تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-02-2015

عام آدمی کا چمتکار

کوئی بھی نظریہ، کوئی بھی فلسفہ جب ہماری سرزمین پر قدم رکھتا ہے تو اپنی ماہیت بدل لیتا ہے یا پھر ہم ہی اُسے تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں۔ دُنیا بھر میں جدیدیت کا خواہ کچھ مفہوم ہو اور لبرل اِزم خواہ کسی بلا کو کہا جائے، ہمارے ہاں جدیدیت اور لبرل اِزم سے مُراد صرف یہ ہے کہ ہر طرح کی شائستگی کو خیرباد کہتے ہوئے اور ہر نوع کی اعلیٰ اقدار سے کنارہ کش ہوتے ہوئے صرف عریانیت کو اپنالیا جائے! یہی سبب ہے کہ ہم نظریاتی سطح پر جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ انتہائی بھونڈا دکھائی دیتا ہے۔ ہر معاملے میں سطحیت جھلکتی ہے۔ 
جمہوریت ہی کی مثال لیجیے۔ دُنیا بھر میں جمہوریت کا مفہوم ہے‘ وہ حکومت جو عوام کی آراء کی بُنیاد پر قائم ہو اور عوام کی مرضی کے مطابق ہی چلائی جائے۔ ہمارے ہاں اور بہت سے فلسفوں اور نظریوں کی طرح جمہوریت کو بھی محض جلبِ منفعت کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والے ہر وقت زیادہ سے زیادہ یافت کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اُنہیں اِس بات سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ سیاست کا بنیادی اور حتمی مقصد بہبودِ عامہ کو یقینی بنانا ہے۔ جن کی بہبود کے لیے ووٹ ملتے ہیں‘ اُنہی کو نابود کرنے کے منصوبے تیار ہوتے رہتے ہیں! 
جمہوریت کی بقاء اور استحکام کے نام پر قائم ہونے والی حکومتوں نے ہمارے سیاسی چمن میں اِتنے اور ایسے گل کِھلائے ہیں کہ جمہور یعنی عوام محض ''بچہ جمورا‘‘ ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کے بچے جمورے یعنی عوام جنہیں ووٹ دیتے ہیں وہ جواب میں یقین دہانیاں کراتے ہیں، وعدے اور دعوے کرتے ہیں اور پھر ایسے اُڑن چُھو ہوجاتے ہیں کہ اسمبلیوں کی میعاد پُوری ہونے تک دِکھائی نہیں دیتے! بجلی تو دو تین یا پھر چار چھ گھنٹے میں واپس آجاتی ہے، منتخب نمائندے درشن دینے کے معاملے میں کئی کئی ماہ کی بلکہ برسوں کی لوڈشیڈنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ 
دہلی کی (ریاستی) اسمبلی کے الیکشن میں اروند کِجری وال نے پھر کمال کر دکھایا ہے۔ 2013ء کے آخر میں بھی اُنہوں نے عام آدمی کے پلیٹ فارم سے اصلاحات کا نعرہ لگایا تھا اور کامیابی حاصل کی تھی مگر بھرپور کامیابی نہ مل پانے کے باعث وہ کوئی جادو جگانے میں ناکام رہے تھے۔ مگر محض 49 روزہ اقتدار میں بھی کِجری وال نے ایسا کچھ تو کر ہی دیا تھا جو عوام کو سوچ بدلنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوا۔ اب اروند کِجری وال کو ایسی بھرپور کامیابی درکار تھی جس کی مدد سے وہ کوئی جادو جگاسکیں، کوئی چمتکار دکھاسکیں۔ اور دہلی کے ووٹرز نے چمتکار کی راہ ہموار کرتے ہوئے گیند عام آدمی پارٹی کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ 
دہلی اسمبلی کے الیکشن میں عام آدمی پارٹی نے مرکز میں حکمرانی کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیج پر جھاڑو سی پھیر دی ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما کے حالیہ شاندار اور پُروقار دورے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کا دہلی کے ووٹرز کی طرف سے مسترد کردیا جانا کوئی ایسی حقیقت نہیں جس سے صرفِ نظر کیا جائے۔ 
ہم جس خطے میں جی رہے ہیں اُس میں کِجری وال کی عام آدمی پارٹی کی دہلی کے الیکشن میں بھرپور فتح بہت علامتی نوعیت کی ہے۔ یہ جمہوریت کے حوالے سے ایک بڑا اشارا ہے۔ 
دہلی اسمبلی کے گزشتہ الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی کارکردگی انتہائی حیرت انگیز قرار دی گئی تھی۔ سب کو یقین تھا کہ کرپشن کے خلاف اَنّا ہزارے کے ساتھ تحریک چلانے والے اروند کِجری وال خود کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ وہ سیاست میں تیزی سے اُبھرے تھے اور لوگوں کو اُن کی شخصیت میں طلسم سا دکھائی دیتا تھا۔ ساتھ یہ بھی سوچا جارہا تھا کہ کِجری وال کے نام پر دو ایک نشستیں اور مل جائیں گی۔ مگر جب عام آدمی پارٹی نے 28 نشستیں حاصل کیں تو سب حیران رہ گئے۔ میڈیا نے عام آدمی پارٹی کو تجزیوں میں خاطر خواہ جگہ نہیں دی تھی۔ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی تو عام آدمی پارٹی کے وجود ہی کو ماننے کے لیے تیار نہ تھیں۔ 
کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی سوچ خواہ کچھ رہی ہو، دہلی کے ووٹرز کچھ اور سوچ رہے تھے اور اپنی طاقت دکھانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ 26 نومبر 2012ء کو باضابطہ طور پر لانچ کی جانے والی عام آدمی پارٹی کے لیے دہلی کا الیکشن بہت بڑا ٹیسٹ کیس تھا۔ اُسے ثابت کرنا تھا کہ وہ عوام کے بنیادی مسائل کی بات ہی نہیں کرتی بلکہ عوام کے لیے غیر معمولی اپیل بھی رکھتی ہے۔ اروند کِجری وال کی شخصیت میں سادگی نمایاں تھی۔ بالکل عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرنے والے کِجری وال نے ثابت کیا کہ اگر عوام کے لیے پوری سنجیدگی اور ایمانداری سے کام کیا جائے تو ریسپانس ملتا ہے۔ 
پچھلی بار عام آدمی پارٹی کو دہلی اسمبلی میں 28 نشستیں ملی تھیں جس کے باعث اُسے کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنانی پڑی تھی۔ تب مرکز میں کانگریس کی سربراہی والی مخلوط حکومت تھی۔ عام آدمی پارٹی کی کامیابی نے کانگریس کو بھی شرمسار کردیا تھا۔ لازم تھا کہ عام آدمی پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کی جاتیں اور مشکلات پیدا کی گئیں! عام آدمی پارٹی کو قانون سازی سے روکا گیا۔ اروند کِجری وال نے بہبودِ عامہ کے لیے چند حقیقی اقدامات کئے مگر جب دیکھا کہ اُنہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا تو صرف 49 دن بعد عام آدمی پارٹی نے حکومت چھوڑ دی۔ 
اِس بار عام آدمی پارٹی نے 67 نشستیں حاصل کرلی ہیں۔ اِتنی بھرپور اکثریت کے لیے ساتھ عام آدمی پارٹی کا کامیاب ہونا کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی دونوں کے لیے انتہائی شرمناک ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنما بدحواسی، بلکہ بے حواسی کے باعث ''بک رہا ہوں جُنوں میں کیا کیا کچھ‘‘ والی کیفیت سے دوچار ہیں! بی جے پی کے مرکزی رہنما سُبرامنیم سوامی کا کہنا ہے کہ عام آدمی پارٹی کو کانگریس کے ووٹ ملے ہیں۔ یعنی بی جے پی کا ووٹ بینک اب تک intact ہے! 
دہلی کے عوام نے ثابت کردیا ہے کہ وہ جمہوریت کی اُن بنیادی اقدار پر یقین رکھتے ہیں جن کی مدد سے عوام کی حقیقی حکمرانی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ تین دن قبل ہونے والے الیکشن میں دہلی کے 67 فیصد ووٹرز نے پولنگ اسٹیشنز کا رُخ کیا۔ 2008ء میں ٹرن آؤٹ 58 فیصد تھا۔ 2013ء میں ٹرن آؤٹ 66 فیصد تک پہنچا۔ یعنی یہ کہ دہلی کے عوام اپنی رائے کا بھرپور اظہار کرنا چاہتے اور جانتے ہیں۔ دہلی کے باشندوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے مرکز کا محتاج رہنے کے بجائے اُس پارٹی کو ووٹ دیا ہے جو اُن کی بات کرتی ہے۔ یعنی عوام نے کسی بھی طرح کے تحفظات کی لہر میں بہنے کے بجائے حقیقی تبدیلی کے لیے ووٹ دیا ہے۔ اِسی کا نام جمہوریت ہے یعنی رائے کا کُھل کر اظہار کیا جائے، بے جا تحفظات کو اجازت نہ دی جائے کہ وہ دِل و دِماغ کو جکڑے رہیں! 
ہمارے ہاں، بلکہ پورے خطے میں اب تک یہ تصور راسخ ہے کہ جو پارٹی مرکز میں حکمران ہو‘ وہی اگر صوبوں میں بھی ہو تو ریاستی مشینری اچھی طرح چل سکتی ہے۔ ہمارے ہاں وفاقی حکومت کسی پارٹی کی ہوتی ہے اور صوبوں میں دوسری جماعتیں دکھائی دیتی ہیں۔ اور اِس کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھا ہے۔ ایک طرف تو وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کی کارکردگی بہتر بنانے میں تعاون نہیں کرتی اور جواب میں صوبے بھی وفاق سے عدم تعاون کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ نتیجہ؟ یہی کہ عوام کو جمہوریت کا ثمر نہیں ملتا، اُن کے مسائل حل نہیں ہوتے، زندگی کا معیار بلند کرنے کا اُن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کی منزل سے بہت دور رہتا ہے۔ 
دہلی کے عام آدمی یعنی ووٹر نے جمہوریت کے آئینے پر جمی ہوئی گرد ہٹائی ہے۔ اِس آئینے میں جنوبی ایشیا کے عوام کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے تاکہ رائے دہی کے حق کو بہترین انداز سے بروئے کار لانے کی راہ ہموار ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved