گزشتہ دنوں امریکہ کے صدر بارک اوباما بھارت کے دورہ پر آئے۔ اس دورے کو خطے میں غیرمعمولی اہمیت دی جا رہی تھی۔ کچھ لوگ اس دورے سے بہت زیادہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے تو کوئی اسے تنقید کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ یہ دورہ کتنا کامیاب رہا‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن نئی دہلی میں بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک امریکی صدر بارک اوباما چیونگم چباتے ہوئے سوچتے تو ہوں گے کہ ۔۔۔۔ایسا ملک یوم جمہوریہ اس شان و شوکت سے منانے کا اخلاقی حق کیسے رکھ سکتا ہے‘ جس میں بسنے والے پچیس کروڑ سے زائد لوگوں کو ''جمہور‘‘ کا حق ہی حاصل نہیں؟ اپنی مرضی کے نمائندے اور اپنی مرضی کی حکومت منتخب کرنا جمہوریت کا بنیا دی سبق ہے‘ لیکن کشمیر کے علاوہ بھارت کے دیگر تیئس صوبوں کے لوگ اس بنیادی حق سے محروم چلے آ رہے ہیں، جو جمہور کی آواز سے حاصل ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ بھارت پھر بھی دھوم دھام سے یوم جمہوریہ مناتا رہا ہے‘ جہاں نہ تو اقلیتوں کو شخصی آزادی ہے اور نہ ہی مذہبی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ٹائون ہال انڈیا میںاوباما نے اپنے خطاب میں جب یہ کہا: ''بھارت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی دنیا کی نظروں میں درخشاں نظر آئے گا‘ جب تک وہ اپنے ملک میں ہر ایک قوم کو مذہبی آزادیاں دینے کی مکمل ضمانت نہیں دیتا‘‘ تو ان کے کہے ہوئے یہ الفاظ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے سر پر بم کی طرح پھٹے تھے‘ کیونکہ امریکی صدر کی جانب سے دورہ بھارت مکمل ہونے سے چند گھنٹے پہلے کہے گئے یہ الفاظ ان کے دورہ بھارت کا مشترکہ اعلامیہ سمجھا گیا۔ دورۂ بھارت کے بعد بارک اوباما کے قدم ابھی اپنے اوول آفس میں پڑے ہی تھے کہ دہلی کے نواح میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے انتہا پسندوں نے پانچ عیسائی عبادت گاہوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے ایک لاکھ سے زائد محکوم کشمیریوں کے قتل عام اور ہزاروں عصمت مآب کشمیری خواتین کے ساتھ زیادتی پر امریکہ اور یورپ کی زیر نگرانی کام کرنے والی تمام این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اکثر سوئی رہتی ہیں اور اگر کبھی سوتے میں بہت زیادہ شور کی وجہ سے ہڑ بڑا کر جاگ بھی جائیں‘ تو ایک ہلکا سا بیان دینے کے بعد پھر لمبی تان کر سو جاتی ہیں۔ لیکن جب کسی دوسری کمیونٹی کے قتل کی بات ہو تو سب کو انسانی حقوق یاد آ جاتے ہیں۔ 23 دسمبر2014ء کو جیسے ہی بھارتی صوبے آسام کے سونت پور اور کوکراجھر اضلاع کے چائے کے باغات میں کام کرنے والے75 افراد‘ جن میں 18 بچے اور23 خواتین بھی شامل تھیں‘ کے قتل کی خبر سامنے آئی تو یہ واقعہ رونما ہونے کے چند گھنٹوں بعد ''Rome Statute Of International Criminal Court'' میں اس کے ذمہ داروں کے خلاف کریمنل ایکٹ کے تحت کارروائی کی اپیل شروع ہو جاتی ہے۔ کاش انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو آسام کے ساتھ ساتھ پشاور کے بچوں کے قتل عام کے خلاف اور کشمیر میں اسی قانون کے تحت بھارتی فوج کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی کبھی خیال آ جائے‘ لیکن بھارتی دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کا نام سنتے ہی ان سب عالمی تنظیموں کو نہ جانے چپ سی کیوں لگ جاتی ہے؟ آسام کے اس
و اقعہ کو ایک ماہ سے زائد ہو چکا ہے‘ لیکن ابھی تک بھارت کی نہ تو مرکزی اور نہ ہی کسی صوبائی حکومت نے کوئی ایف آر درج کی ہے۔ شاید وہ اس واقعہ کو چھپانا چاہتی ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس میں حکومت کی چہیتی نیشنل بوڈو ڈیمو کریٹک فرنٹ ملوث ہے۔ ابھی چند دن ہوئے کہ بھارت میں پانچ چرچ ہندو انتہا پسندوں نے آگ کے شعلوں میں جلا کر بھسم کر دیے۔ ظلم اور سفاکی حد دیکھئے کہ ہندو انتہا پسند چرچوں کی راکھ پر ناچتے رہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ ان کی جانب سے 1960ء سے یہ قتل عام اور نسل کشی جاری ہے۔ اس واقعہ سے صرف چھ ماہ قبل یکم سے تین مئی 2014ء تک مسلسل تین دن اور رات بوڈو قبائل نے بے گناہ بنگالی مسلمانوں کا قتل عام کیا‘ جس کے نتیجے میں 87 افراد جان کی بازی ہار گئے اور ہزاروں بے گھر ہو گئے تھے۔اس پر کسی نے آواز بلند نہیں کی۔ یاد رہے 1971ء میں جیسے ہی مکتی باہنی کے ارکان کو بھارت میں تیار کر کے سابق مشرقی پاکستان بھیجنا شروع کیا گیا‘ تو ساتھ ہی آسام یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ اور بوڈو ڈیمو کریٹک فرنٹ کی صورت میں مسلح تنظیمیں وجود میں آنا شروع ہو گئیں‘ جن کے بارے میں کہا جانے لگا کہ یہ بھارت کی آئی بی کی سپانسرڈ ہیں۔
بھارت جب آزاد ہوا تو اس کے کچھ عرصے بعد ہی آسام میں ارد گرد کی بہت سی قومیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آ کر بسنا شروع ہو گئے تھے۔ پھر وہاں سے مسلح تحریکیں جنم لینا شروع ہو گئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ پورے آسام میں پھیل گئیں۔ آسام‘ جو انگریز دور سے ہی اپنی سفید، کالی چائے کیلئے مشہور تھا‘ جب تیل کی پیداوار بھی دینا شروع ہو گیا تو اس سے وہاں کے سیاسی اور معاشرتی حالات میں تبدیلی آنے لگی اور سب کی نظریں وہاں کے چائے کے با غات کی طرف للچانا شروع ہو گئیں۔ یاد رہے کہ یہ چین کے بعد دنیا کا سب سے زیا دہ چائے پیدا کرنے والا علاقہ ہے۔ یہیں سے مسلح جتھوں کو پالنے کا رواج بھی شروع ہو گیا ۔ وہ لوگ‘ جو یہاں اپنی من مانیاں کرنا چاہتے تھے‘ انہوں نے آسام کی صوبائی حکومت کو اپنے ساتھ ملا کر مرضی کے قوانین بنا نا شروع کر دیے۔ یہاں کا ہر انتظامی افسران من مانیاں کرنے والوں کی منظوری سے تعینات ہونے لگا‘ جس سے عوام کے مسائل کی طرف کم اور اپنی من مانیوں کی جانب زیا دہ دھیان مبذول ہونے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غریب عوام کی زندگیاں اجیرن ہو کر رہ گئیں اور پھر جب لوگوں نے اس زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دی تو انہیں دشمن کا نام دے کر ان کا خاتمہ شروع کر دیا گیا۔
بھارتی حکومت اور بین الاقوامی میڈیا کیسے جھٹلاسکتا ہے کہ 1983ء کے ریاستی انتخابات کے موقع پر آسام میں اس وسیع پیمانے پر قتل عام ہوا کہ تین ہزار سے زائد لوگ موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ اس کے بعد آئے دن کبھی عیسائیوں تو کبھی بنگالی مسلمانوںکو نشانہ ستم بنایا جانے لگا۔ پھر نومبر1990ء میں‘ جب حالات مزید خراب ہوئے تو اس پر بھارتی حکومت کو اس علاقے میں فوج تعینات کرنا پڑی اور بھارتی فوج نے وہاں کی غیر ہندو آبادیوں کے ساتھ وہی سلوک شروع کر دیا‘ جو وہ برسوں سے کشمیر میں کر رہی ہے۔ مقامی آبادی کی نوجوان لڑکیوں کو رات کو گشت کرتے ہوئے فوجی کیمپوں میں لے جانا اور ان سے اجتماعی زیا دتی ایک عام سی بات بن گئی۔ وہ لوگ جو ڈر گئے انہوں نے وہاں سے نقل مکانی شروع کر دی لیکن کچھ لوگوں نے بھارتی فوج کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر ان کے خلاف مسلح جدو جہد شروع کر دی‘ جو آج تک جاری ہے۔ دور نہ جائیں20 جولائی2012ء اور پھراس سے اگلے ماہ8 اگست کو بھی قبیلوں کی صورت میں حملے شروع کر دیے گئے۔ گھروں کو آگ لگا دی گئی‘ جس سے77 لوگ ہلاک ہوگئے اور چار لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مارے بھی مسلمان گئے اور مقدمات بھی انہی پر بنے۔ بھارت کے چیف الیکشن کمشنرHS Brahma نے یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا کہ مسلمانوں کے خلاف جھوٹ پر مبنی منظم پروپیگنڈا کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ ملک بھر میں یہ غلط تاثر دے رہے ہیں کہ پورے آسام میں مسلم اکثریت کے ووٹ درج کرا دیئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آسام کے 27 اضلاع میں سے صرف11 میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور بے گھر ہونے والے انہی مسلم اضلاع کے لوگ ہیں‘ جن کے خلاف بوڈو، دیماسا، تیوا، دیوریا، کاربی، گارو، رابھا، سونو وال قبائل نے مسلح اتحاد قائم کر رکھا ہے۔