے یہ کہہ کر لوگوں کا اعتماد حاصل کیا کہ اگر مجھے فیصلہ کن اکثریت مل گئی‘ تو میں دہلی کی قسمت بدل دوں گا۔ آخری بات یہ کہ کانگریسی اور بی جے پی کے لیڈروں نے‘ کِجری وال پر الزامات کی دوطرفہ بوچھاڑ جاری رکھی اور وہ اپنے عوامی انداز میں جس الزام کا جواب دے سکتے‘ دیتے رہے اور باقی ہر الزام کے جواب میں‘ ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگتے رہے۔ تکبر کے مقابلے میں عاجزی‘ عوام کو ہمیشہ پسند آتی ہے۔ عاجزی‘ خدا کو بھی پسند ہے۔ جس سے عوام اور خدا دونوں راضی ہو جائیں‘ اسے کون شکست دے سکتا ہے؟ کِجری وال کی جیت‘ عاجزی کی جیت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved