بھارت کا دارالحکومت‘ نیشنل کیپٹل ٹیرٹری آف دلی کہلاتا ہے۔ اسے دیگر صوبوں کی نسبت سپیشل سٹیٹس حاصل ہے۔ دلی کا صوبہ ‘پانچ میونسپل کارپوریشنوں پر مشتمل ہے۔ اس کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر ہے۔ وزیراعلیٰ اور اس کی کابینہ ہے۔ یہاں کانگرس اور بی جے پی‘ دونوں ہی مختلف مدتوں کے دوران صوبائی حکومتیں چلا چکی ہیں۔یہ شہر‘ دہرے دارالحکومت کا درجہ رکھتا ہے۔ بھارت کی یونین گورنمنٹ کا ہیڈکوارٹر بھی یہی ہے اور دلی کی صوبائی حکومت کا بھی۔اس کے باوجود یہ شہر‘ جتنے مسائل سے دوچار ہے‘ وہ ایک ایسے ملک کے شایان شان نہیں‘ جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہو‘ عالمی طاقت بننے کا شوق بھی رکھتا ہو اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست کا بھی خواہش مند ہو۔ اس شہر کے لوگوں کے مسائل سن کر تعجب ہوتا ہے۔ مثلاً دلی میں پانی کا مسئلہ کئی عشروں سے درپیش ہے۔ کانگریس اور بی جے پی‘ دونوں کی حکومتیں اسے حل نہیں کر سکیں۔ جمنا‘ دلی کے پاس بہتا ہے۔ بھارت ‘ ٹیکنالوجی میں جتنی ترقی کا دعویدار ہے‘ اس کے لئے دریا کے پانی کو صاف کر کے شہریوں تک پہنچانا مشکل نہیں۔ لیکن دلی کے 60فیصد سے زیادہ شہری‘ صاف پانی سے محروم ہیں۔ دلی کی آدھی کے قریب آبادی‘ شہر کے نواحی علاقوں میں جھگیوں اور کچی بستیوں پر مشتمل ہے۔ اگر آپ بھارت کی ترقی کی حقیقت دیکھنا چاہیں اورکبھی موقع ملے‘ تو دلی سے ٹرین میں بیٹھ کر‘ کسی بھی طرف چلے جائیں‘شہر ختم ہونے سے پہلے‘ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی جھگیاں اور ان میں بسنے والوں کا معیار زندگی‘ آپ چلتی ٹرین میں آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں کسی بھی شہر سے گزرنے والی ریلوے لائن کے ساتھ‘ جھگیوں میں رہنے والے انسانوں کی وہ تذلیل نہیں دیکھ پائیں گے‘ جو دلی میں ٹرین سے آتے یا جاتے ہوئے‘ آپ کو دکھائی دیتی ہے۔ یہ سارے ہی لوگ دلی کی صوبائی اسمبلی کے ووٹر ہیں۔
شہر کا جو حصہ‘ نچلے طبقوں کے رہائشی علاقوں پر مشتمل ہے‘ وہاں کے رہنے والے بھی بجلی اور پانی کی حسب ضرورت فراہمی سے محروم رہتے ہیں۔ اروند کِجری وال‘ دلی کے ان مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ طبعی طور پر‘وہ انسانی خدمت کا جذبہ رکھنے والے ایک دردمند انسان ہیں اور ان کی یہی خوبی ‘ انہیں اناہزارے کی غیرسیاسی جدوجہد میں لے گئی۔ اناہزارے دھرنے دیا کرتے اور بہت سے سابق بیوروکریٹ اور دردمند شہری‘ ان دھرنوں میں شریک ہوتے۔ سٹیج پر اناہزارے کے ساتھ اروند کِجری وال اور ریٹائرڈ پولیس آفیسر کرن بیدی بھی شریک ہوا کرتیں۔ یہ دونوں ہی سابق بیوروکریٹ ہیں۔کرن بیدی نے اپنی مدت ملازمت پوری کر لی تھی جبکہ کِجری وال نے فلاحی خدمات کے لئے ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ ان کی بیگم بھی صوبائی حکومت کی ملازم ہیں۔ کِجری وال نے‘ اپنی عوامی زندگی سے بیگم کو الگ رکھا۔ انتخابات میں حیران کن کامیابی ملنے کے بعد‘ وہ پہلی مرتبہ اپنی بیگم کو عوام کے سامنے لے کر آئے اور تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میری شریک حیات میری طاقت تھیں اور اکثر کہا کرتیں کہ میں اپنی سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے لئے مشکلات پیدا کروں گا۔ کسی وقت بھی حکومت ‘ ان کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے۔ کِجری وال نے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا ''اس وقت تو میں چپ رہ جاتا تھا۔ لیکن کل جب انتخابی نتائج آئے‘ تو میں نے کہا بھاگوان! اب تجھے کوئی ڈر نہیں۔ سرکار تمہیں کچھ نہیں کہے گی۔‘‘ سرکار تو خود کِجری وال بن چکے تھے۔ انا ہزارے نے‘ اپنے مطالبات منوانے کے لئے‘ من موہن سنگھ کی حکومت کو جب مذاکرات پر مجبور کیا‘ تو ان کی ٹیم میں سب سے متحرک‘ باخبر اور امور ریاست کو جاننے اور سمجھنے والا رکن کِجری وال تھا۔ من موہن سنگھ کی کابینہ کے سینئر اراکین کے سامنے‘ کِجری وال نے اناہزارے کا کیس اس طرح پیش کیا کہ انہیں مجبور ہو کر سارے مطالبات ماننا پڑے۔ کِجری وال کی قابلیت کا سکہ بیٹھ گیا۔
حالات بدلے تو اناہزارے‘ اپنی تحریک کو بند کر کے‘ پھر سے گوشہ نشین ہو گئے۔ لیکن اتنی بڑی تحریک‘ جو اناہزارے نے شروع کی تھی‘ اس میں شامل ہونے والے کہاں جاتے؟ کِجری وال نے انہی لوگوں پر بھروسہ کرتے ہوئے‘ عام آدمی پارٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اناہزارے کے فدائین ہی‘ کِجری وال کی فوج بن گئے۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی‘ جو اقتدار‘ پیسے اور پوزیشن کے لئے نہیں‘ خدمت اور تبدیلی کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اس بات پر کم توجہ دی جاتی ہے کہ کِجری وال کو اتنی بھرپور عوامی حمایت‘ چند ہفتوں کے اندرکیسے مل گئی؟ اس حمایت کے لئے انہیں کچھ نہیں کرنا پڑا۔ اناہزارے کی ٹیم ‘ تبدیلی کے ایک نکتے پر‘ منظم ہوئی تھی۔ اس کے حق میں جس طرح سارے بھارت کے‘ ایک ایک شہر کے اندر دھرنے لگے‘ کِجری وال نے انہیںدیکھ لیا تھا۔ اناہزارے خود اپنے مزاج اور عمر کی وجہ سے‘ سیاسی اکھاڑے میں اترنے سے گریزاں تھے۔ لیکن جواں سال کِجری وال کو ایسا کوئی ڈر نہیں تھا اور اس کے بعد جو تماشے ہوئے‘ انہیں عشروں پرانی جماعتیں یعنی کانگرس اور بی جے پی‘ سمجھنے میں بری طرح ناکام رہیں۔ کِجری وال سردی کے موسم میں ٹھنڈی پتلون ‘ پھٹا ہوا سویٹر اور سر پہ مفلر لپیٹ کر جب عوام میں جاتے‘ توانہیں اپنی سچائی منوانے کے لئے تقریروں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ اپنے پہناوے‘ بول چال اور طور طریقوں سے عوام کو اپنے لگتے۔بھارت کی جو بڑی جماعتیں‘ ابھی تک کِجری وال کی حیرت انگیز کامیابی کو سمجھنے میں سرکھپا رہی ہیں‘ اصل میں وہ گاندھی ازم سے دور ہو گئی تھیں۔ بھارتی سیاست کی بنیاد‘ گاندھی جی نے رکھی تھی اور ان کا طرززندگی اور پیغام‘ ہمیشہ ہی بھارت کے اہل سیاست کا سکہ تھا‘ جسے چلا کر وہ ملک پر حکمرانی کرتے آ رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ‘ گاندھی جی کا طرزسیاست پرانا ہوتے ہوتے‘ معدوم ہو گیا۔ لیکن عوام کے لاشعور میں‘ گاندھی جی کا طرزسیاست ہمیشہ موجود رہا۔ گاندھی جی کی موت کے بعد جے پرکاش نارائن اور ایسے بے شمار‘ درویش صفت انسان ‘ جو سیاست سے ہمیشہ لاتعلق رہے‘ ان کی وجہ سے گاندھی ازم کا تسلسل کسی حد تک برقرار رہا۔ لیکن پنڈت نہرو کی موت کے بعد‘ وہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔
بھارت کی نئی سیاست کی بنیاد اندراگاندھی نے رکھی ہے۔ نئی نسل کو بہت کم پتہ ہے کہ اندراگاندھی نے‘ بھارتی سیاست میں کیسا انقلاب برپا کیا؟ پنڈت جی کی اچانک موت کے بعد ‘ کانگرس کے بزرگوں نے‘ جو گاندھی جی اور پنڈت جی کے ساتھ کام کر چکے تھے‘ اپنی سیاسی روایت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک سنڈیکیٹ بنایا‘ جس نے گلزاری لال نندا‘ لال بہادر شاستری اور دوبارہ گلزاری لال نندا کو وزیراعظم بنایا۔ لیکن اندرا نے‘ سنڈیکیٹ سے بغاوت کر کے‘ پارٹی کے سارے سینئرلیڈروں کو‘ اقتدار کے کھیل سے باہر کر دیا اور اس کے بعد انہوں نے اقتدار پر مضبوطی سے قبضہ کر لیا۔
اندراگاندھی کے اقتدار میں آتے ہی‘ جمہوری روایات کا خاتمہ ہو گیا اور اس کے بعد بھارت کی سیاست میں‘ ڈی آئیڈیلائزیشن کا دور شروع ہوا۔ پاکستان اور بھارت کے حکمران باہمی دشمنی کو برقرار رکھتے ہوئے‘ عوامی خواہشات کے برخلاف باہمی کشیدگی کو اپنے اقتدار کا سہارا بنا کر کام چلاتے رہتے ہیں۔ میں نے چند اشاروں کے ذریعے پس منظر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک کالم اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتا۔ پس منظر کو سرسری طور سے بیان کرنے کے بعد‘ جو اصل بات میںعرض کرنا چاہتا ہوں‘ وہ یہ ہے کہ کِجری وال نے‘ ایک نئی طرز کے گاندھی ازم کو بھارتی سیاست میں داخل کر دیا ہے۔ بھارت کی گندی سیاست سے تنگ آئے ہوئے عوام کی‘ رائج الوقت نظام سے نفرت کو ‘ اناہزارے کے دھرنے منظرعام پر لائے۔ اناہزارے خود سیاست سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن کِجری وال نے ان کی طاقت کو‘ اپنی سیاست کی بنیاد بنا کر‘ جس طرح دلی کی سیاست کا رخ بدلا‘ اب اسے روکنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ درمیانے قد کا چھوٹا سا آدمی‘ شدید سردی کے موسم میں‘ ٹھنڈی پتلون ‘ پھٹا ہوا سویٹر اور منہ سر پہ‘ مفلر لپیٹ کر جب عوام کے پاس گیا‘ تو اس نے گاندھی ازم کے کلچر کو جدیددور کے تقاضو ں کے مطابق بحال کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ اگر تو اس نے دلی میں‘ جدید گاندھی ازم کا نظام نافذ کر کے دکھا دیا‘ تو وہ پورے بھارت پر چھا جائے گا۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ بھارت کی دونوں بڑی پارٹیاں‘ تمام اجارہ دار‘ تمام سرمایہ دار مل کر اپنی پوری طاقت‘ کِجری وال کو ناکام بنانے پر لگا دیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بڑے بڑے نعرے لگانے والا‘ یہ چھوٹا سا آدمی‘ ان سب کا مقابلہ کیسے کرتا ہے؟ دلی کی انتخابی لڑائی ختم ہو گئی۔ جنگ اب شروع ہو گی۔ جب بھارت کے حکمران طبقوں کا گٹھ جوڑ ‘ کِجری وال پر حملہ آور ہو گا۔ یہ تاریخی تبدیلی کا مرحلہ ہے۔ کِجری وال کی لڑائی ختم ہو گئی۔ جنگ اب شروع ہو گی۔ وقت آئے‘ تو مچھر نمرود کو مار سکتا ہے۔