تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     11-02-2015

معاملہ جو دو وقت کی روٹی سے شروع ہوا

یہ خوشگوار تجربہ پہلی بار لاہور میں ہوا۔ 
چند برس پہلے کی بات ہے۔ ایک عزیز کے ہاں ٹھہرا۔ نمازِ جمعہ کے لیے ساتھ والی مسجد میں جانا ہوا۔ مولوی صاحب کی تقریر سن کر تعجب ہوا۔ اول سے آخر تک ایک ہی موضوع تھا‘ غالباً نکاح شادی۔ لگتا تھا اس موضوع پر پوری تحقیق اور خاصی تیاری کر کے آئے ہیں۔ سارے ضروری مسائل بیان کیے۔ اس ضمن میں کلام پاک کی کیا ہدایات ہیں‘ حدیث نبویؐ میں کیا کیا ارشادات ہیں‘ ایک ایک پہلو پر روشنی ڈالی۔ کوئی سیاسی بات درمیان میں کی‘ نہ فرقہ وارانہ شوشہ چھوڑا۔ 
میزبان سے اس خوشگوار تاثر کا ذکر ہوا تو انہوں نے وجہ بیان کی۔ یہ ایک عسکری رہائشی کالونی تھی۔ تمام مساجد کا انتظام ہائوسنگ اتھارٹی خود کر رہی تھی۔ چندہ لینے یا دینے کا کوئی سلسلہ نہ تھا۔ خطیب‘ موذن اور خادم کی تنخواہ اور تین وقت کا کھانا سوسائٹی کے ذمے تھا۔ انتظامیہ خطبۂ جمعہ کے لیے موضوع کا انتخاب کرتی تھی‘ خطیب تیاری کر کے آتا تھا۔ فرقہ وارانہ اور سیاسی زہر گھولنے کی اجازت ہی نہ تھی۔ مسجدیں صاف ستھری! سردیوں میں گرم رکھنے کا انتظام‘ گرمیوں کے لیے ایئرکنڈیشنر۔ محراب کے اردگرد‘ دیواروں پر‘ باہر پیشانی پر‘ کوئی ایسی تحریر نہ تھی کہ کسی مخصوص گروہ کی چھاپ لگے۔ سب سے زیادہ تعجب یہ سن کر ہوا کہ ایک معقول عرصہ کے بعد خطیب کا مسجد سے تبادلہ ہو جاتا ہے۔ وہ کسی اور مسجد میں تعینات ہو جاتے ہیں‘ ان کی جگہ کوئی اور عالم دین آ جاتے ہیں۔ بحریہ ٹائون کی مساجد میں بھی‘ مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہی طریقہ ہے۔ چندہ‘ نہ نمازیوں کی مداخلت‘ نہ کوئی مسجد کمیٹی! مولوی صاحب کو ضرورت ہی نہیں کہ کسی کو خوش رکھیں اور ''مخیر‘‘ حضرات کے آگے پیچھے پھریں۔ اس اذیت سے بھی گزرنے کی ضرورت نہیں کہ خلف الرشید کو جانشینی کے لیے تیار کریں اور اس مقصدِ جلیلہ کے حصول کے لیے ''جنگ اور محبت میں سب جائز ہے‘‘ کے اصول پر عمل پیرا ہوں! 
سوال یہ ہے کہ کیا عسکری ہائوسنگ اتھارٹیوں اور بحریہ ٹائون میں کامیابی سے چلنے والے اس ماڈل کا اطلاق باقی ملک پر نہیں ہو سکتا؟ نہیں! ہرگز نہیں! اس لیے کہ معاملہ مفادات کا ہے۔ مفادات کے ڈانڈے مالیات سے ملتے ہیں۔ یوں ہم اس محدود موضوع سے نکل کر ایک ہمہ گیر مسئلے کا سامنا کرتے ہیں اور وہ ہمہ گیر مسئلہ ہے مالی منفعت کے لیے مذہب کا استعمال۔ افسوس! یہ مالی منفعت بڑھتے بڑھتے‘ پھیلتے پھیلتے زراندوزی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مذہب کا استعمال اس حوالے سے دوچند ہو جاتا ہے۔ ظفر علی خان کا مشہور شعر ہے ؎ 
جسے آتی نہیں روٹی کمانی 
وہ کر لیتا ہے مسجد کی امامت 
لیکن اس ملک میں مذہب کا استعمال جلبِ زر کے لیے اس قدر بڑھا کہ بیچارہ مسجد کا امام تو فرشتہ لگنے لگا۔ دو وقت کی روٹی‘ سال بھر کے لیے اکٹھا کیا گیا غلہ اور رہائش کے لیے ایک حجرہ تو بنیادی طور پر معصومیت اور فقیری کے زمرے میں آتا تھا۔ پھر ہر مسجد کے ساتھ ''تعلیمی ادارہ‘‘ بھی بننے لگا۔ اس کے لیے زمین کا ''حصول‘‘، تعمیر کے لیے وسائل کی ''تلاش‘‘۔ پھر دور دراز کے علاقوں سے طلبہ کی درآمد۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے ایک نئی سائنس وجود میں آ گئی۔ ایک نیا فن ایجاد ہوا۔ ماہرین پیدا ہو گئے جو اس فن کے ایک ایک پہلو سے آگاہ کرنے اور رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے لگے۔ 
پھر معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ گیا۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ افغان جہاد آ گیا۔ حصولِ زر کے لیے مذہب کا استعمال ایک انڈسٹری‘ ایک صنعت بن گیا۔ اقتصادیات کی زبان میں اسے Boom کہتے ہیں۔ یعنی بازار میں تیزی آ گئی۔ بوم کا مطلب تو ہر پڑھے لکھے شخص کو معلوم ہی ہے۔ ٹیکنیکل تعریف جاننے کے لیے اکنامکس کی ڈکشنری دیکھی تو تعریف بالکل سپاٹ اور بے رنگ لگی۔ مگر جیسے ہی افغان جہاد کو ذہن میں رکھ کر تعریف دوبارہ دیکھی تو چودہ طبق روشن ہو گئے: 
"A period of significant output within a population. The period is marked by productivity increases, sales increases, wage increases and rising demand". 
یعنی ''پیداوار‘‘ میں خاطر خواہ اضافہ! ''بِکری‘‘ میں اضافہ! مزدوری (محنتانہ) کے ریٹ میں اضافہ! اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ! آسمان کی طرف اٹھتی ہوئی طلب!! دنیا بھر کے جنگ جو اکٹھے کیے گئے۔ مدارس کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اسلحہ کی تعداد ملک میں میسر اناج‘ دودھ اور ادویات کی مقدار سے بڑھ گئی۔ دولت کی وہ ریل پیل ہوئی کہ سنبھالنے کے لیے مجاہدین کو نام تک بدلنے پڑے۔ فنڈ مہیا کرنے والے ملک کو مسلک کے اعتبار سے ایک نام قابلِ قبول نہیں تھا؛ چنانچہ خفیف سی ترمیم کرنا پڑی۔ مبینہ طور پر حساب کتاب ''درست‘‘ کرنے کے لیے اوجڑی کیمپ کو درمیان میں لانا پڑا۔ مذہب کو استعمال کرنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری اہلکاروں کی اولاد آج بھی صنعت کاروں‘ سیاست دانوں اور رہنمائوں کے لبادے اوڑھے ہماری رہنمائی کر رہی ہے!! اسلحہ اور منشیات کا تحفہ مسلسل انڈے بچے دے رہا ہے! 
پھر معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ گیا۔ افغان جہاد میں لڑانے والے مذہب کو خوب خوب استعمال کر رہے تھے۔ مگر کم از کم لڑنے والے اپنے تئیں صدقِ دل سے جانیں قربان کر رہے تھے۔ آج کا منظرنامہ کچھ اور ہے۔ دو دن پیشتر روزنامہ ''دنیا‘‘ نے خبر دی ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں سرکاری رہائش گاہوں کی پرانی الاٹمنٹس منسوخ کر کے نئے الاٹیوں سے بھاری رقوم وصول کی جا رہی ہیں۔ متعلقہ وزارت میں گینگ بنے ہوئے ہیں۔ الاٹمنٹ سے لے کر قانونی رائے‘ مخبری اور قبضہ تک کے مراحل کے لیے دس لاکھ روپے فی کیس طے کیا جاتا ہے۔ جو سرکاری ملازم پہلے سے رہ رہے ہیں ان کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کے لیے کسی وجہ کا ہونا یا بتانا ہرگز ضروری نہیں! سابقہ الاٹی کے نام ایک چٹھی ٹائپ کی جاتی ہے کہ ''مجاز اتھارٹی‘‘ کی جانب سے آپ کی الاٹمنٹ منسوخ کر کے فلاں صاحب کو الاٹ کردی گئی ہے اور آپ چودہ دنوں کے اندر گھر خالی کردیں۔ تاہم یہ خط بھجوایا نہیں جاتا۔ وزارت کی فائل ہی میں رہتا ہے۔ چودہ دن گزرنے کے بعد رات گئے الاٹی کے گھر نوٹس پھینکا جاتا ہے جس کے بعد یا تو مکان خالی ہو جاتا ہے یا مقدمہ بازی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ نے جب متعلقہ وفاقی سیکرٹری سے بات کی تو اس نے بتایا کہ یہ سارے 
اختیارات تو وفاقی وزیر کے پاس ہیں۔ وفاقی سیکرٹری کا ان الاٹمنٹوں یا منسوخیوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ الاٹمنٹ آرڈروں میں یہ جو لفظ ''مجاز اتھارٹی‘‘ لکھا جا رہا ہے تو یہ وزیر ہائوسنگ کے لیے ہے۔ 
یہ ہے جلبِ زر کے لیے مذہب کے استعمال کی انتہا! بچے سے لے کر بوڑھے تک ملک کے ہر اُس شخص کو جو ملکی حالات سے باخبر رہتا ہے معلوم ہے کہ یہ وزارت ایک ایسی سیاسی جماعت کی ہے جو مذہب کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہے۔ اس جماعت کی شہرت بھی جانی پہچانی ہے۔ اس وزارت کے لیے ہمیشہ کا اصرار بھی دنیا بھر کے علم میں ہے۔ میڈیا کی یہ خبر اس ملک کی بدبختی کے لیے تابوت کے آخری کیل سے کم نہیں! کوئی بھی اور جماعت ہوتی یا اس کا نمائندہ تو ان الزامات کے ردعمل میں سیدھا عدالت کا رُخ کرتا۔ ایک سول سرونٹ نے گزشتہ ہفتے ہی بتایا کہ اس کی رہائش کے لیے سرکاری ہوسٹل کا کمرہ الاٹ ہوا۔ فائل سارے مراحل طے کر کے سیکرٹری سے ہوتی ہوئی‘ وزیر کے دفتر پہنچی۔ وہاں بیک جنبشِ قلم سول سرونٹ کا نام کاٹ کر ایک اور نام لکھ دیا گیا۔ المیہ دیکھیے کہ وزیراعظم وفاقی دارالحکومت کے بازار میں تو ''اچانک‘‘ تشریف لے جاتے ہیں جہاں ''اتفاق‘‘ سے میڈیا کے نمائندے تصویریں لینے کے لیے موجود ہوتے ہیں مگر اس وزارت میں نہیں تشریف لے جاتے جو ان کے دفتر اور ان کے سرکاری محل سے چند قدم کی مسافت پر ہے۔ یہ تو دور کی بات ہے۔ عملی طور پر معاملہ اس کے الٹ ہے۔ آئے دن ون ٹو ون ملاقات کی تصویریں سامنے آتی ہیں۔ دستِ راست پھر دستِ راست ہی ہوتا ہے۔ 
مذہب کا استعمال کہاں سے چلا تھا! دو وقت کی روٹی‘ سال بھر کے غلہ اور رہنے کے لیے ایک حجرہ! کہاں جا پہنچا! کرپشن‘ کرپشن اور سرِعام کھلم کھلا کرپشن!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved