تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-02-2015

شیطان اور انسان

شیطان اور انسان کا موازنہ کیا جائے تو سب سے بڑی برتری شاید یہی ہے کہ ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔ قرآن میں لکھا ہے: بے شک وہ (شیطان ) اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں ، جہاں تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ (مفہوم)۔ شیطان اور اس کی اولاد کو اگر ہم دیکھ رہے ہوتے تو صورتِ حال یقینا مختلف ہوتی ۔ آدمؑ کو سجدے سے انکار پر خدا نے اس پر لعنت کی توفوراً اس نے مہلت طلب کی ۔ آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کرنے کا عزم کیا ۔ یہ کہا کہ میںاوپر نیچے، دائیں بائیں ہر طرف سے ان پر آئوں گا۔ابلیس ہمارے کان میں پھونک سکتاہے ۔ وہ خدا کی طرف سے ممنوع ٹھہرائے گئے ایسے کاموں کی طرف ہمیں متوجہ کرتاہے ، جو نہایت پر کشش ہیں ۔بالخصوص اس وقت ، جب انسانی ذہن دبائو کا شکار ہو ،اس کا وار کم ہی خالی جاتاہے ۔ 
ایک بڑا بنیادی سوال یہ ہے کہ گناہ پرکشش کیوں ہیں ؟ اس کا تعلق ہماری بناوٹ، انسانی تشکیل میں چھپا ہے۔ مخالف جنس کو چھوتے ہی آپ کی جلد میں موجود حسی خلیے لطیف لمس کا احساس جلد کے نیچے موجود باریک تاروں (Nerves)کے ذریعے ریڑھ کی ہڈی تک پہنچائیں گے اور وہ یہ پیغام دماغ کو بھیج دے گی۔ دماغ میں تب ایک بڑے پیچیدہ کھیل کا آغاز ہو گا۔ایک سانپ یا نچلے درجے کا جانور بڑا مختصر سا دماغ رکھتاہے ۔ یہ ہمارے دماغ کے اس سب سے نچلے حصے برین سٹیم سے مشابہت رکھتاہے ، جہاں دماغ ریڑھ کی ہڈی سے منسلک ہے ۔ جانور میں وصل کے اس سارے عمل کے دوران عقل اور یادداشت ملوث نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانور مادہ کو دیکھتے ہی اس کی طرف لپک پڑے گا۔ ہر مادہ کو دیکھ کر اس کا طرزِ عمل یہی ہوگا۔ ہر صورت اپنی خواہش پوری کرنے کی وہ کوشش کرے گا۔ رینگنے والے جانداروں میں تولیدی افعال برین سٹیم ہی کی مرہونِ منّت ہیں ۔ 
انسانوں میں یہ سب بہت پیچیدہ ہے ۔ یہاں نہ صرف زندگی برقرار رکھنے والا برین سٹیم متحرک ہوگا بلکہ جذبات والا حصہ لمبک سسٹم اور عقل رکھنے والا دماغ سیری برم اور کارٹیکس بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ خواہش کے باوجود ایک سمجھدار آدمی اجنبی خاتون سے کنارہ کشی اختیار کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جانوروں کے برعکس ہم شادی کرتے اور اجنبیوں کے ساتھ تعلقات سے گریز کرتے ہیں ۔ اس ساری بحث کا حاصل بہرحال یہی ہے کہ خواہشات کا منبع ہمارا اپنا ذہن ہے ۔ ناجائز انداز میں ان کی تکمیل ہی وہ مسئلہ ہے ، جہاں ہم مات کھا تے ، نیچ ہو جاتے ہیں ۔ 
پروفیسر احمد رفیق اختر سے پوچھیے تو وہ یہ کہیں گے: اتنا خطرہ ہمیں شیطان سے نہیں ، جتنا کہ اپنے نفس، اپنی جبلّتوں سے ۔ کروڑوں سال میں یہ عادتیں پختہ ہو چکیں۔ سوائے خدا کو تھام لینے ، سوائے عقل سے کام لینے کے کوئی اور رستہ ہمارے پاس نہیں ۔ جہاں تک شیطان کا تعلق ہے ، وہ غلط کاری پہ ہماری توجہ دلا سکتاہے ۔ حتمی فیصلے میں بہرحال دماغ کی تشکیل سب سے اہم ہے ۔ جبلّتیں ہمارے دماغ ہی میں پوشیدہ ہیں ۔ 
اب آجائیے انسان ، فرشتوں اور شیطان کے تقابل پر ۔ فرشتوں نے جب انسان کو زمین پہ نائب بنانے پہ اعتراض کیا تو اپنے تئیں وہ درست تھے۔انسانی اور حیوانی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ آج سے تقریباً بیس کروڑ سال پہلے زمین پہ پیچیدہ جانور گھومتے پھرتے تھے ۔ انہی میں دو ٹانگوں والے ہمارے اجداد بھی تھے ۔ کسی حد تک عام جانوروں سے وہ برتر تھے لیکن اس ساری ذہنی برتری کا اظہار قتل و غارت ہی میں ہوا کرتا۔ جو استعداد آدمؑ میں خدا پیدا فرما رہا تھا، فرشتے اس سے لا علم تھے ۔ یہ بات انہیں معلوم نہ تھی کہ جس انسان کو خدا اپنا خلیفہ مقرر کرنے جا رہا ہے ، اس کے زمین پہ اترنے کے ساتھ ہی اس کا اوپر والا دماغ (سیری برم +کارٹیکس )انتہائی خوبصورت اور پیچیدہ شکل اختیار کر جائے گا۔
تو خدا نے یہ کہا: جو میں جانتا ہوں ، وہ تم نہیں جانتے۔ بہت سے لوگ یہاں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا نے آدم ؑ کو وہ کلمات سکھائے، جن کی بنیاد پر انہیں سبقت حاصل ہوئی ۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پہلے اس نے سیکھنے کی استعداد پیدا کی۔ پھر تعلیم دی ۔فرشتوںمیں یہ صلاحیت ہی نہیں تھی۔
یہاں شیطان کا مقدمہ دیکھیے تو وہ انتہائی کمزور ہے ۔ اس نے کہا کہ آگ بہتر ہے مٹی سے ۔ مٹی میں زندگی کی بنیاد بننے والے عناصر موجود تھے ، پانی میں ایک دوسرے سے تعامل کرتے ہوئے وہ اس قدر پیچیدہ ، اس قدر خوبصورت شکل اختیار کر گئے تھے ۔ سوال آگ کی مٹی پر سبقت کا نہیںتھا۔سوال آگ سے بنے جاندار کی مٹی سے بنے جاندارپہ برتری کا بھی نہیں تھا۔زندگی کی یہ دو اقسام ذہنی صلاحیت میں ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ آدم کی اولاد کو ارادہ و اختیار دیا جانا تھا ۔ وہ بھی اس صورت میں کہ گناہ اس کے لیے پر کشش تھے اور خداکو مکمل طور پر پردے میں چلے جانا تھا ۔ 
شیطانی جہالت کی انتہا دیکھیے کہ خدا کے روبرو اس نے تکبر اور انکار کیا ۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ سارے علم کا مالک ، ساری کائناتوں ، اس کا اور آدم کا خالق ہے ۔ دوسری طرف آدمؑ کو دیکھیے تو ممنوعہ شجر کو چھونے کی غلطی اپنی جگہ، کسی خدائی حکم سے انکار کی قطعاً اس نے حماقت نہیں کی۔ غلطی کی ، توبہ کا قرینہ سیکھا اور جھک گیا۔ 
فرض کیجیے ، آج میں دو روبوٹ تخلیق کرتا ہوں ۔ ایک کے اند رلگا الیکٹرانک سرکٹ اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ اپنے کیمرے کی مدد سے وہ میرا چہرہ پہچانے اور میرے احکامات کی تکمیل کرتا رہے ۔ دوسرے کو میں ایک خاص قسم کی مصنوعی ذہانت سے نواز کر خود روپوش ہو جاتا ہوں ۔ اس کے اندر میں ان افعال کی محبت بھی پیدا کر دیتا ہوں ، میرے لیے جو ناگوار ہیں ۔اولاد ، تلاشِ رزق او ربیماری کی صورت میں ، میں اس کے لیے امتحان در امتحان تخلیق کرتا ہوں ۔ اب اگر ان تمام حالات کے ہوتے ہوئے ، مصنوعی ذہانت کے بل پر وہ مجھے تلاش کرتا اور اپنی خواہش پہ میری خواہش کو ترجیح دیتا ہے تو بہتر کون ہوا ؟شیطان کو تو کسی امتحان سے گزارا ہی نہیں گیا۔ واحد امتحان شاید انسانی برتری کے سامنے سرجھکانا تھا اور وہ اس میں ناکام ہوا۔ ناکام بھی ایسا کہ کروڑوں برس سے اپنی ضد پہ ڈٹا ہوا ہے ۔ 
اپنی کمزوریوں ، کوتاہیوں اور گناہوں سے قطع نظر ، آئیے ایک لمحے کے لیے آج اپنے رب کے سامنے سربسجود ہوں ۔ آئیے اس سے محبت کا اظہار کریں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved