ولے بخیر گزشت
پلٹنا‘ جھپٹنا‘ جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
ایسا لگتا ہے کہ الطاف بھائی اور عمران خاں کو لہو گرم رکھنے کے ایک بہانے ہی کی تلاش تھی چنانچہ عمران خاں اور رابطہ کمیٹی دونوں نے اپنی اپنی بھڑاس نکال لی اور تیتر اور بٹیر کی لڑائی کی طرح نوبت یہ نہ آئی کہ ؎
لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دم
لیکن اس کے برعکس مرزا یاس کی غالب کے ساتھ مستقل لڑائی رہی اور بالآخریگانہ کو بھی کہنا پڑا کہ ؎
صلح کر لو یگانہ غالب سے
وہ بھی استاد‘ تم بھی اک استاد
بلکہ الطاف بھائی تو خاصے دور اندیش بھی ہیں کہ کوئی کرارا بیان جاری کریں بھی تو ساتھ ہی اس کی تردید یا معذرت بھی تیار رکھتے ہیں کہ وقت پڑنے پر کوئی تردد نہ کرنا پڑے اور ریڈی میڈ تحریر تیار مل جائے۔
اور ‘ اب بقایا اظہر عباس...
اس کی یادوں کی فائلیں اظہرؔ
مجھ سے گم ہو گئی ہیں دفتر میں
یہ اندھیرے یہی پڑے رہیں گے
روشنی روشنی سے جا ملے گی
ڈر لگتا ہے اندر کی ویرانی سے
تجھ کو بھول بھی سکتا تھا آسانی سے
جان جاتے ہیں تیرے بعد مرا حال یہ لوگ
تو مرے چہرے کو اخبار بنا جاتا ہے
آگے چلتے ہوئے اس شخص سے خائف ہوں کہ وہ
راستہ اور بھی دشوار بنا جاتا ہے
سوچتے تھے‘ تجھ سے بچھڑے تو گئے
تجھ سے بچھڑے تو ہوا کچھ بھی نہیں
جو موج لبہا رہی تھی مجھ کو
وہ موج بھی اک بھنور تلک تھی
یاد کا زہر دل میں پھیل گیا
دیر کر دی اسے بھلانے میں
خود سمجھ جائے گا جس وقت خزاں آئے گی
بات اُس پیڑ سے میں ساری نہیں کر سکتا
ابھی چلی تھی جہاں پہ گولی‘ اسی شجر پر
دوبارہ پھر آنے والے ہیں لوٹ کر پرندے
وہ جس کے بعد آدمی پتھر دکھائی دے
ہاں ایسا انتظار بھی پہلے تھا‘ اب نہیں
اب زمیں بھی قبول کرتی نہیں
خواب دیکھے تھے آسمانوں کے
ہم فلک زاد تھے‘ رہتے بھی زمیں پر کیسے
یوں بھی مہمان تو جانے کے لیے ہوتے ہیں
کچھ مسائل کہ جنہیں مجھ سے علاقہ بھی نہیں
بس مرا کام بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں
آدھا رکھا ہے اُس نے پاس مجھے
آدھا واپس کیا؛ غنیمت ہے
پیار جب بھی کروں تو لگتا ہے
آخری بار کر رہا ہوں میں
کوئی دشمن بھی مرنے والا نہیں
جس طرح وار کر رہا ہوں میں
خود کھڑا ہوں میں اپنے چاروں طرف
آ گیا ہو ں یہ کس حصار میں دوست
جس کی نیکی تھی اُس کے کام آئی
صرف میں رہ گیا ہوں غار میں دوست
آج کل کون ہے عزیز تھے
میں تو یوں بھی تھا کس شمار میں دوست
اس جدائی کا ہے سبب کچھ اور
لوگ تو درمیاں تھے پہلے بھی
میں باہر سے بھلا کب ٹوٹتا تھا
مجھے اندر سے توڑا جا رہا ہے
دیکھتا یوں ہے دکانوں میں پڑی چیزوں کو
جیسے بازار کا بازار خریدے گا کوئی
گلیوں گلیوں بھٹک رہے ہیں ہم
اور کوئی گلی تمہاری نہیں
زندگی ہو کہ موت ہو اظہر
کوئی مضمون اختیاری نہیں
آج کا مقطع
میں خوابِ سبز تھا دونوں کے درمیان میں‘ ظفر
کہ آسمان تھا سنہرا زمین بھوری تھی