ہم ہر سال 5 فروری کو کشمیر کے ساتھ یوم یکجہتی بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اس موقع پر ہم مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ان کی جدوجہد آزادی میں پاکستان کی مکمل حمایت اور اتحاد کی یقین دہانی کراتے اور کشمیر کی آزادی کے لیے جانیں قربان کرنے والے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے، سنجیدہ نوعیت کا یہ سالانہ دن، ہم محض ایک روایت پوری کرنے کے لیے مناتے آ رہے ہیں۔ اس دن ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے، کہیں کہیں احتجاجی ریلیاں اور اجتماع بھی منعقد ہوتے ہیں، لیکن ان میں کشمیری عوام کی جائز جدوجہد آزادی کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ بحیثیت قوم، ہم عام چھٹی کا یہ دن زیادہ تر گھر بیٹھے روایتی انداز میں گزار دیتے ہیں، ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ اس دن کی اہمیت کیا ہے اور یہ کیوں منایا جاتا ہے؟
اس دن بالعموم جلوس نکالے جاتے ہیں، مساجد میں کشمیر کی آزادی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی جاتی ہیں اور کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اور تسلط کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے آزاد جموں و کشمیر کے داخلے کے تمام راستوں پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے کے سوا ہمارے بڑے شہروں میں اتحاد و یکجہتی کا کوئی ایسا عوامی مظاہرہ نظر نہیں آتا جس سے کشمیری عوام کو یقین دہانی کرائی جا سکے کہ وہ اپنی جدوجہد آزادی میں تنہا نہیں ہیں؛ البتہ اس سال عمومی روش تبدیل ہوئی اور یوم کشمیر پر ملک میں تمام سطحوں پر کشمیر کاز کے لیے خصوصی جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا۔
وزیر اعظم نواز شریف آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کے لیے مظفر آباد گئے اور یہ عزم دہرایا کہ پاکستان، کشمیر کے حق خود اختیاری کے لیے ان کی جائز جدوجہد میں اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا اور ان کی خواہشات کے منافی کوئی فیصلہ قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا: ''استصواب رائے کے سوا تنازع کشمیر کا کوئی حل نہیں ہے۔ میں پوری دنیا پر واضح کرتا ہوں کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن، تنازع کشمیر کے حل سے وابستہ ہے‘‘۔ یہ ان کے بھارتی ہم منصب کو بروقت ایک واضح پیغام تھا‘ جو اس لیے بھی ضروری تھا کہ گزشتہ برس نئی دہلی میں مودی کی تقریب حلف برداری میں نواز شریف کی غیر ضروری خیر سگالی شرکت کا‘ انہوں نے غلط مطلب اخذ کرلیا تھا۔
نریندر مودی پر واضح ہو جانا چاہیے کہ سخت گیر رویہ اپنانے سے حقائق تبدیل نہیں ہو جایا کرتے۔ کشمیر بین الاقوامی طور پر ایک مسلمہ تنازع ہے جو چھ عشروں سے زیادہ عرصے سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ جون 1947ء کے برصغیرکی تقسیم کے منصوبے(Partition Plan) جس پر ابھی تک عمل نہیں ہوسکا کے علاوہ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں کشمیری عوام کی خود مختاری سے متعلق بنیادی حق شامل ہے اور بین الاقوامی برادری کے علاوہ بھارت اور پاکستان دونوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کے تحت انہیں یہ حق دلانے کا عہد کر رکھا ہے۔ یہ ایک ایسا غیر حل شدہ پرانا بین الاقوامی تنازع ہے جس کے علاقائی اور عالمی امن پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
آزادی کے وقت، بھارت اور پاکستان کو بہت سے مسائل وراثت میں ملے، لیکن تنازع کشمیر ان سب کی جڑ ہے۔ 1948ء کا تصادم، 1965ء کی جنگ، سیاچن کا تنازع، کارگل کا بحران، سرحدوں پر بار بار جنگی نوعیت کی فوجی صف بندی، پانی کے فزوں تر جھگڑے اور پاکستان کے غیر مختتم تزویراتی خوف و خدشات، سب کا تعلق براہ راست مسئلہ کشمیر سے ہے۔ دونوں ملک آج تک کنٹرول لائن پر آئے روز کی جھڑپوں کے باعث تصادم (جنگ) جیسی حالت میں رہتے ہیں۔ اگرچہ دوسرے مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں، لیکن مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے علاوہ کشمیری عوام مسلسل شدید اضطراب میں رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی تازہ ترین اپیل (Call) جون 1998ء میں بھارت اور پھر پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے بعد، ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے کی، جس میں دونوں ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ تمام متنازعہ معاملات پر مذاکرات بحال کریں اور کشمیر سمیت ان کی اصل وجوہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کریں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ آج عالمی برادری کشمیر کو نیوکلیئر فلیش پوائنٹ سمجھتی ہے (یعنی ایسا مسئلہ جس کے پُرامن طور پر حل نہ ہونے کے باعث ایٹمی جنگ بھی ہو سکتی ہے) دنیا جانتی ہے کہ جب تک کشمیر، بھارت کے فوجی تسلط میں رہے گا، جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس سے اُن کشمیری عوام کا مستقبل وابستہ ہے جو تقریباً ستر سال سے اپنے بنیادی حق خود اختیاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
غیر طے شدہ تنازع کشمیر، آج کی دنیا کے لیے ایک ایسی افسردہ و مایوس کن یاددہانی ہے کہ کشمیری عوام تاحال اپنی بنیادی اقدار اور آزادیوں سے محروم ہیں۔ وہ عالمی طاقتوں کی اس مسئلے سے لاتعلقی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکامی کو بجا طور پر اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی بدعہدی سمجھتے ہیں‘ لیکن ان کا عزم کمزور نہیں ہوا، وہ کرفیو اور بار بار فوجی کریک ڈائون کے باوجود بھارتی فوج کے تسلط سے نجات کے لیے سڑکوں پر نکلتے رہتے ہیں۔ ہزاروں کشمیری، آزادی کے لیے اپنی جرأت مندانہ جدوجہد کے دوران جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ بے تحاشا مظالم اور اہانت و تحقیر کے تمام تر حربے انہیں اپنے جائز حقوق کی بازیابی کے راستے سے ہٹا نہیں سکے۔
نو آبادیاتی دور کے بعد اقوام متحدہ کے کئی اعلامیوں کے ذریعے ایک ایسا بین الاقوامی قانون معرض وجود میں آ گیا ہے‘ جس کے تحت نو آبادیاتی یا بیرونی تسلط سے چھٹکارے اور حق خود ارادیت کے حصول کی خاطر جدوجہد کرنے والی اقوام (لوگوں) کی حمایت، حتیٰ کہ فوجی حمایت فراہم کرنے کو قانونی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوںکو نظر اندازکرنا ایک بات ہے، لیکن اس میں مضمر اصول کا انکار یکسر دوسری نوعیت کا معاملہ ہے۔ خود ارادیت کا مقدس اصول پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ کشمیر کا تصفیہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا لازمی ہے۔ یہ تصفیہ ایسے حالات میں ہو کہ تنازع کا تعین غیر جانبداری سے کیا جائے اور وہ (کشمیری) ظلم و جبر اور خوف سے آزاد ہو کر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ اگر بھارت ازخود نوشتہ دیوار پڑھ لے تو یہ اس کے لیے بہتر ہو گا۔
مقبول تحریکوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔ ظالمانہ فوجی طاقت کسی کو سکھ نہیں پہنچا سکتی۔ تاریخ میں اس کے واضح سبق موجود ہیں۔ آج کی واحد سپر پاور کا وجود بھی جنگ آزادی کا مرہون منت ہے۔ مودی خود اپنے ملک کی تاریخ سے انکار نہیں کر سکتے۔ 1857ء کی جنگ آزادی نے ہی انڈیا کی آزادی کی بنیاد رکھی اور بھارت ایک آزاد ریاست بنا۔ آج غلط طریقے اور زبردستی، آزادی سے محروم کیے گئے کشمیریوں کی آواز، بھارت اور دنیا بھر کے ضمیر کو چیلنج کر رہی ہے۔ وہ اپنے حق خود اختیاری کے طلب گار ہیں۔ اب وقت ہے کہ بھارت عدل و انصاف اور فیئر پلے کی طرف پلٹ کر دانشمندی اور قانون کا راستہ اپنائے۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے، یہ وقت مسئلہ کشمیر سے اغماض اور مکمل بے گانگی ترک کرنے کا متقاضی ہے۔ روایتی طور پر چھٹی کرنے اور اظہار یکجہتی کی ریت منانے سے کشمیری عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ بھارت نے اپنے موقف میں کبھی ذرہ برابر تبدیلی نہیں کی، لیکن نائن الیون کے بعد ہمارے حکمران اپنے مفادات کی خاطر یکطرفہ طور پر لچک کے اشارے دیتے رہے ہیں۔ بدقسمتی ہے وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کشمیر محض جاگیر کا ٹکڑا (real estate) یا جغرافیائی حد بندی کے از سر نو تعین کا معاملہ نہیں؛ بلکہ یہ کشمیری عوام کے ناقابل تردید حق خود ارادیت کا ہے، جو انہیں دلانے کا عہد بین الاقوامی برادری اور بھارت و پاکستان دونوںکر چکے ہیں۔
کشمیر کاز کے ساتھ ہماری کمٹمنٹ کی جڑیں قانونی اور اخلاقی موقف میں پیوست ہیں، جسے ہمارے حکمران محض امن کی خاطر، جو ناقابل حصول ہے، صرف خیر سگالی یا اعتماد سازی کے اقدامات اختیار کر کے اپنے اصولی موقف سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔ آزادانہ اور شفاف استصواب رائے مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی رُو سے بھارت اور پاکستان اس کے پابند ہیں۔ اس منزل کے حصول تک ہمیں ہر بین الاقوامی فورم میں کشمیر کاز کی خاطر آواز بلند کرتے رہنا چاہیے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)