ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستان میں ایک دوست ملک کے کردار سے آگاہ ہوچکے ہیں۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایسی ہمت اور موقع مل گیا ہو کہ ہم اُس دیرینہ تعلق پر بات کرسکیں جو کچھ کے لیے باعث ِ رحمت اور کچھ کے لیے باعث ِ زحمت تھا۔ اچانک ہر میڈیا گروپ نے سندھ اور بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے بارے میںکھلے یا ڈھکے چھپے الفاظ میں بات کرنا شروع کردی ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں شریک ایک صاحب نے یاددلایا کہ شکار پرآئے ہوئے سیاحوں کی وجہ سے پاکستان کی خودمختاری کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ بہرحال وہ گفتگو زیادہ سنجیدہ ماحول میں نہیں ہورہی تھی اور اینکر اور مہمان ایسا تاثر دے رہے تھے جیسے ایسا شکار پہلی مرتبہ کھیلا جارہاہو۔ حسب معمول، بہت سے افراد سیاسی حکومت کو مورد ِ الزام ٹھہرارہے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ کوئی بھی اس بات کا ذکر نہیں کررہا کہ اسی ملک نے پی اے ایف کو ملنے والے ایف سولہ طیاروں کے لیے امریکہ کو پانچ سو ملین ڈالر ادا کیے تھے یا اسی نے ایک وزیراعظم کی جلاوطنی کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے مشرف دور کی ایک طرح سے حمایت کی تھی۔ تاہم ان اقدامات کے باوجود کسی کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ ہمارے وسائل کو ضائع کرے یا غیر قانونی سرگرمیوں کی حمایت کرے، تاہم پسِ منظر کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس دوست ملک کی یہ بات ایک حوالے سے درست ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کی اجازت سے پاکستان میں کام کرنے والے مذہبی گروہوں کو رقم دیتا ہے۔ ذاتی طور پر میں صرف ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ اس حوالے سے سوالات پوچھے جانے کا سلسلہ اچانک کیوں شروع ہوگیا ہے؟مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے وزارت ِ اطلاعات کے ایک مشیر نے مجھے مطلع کیا کہ ایک بحث کے دوران اس ملک کے متعلق میرے تبصرے کو حذف کردیا گیا ہے کیوں کہ اس سے مجھے نقصان پہنچ سکتا تھا‘ لہٰذا، اچانک دکھائی دینے والی اس دیدہ دلیری کا کیا جواز پیش کیا جاسکتا ہے؟
ہو سکتا ہے کہ کسی کو احساس ہوگیا ہو کہ تیل کی دولت میں کمی آنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ ملک پاکستان کے لیے اتنا فیاض اور معاون نہ رہ پائے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ اب فوج دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے، اس لیے خاموشی سے ایسا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے جس میں لوگ اس موضوع پر بات کرسکیں۔اس کے علاوہ ایک وفاقی وزیر کو کیا پڑی تھی کہ وہ اچانک اٹھ کر اس ملک کو ہدفِ تنقید بنا ڈالے؟ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ تنقید کرتے ہوئے پاکستان تعلقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچارہا ہے ۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ تنقید کرتے ہوئے ان تعلقات کوغیر ضروری بوجھ بننے سے روک رہا ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے ، لیکن اس کے پسِ پردہ کچھ اور عوامل بھی کارفرما ہیں۔ مثال کے طور پرکیا مذہبی گروہوں کو فنڈز فراہم کرنے والا اکیلا ہی ایک ملک ہے؟ قطر، یواے ای اور جنوبی افریقہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بعض خلیجی ممالک کے حکمرانوں کے جنوبی پنجاب میں وسیع محلات ہیں اور وہ یہاں پرندوں کا شکار کھیلنے آتے ہیں۔ ہم ہمیشہ سے ان سے ملنے والے تھوڑے سے فائدے کے لیے ان کی بہت زیادہ خدمت کرنے کے عادی رہے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ، جہاں کوئی محل نہیں ہے، میں موجود پرائیویٹ ذرائع سے انتہا پسندوں کووسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ جنوبی افریقہ سرکاری طور پر اس مسلک کا پیروکار نہیں۔ اس کے باوجود اس ملک میںبہت سے رہنما اور کارکن سفر کرتے ہوئے وسائل اکٹھے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہم کسی بھی ملک کے کردارپر احتجاج کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، لیکن اس سلسلے میں کی جانے والی گفتگو میں اتنا ظاہر نہیں کیا جا سکتا‘ جتنا چھپایا جاتا ہے۔ اچانک ٹی وی اینکروں کی فوج کی اس طرف توجہ کس طرح مبذول ہوگئی ہے؟اگر کسی بھی انتہا پسندگروہ کو اعتماد میں لے کر بات کریں تو وہ بتائے گا کہ سب سے زیادہ رقوم کراچی سے ملتی ہیں۔ اس کے بعد لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کا نمبر ہے۔ اگر دہشت گردی کے کسی ماہرنقاد سے بات کریں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ کس طرح رضا کارانہ طور پر انتہا پسندوں کو رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ ملک میں فعال تمام لینڈ مافیاکسی نہ کسی انتہا پسند گروہ کے ساتھ روابط رکھتا ہے۔ یا پھر انتہا پسند گروہ خود بھی زمینوں پر قبضے میں ملوث ہیں۔
گزشتہ چند ایک عشروںسے ہر شہر میں موجودطاقت کے چھوٹے مراکزخود کو تقویت دینے کے لیے انتہاپسندوں کا سہار ا لے رہے ہیں۔ اس ''الحاق‘‘ میں مذہب اور تشدد کو یک جان کیا جاتا ہے۔ پاکستانی تارکین ِ وطن بھی انتہا پسندوں کو رقوم فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ ان کی طرف سے بھجوائی جانے والی رقوم ہمیشہ سرکاری ذرائع سے نہیں آتی ہیں۔ اس کے لیے مذہبی گروہوں نے اپنا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ ہنڈی اور حوالہ اس میں شجر ِ ممنوع نہیں ہیں۔
مدارس اور اچھے انتہا پسندوں کی حیثیت تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے ہماری مشکلات ختم نہیں ہوںگی۔ ہم ایسا کیوں سوچ رہے ہیں کہ پالیسی میں تبدیلی کا اعلان کرنے سے معاشرے میں موجود تمام انتہا پسندی کے گڑھے پُر ہوجائیںگے؟ہم مدرسوں کے معاملے میں ہاتھ ڈالنے سے خائف ہیں۔ یقینا تمام مدارس دہشت گردی اور انتہا پسندی میں ملوث نہیں، لیکن وہ مخصوص نظریات کا پرچار تو کررہے ہیں۔ اگر ان مدرسوں کو رقوم ملتی ہیں تو کسی کو کیا اعتراض؟ اور پھر ان کی طرف سے کیے جانے والے فلاحی کاموں اور تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ نہ ڈالنا بھی زیادتی ہوگی۔ یقینا عوام کی ایک بڑی تعداد یہی سوچتی ہے۔ تاہم خاطر جمع رکھیں، ایسا نہیں کہ یہ مدرسے غریبوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ بڑے شہروں میںایسے مدرسے بھی ہیں جوان کو ائیرکنڈیشنڈ رہائش گاہیں فراہم کرتے ہیں۔ ان میں رہائش اختیار کرنے والے یقینا بھاری ادائیگی کرتے ہوں گے۔ یہاں میں یہ بات واضح کردوں کہ میں مدرسوں کو یک لخت بند کردینے اور ان پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہوں۔ درحقیقت تمام نجی تعلیمی شعبے کو باقاعدہ بنائے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ انتہا پسند اس شعبے میں بھی سرایت کرچکے ہیں۔ مدرسے کووزارت ِ مذہبی امور سے لے کر وزارتِ تعلیم کے سپر د کردینا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ ان مدرسوں میں انگلش او ر کمپیوٹر نہیں پڑھائے جاتے، لیکن اصل مسئلہ اساتذہ کے نظریات اور طریقۂ تدریس کا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے سامنے جو صورت ِحال ہے ، وہ تین عشروں کی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ اس دوران سماجی عوامل جوں کے توں رہے ہیں۔ بدقسمتی سے سماج اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ اب ریاست کو آگے بڑھ کر اس سلسلے میں پیش رفت کرنا ہوگی۔