منگل‘ کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں کے لئے بڑا اہم دن تھا، اس دن پاکستان کے دو بڑے بزنس مین گروپوں کے درمیان اتحادکا منظر دیکھنے میں آیا، کورنگی ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے دفتر میں سینکڑوں صنعت کاروں اور تاجروں کی موجودگی میں بزنس کمیونٹی کے رہنما جناب ایس ایم منیر اور سراج قاسم تیلی نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملایا اور وعدہ کیا کہ یہ دونوں گروپس باہم مل کر کراچی سمیت پاکستان کی معاشی ومعاشرتی ترقی کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے سراج تیلی گروپ اور ایس ایم منیر متحارب گروپ تھے اور کراچی چیمبرز اور فیڈریشن کے انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے۔ تاجروں اور صنعت کاروں کے درمیان چپقلش سے بزنس کمیونٹی کے مسائل حل نہیں ہو پارہے تھے اور بیوروکریسی اس اختلاف سے فائدہ اٹھا رہی تھی، خصوصیت کے ساتھ جب قومی بجٹ کی تیاریاں شروع ہوتی تھیں تو تاجروں اور صنعت کاروں کی تمام تجاویز کو وزارت خزانہ توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھتی تھی اور نہ ہی بجٹ سازی کے دوران ان تجاویز اور مشوروں کو بجٹ کو آخری شکل دیتے وقت شامل کیا جاتا تھا۔ اس طرح قومی بجٹ‘ بیوروکریسی کا بجٹ کہلاتا تھا، جس میں تاجروں کی تجاویز اور مشورے شامل نہیںہوتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قومی بجٹ کے آتے ہی مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا، عوام کو بجٹ میں وہ ریلیف نہیں ملتا تھا، جس کی توقع کی جاتی تھی۔ لیکن اب کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں نے یہ محسوس کرلیاہے کہ جب تک ان کے مابین اتحاد قائم نہیں ہوگا، کراچی سمیت پاکستان کے دیگر علاقے ترقی نہیںکرسکیں گے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کراچی ملکی ریونیو کا 65%حصہ پورا کرتا ہے، یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور بندر گاہ ہے، اس کی آبادی گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے‘ ایک محتاط انداز کے مطابق اب یہ آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے اور اس کے ساتھ مسائل بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس موقع پر ملک کے ممتاز صنعت کار جناب ایس ایم منیر( جو اسوقت ٹی ڈی اے پی کے چیئرمین بھی ہیں) نے اپنی تقریر میںکہا کہ صنعت کاروں اور تاجروں کے درمیان ہونے والا یہ تاریخی اتحاد وقت کی ضرورت ہے ، کیونکہ پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے، معیشت کی ترقی صنعت کاروں اور تاجروں کے مابین اتحاد کے علاوہ نئی سرمایہ کاری سے ہی ممکن ہوسکے گی۔ جو اس وقت نہیں ہورہی ہے، لیکن اب اس کے لئے بھر پور کوشش کی جائے گی۔ انہوںنے یہ بھی بتایا کہ صنعت کاروں اور تاجروں کی نمائندہ تنظیم ایف پی سی سی آئی ماضی میں بد عنوانیوں کا شکار رہی ہے، جس کی وجہ سے حکومت خصوصیت کے ساتھ وزارت خزانہ‘ ان کے نمائندوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتی تھی، اور نہ ہی معیشت کے حوالے سے ان کی تجاویز پر غور کرتی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہوسکے گا۔ ایف پی سی سی آئی میں ہونے والے کرپشن کی تحقیقات کے لئے ایک ذمہ دار کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جس کے سربراہ سنیٹر حسیب خان ہوں گے، مزید برآں جعلی تنظیموں کو برداشت نہیںکیا جائے گا، جس کی وجہ سے ایف پی سی سی آئی کی کارکردگی متاثر ہورہی تھی، اور ادارہ بد نام بھی ہوا ہے۔ آئندہ صنعت کار باہم مل کر پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے کے سلسلے میں تن دہی سے کام کریں گے، اور ملک میں نئے صنعتی اداروں کو قائم کرنے کے لئے غیر ملکی سرمایہ لانے کی کوشش تیز کردیں گے۔ تقریر کے آخر میں جناب ایس ایم منیر نے تاجروں اور صنعت کاروں سے اپیل کی کہ وہ 26فروری کو ہونے والی کراچی میں بین الاقوامی نمائش EXPO 2015 میں بھر پور شرکت کرکے اُسے کامیاب بنائیں اور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کریں، کیونکہ اس عالمی نمائش میں کئی ممالک کے تاجر اور صنعت کار شرکت
کریں گے اور پاکستان کی مصنوعات کا جائزہ بھی لیں گے۔جناب سراج قاسم تیلی جو ماضی میں کراچی چیمبرز کے صدر بھی رہے ہیں، انہوں نے ایس ایم منیر کی صنعت کاروں اور تاجروں کے مابین اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ وقت کی بڑی ضرورت ہے، کیونکہ تاجروں اور صنعت کاروں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات سے ملک کے معاشی و سماجی مسائل اس انداز میں حل نہیں ہورہے تھے، جس کی توقع کی جارہی تھی، نیز گزشتہ کئی سالوں سے کراچی میں لا اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال کی وجہ سے جہاں صنعت کاری متاثر ہورہی ہے وہیں عوام کے لئے روزگار کے نئے ذرائع بھی پیدا نہیں ہورہے ہیں ، لیکن اب ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ صنعت کاروں اور تاجروں کے درمیان اتحاد سے ملک کی معیشت کی شرح نمو میں خاصہ اضافہ ہوسکے گا، نیز حکومت پر بھی دبائو پڑے گا، کہ وہ کرپشن کو روکے، صنعت کاروں کی تجاویز پر غور کرے ا ور اپنی توجہ عوام کی فلاح و بہبود پر مرتکز کرے تاکہ بے روزگاری جیسے سنگین مسائل حل ہوسکیں؛ تاہم سراج قاسم تیلی نے صنعت کاروں اور تاجروں کو یہ ''انکشاف ‘‘ کرکے حیرت میں ڈال دیا کہ آئندہ کراچی میں مزید خون خرابہ ہو گا،لیکن انہوں ے اپنے اس بیان کی تشریح نہیں کی
اور نہ ہی کسی تاجر یا صنعت کار نے ان سے پوچھنے کی جسارت کی۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا کے صدر جناب راشد صدیقی نے اپنے مختصر خطاب میں تاجروں اور صنعت کاروں کے مابین ہونے والے اتحاد کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب صنعت کار اور تاجر دل جمعی سے پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔ ماضی میںہمارے درمیان اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے نوکر شاہی معیشت کے ضمن میں من مانی کیا کرتی تھی، اور ایسی پالیسیاں تشکیل دیتی تھی جس کا فائدہ صرف چند افراد کو ملتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہوسکے گا صنعت کاروں کے اتحاد سے بیوروکریسی کا غرور بھی ٹوٹے گا،اور وہ ایسی پالیساں بنانے پرمجبور ہوگی، جس کے ذریعہ پاکستان کی معیشت کی شرح نمو بڑھ سکے گی اور نئی سرمایہ کاری بھی ممکن ہوسکے گی، کراچی کے میڈیا نے بھی صنعت کاروں اور تاجروں کے مابین ہونے والے اتحاد کو پاکستان با لعموم اور کراچی با لخصوص کے لئے ایک نیک شگون قرار دیا ہے، انہیں امید ہے کہ اس اتحاد سے کراچی میں لا اینڈ آرڈر کی موجودہ خراب صورتحال بھی بہتر ہو گی اور رزق اور روزگار کے لئے ذرائع بھی پیدا ہوسکیں گے، لیکن میڈیا کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آئندہ کراچی میں مزید کیوں خون خرابہ ہوگا، اور کیوں کر؟ جس کا اظہار ممتاز صنعت کار جناب سراج قاسم تیلی نے کیا۔ اس کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے لیکن کراچی کے عوام ایک بارپھر انجانے خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔