پاکستان ہمیں عطا ہوا اور آج ہر کوئی متفق ہے کہ اس نعمت کی ہم نے بہت ناقدری کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے ہاں نفسا نفسی کا وہ کلچر چھا گیا ہے کہ ملک میں ماضی میں ہمارے اکابرین نے مختلف اداروں میں جو مثبت نقوش چھوڑے ہیں‘ ان کی بھی ہم حفاظت نہیں کر رہے۔
اپنے ہاں کے باغات کو دیکھ لیں‘ سرکاری عمارتوں کو دیکھ لیں‘ عجائب گھروں کو دیکھ لیں۔ جدھر نظر دوڑائیں ماضی کی نسبت بہتری دکھائی نہیں دے گی۔ یہ بہتری کیسے آتی ہے۔ یہ حکومت کی وجہ سے نہیں آتی۔ یہ ان لوگوں کے احساس ذمہ داری کی وجہ سے آتی ہے جو ہمارے ہاں ان عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں جہاں سے حکم جاری ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں جب افسروں کی ٹریننگ کی جاتی ہے تو ان کو یہ سبق بھی پڑھایا جاتا ہے کہ کسی مقام پر ان کو بھلے مختصر مدت کے لیے تعینات کیا جائے‘ ان کا فرض ہے کہ وہ مقام جس حال میں ان کو ملا ہو اس مقام کو وہ اس سے بہتر حالت میں چھوڑ کر جائیں۔ یہ ایسا سنہری اصول ہے کہ جس کو آج کل ہماری افسر شاہی مکمل طور پر نہ صرف نظرانداز کر رہی ہے بلکہ اکثر صورتوں میں معاملہ اس کے الٹ ہوتا ہے۔ ایک محکمے میں ایک سربراہ آتا ہے اور جب اس کا تبادلہ ہوتا ہے یا اس کو او ایس ڈی بنایا جاتا ہے تو وہ محکمہ اکثر تباہی کے کنارے پہنچ چکا ہوتا ہے۔
ماضی میں ہمارے ہاں ایسا نہیں تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ہمیں پاکستان میں کاروبارِ حیات چلانے کے لیے ایسے ایسے اچھے سرکاری افسران میسر رہے کہ ہم آج بھی ان پر فخر کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے ان جانثاروں پر تو کتب لکھی جا چکی ہیں‘ میں اس کالم میں ریڈیو لاہور کے ماضی کا ذکر کروں گا اور وہ بھی محض ایک افسر کے حوالے سے۔
اس سٹیشن پر ستر کی دہائی میں سلیم گیلانی صاحب سٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر تعینات ہوئے۔ لاہور سٹیشن ایک مضبوط روایت کا حامل ادارہ تھا اور گیلانی صاحب سے پہلے یہاں شمس الدین بٹ اور آغا بشیر جیسے افسر سٹیشن ڈائریکٹر رہ چکے تھے۔ گیلانی صاحب خود بھی محمود نظامی صاحب کے زمانے میں یہاں اسسٹنٹ سٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر کام کر چکے تھے اور اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اس سٹیشن پر نام کمانا کافی مشکل کام ہے۔ بہرحال جب لگن سے کام کیا جاتا ہے تو اس کا پھل ضرور ملتا ہے۔ ریڈیو پروگراموں میں بہتری کے لیے کوشاں رہنا تو ان کی بنیادی ذمہ داری تھی جس میں وہ کافی وقت صرف کرتے مگر وہ دیگر ایسے کاموں کے لیے بھی وقت نکال لیتے تھے جس سے وہ اپنے دور کا کوئی مثبت نقش چھوڑ جائیں۔ جب وہ اسسٹنٹ سٹیشن ڈائریکٹر تھے تو انہوں نے پہلی مرتبہ لاہور سٹیشن سے موسیقی کا جشن بہاراں شروع کیا جس میں ریڈیو کی پرانی عمارت کی ایک چھوٹی سی گرائونڈ سے محفل موسیقی براہ راست نشر ہوتی تھی اور انائونسر اعلان کرتا تھا ''ریڈیو لاہور کے سبزہ زار سے ہم آپ سے مخاطب ہیں‘‘۔ یہ روایت بعدازاں برسوں قائم رہی۔ اب ذرا کم کم ایسی محفلیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ ویسے تو سٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر گیلانی صاحب نے پروگراموں میں بہت تبدیلیاں کروائیں مگر ایک کی تفصیل سن لیں۔ ربیع الاول کے پہلے بارہ دنوں میں سیرت النبیؐ پر روزانہ دو سے تین گھنٹے طویل انہوں نے ایسے سیمینار نشر کروائے جن میں سامعین شریک ہوتے تھے اور ان کے ساتھ سوال و جواب کی نشستیں بھی ہوتی تھیں۔ ان سیمیناروں کا ایک brochure چھپتا تھا جس میں عنوانات اور مقررین کے نام درج ہوتے تھے۔ سرکاری محکموں میں فنڈز کی کمی تو ہمیشہ سے رہی ہے۔ مجھے یاد ہے جب خیرالبشرؐ کے عنوان سے سیمیناروں کے سلسلے کا کتابچہ ہم نے چھاپنا تھا تو ہمیں کچھ مالی مدد چاہیے تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب شریف برادران ابھی سیاست میں نہیں آئے تھے۔ ریڈیو لاہور کے ساتھ ہی واقع ایک عمارت میں میاں نوازشریف کا کاروباری دفتر تھا۔ میں نے گیلانی صاحب کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ اپنے ہمسائے میں موجود اس دفتر کے لوگوں سے درخواست کریں کہ وہ اس کتابچے کی طباعت کے لیے مالی مدد کر دیں کیونکہ سنا ہے یہ کاروباری لوگ تو ہیں مگر خاصے مذہبی بھی ہیں۔ گیلانی صاحب نے کہا ٹھیک ہے تم فون کر کے کہو کہ ہم اس غرض سے آنا چاہتے ہیں۔ میاں نوازشریف بہت محبت سے ملے اور کہا کہ سیرت طیبہ پر سیمینار تو واقعی نیک کام ہے۔ ساتھ ہی جتنی رقم ہمیں درکار تھی اس کا چیک دے دیا۔ سرکاری کام کے لیے کون آج کل ایسے جتن کرتا ہے۔
پروگراموں کے علاوہ گیلانی صاحب نے لاہور ریڈیو پر ایک یاد باغ بھی قائم کیا۔ یہ باغ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں دو تین درجن کے قریب ایسی ہستیوں نے پودے لگائے ہیں جو ہمارے وطن کا سرمایہ ہیں۔ ان میں ملکہ ترنم نور جہاں‘ فریدہ خا نم‘ روشن آرا بیگم‘ منور سلطانہ‘ فیض احمد فیض‘ حفیظ جالندھری‘ استاد سلامت علی خان‘ قاری غلام رسول‘ مرزا سلطان بیگ (نظام دین) سمیت بہت سی دیگر ایسی ہستیوں کے نام شامل ہیں جن کی فہرست ریڈیو لاہور میں موجود ہے بلکہ اس باغ میں جا کر Mahogany کے درختوں کے نیچے پودا لگانے والوں کے نام کی تختیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
ہمارے ہاں زراعتی پروگرام میں محکمہ زراعت کے فیض محمد ڈوگر صاحب ہوتے تھے جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وہ کہیں سے Mahogany کے پودے لاتے کیونکہ یہ درخت سنا ہے کہ بہت طویل عرصے تک قائم دائم رہتا ہے۔ اس کی لکڑی تو دنیا بھر میں مشہور ہے مگر لاہور ریڈیو کے یادباغ میں اس لکڑی سے وابستہ جو نام ہیں وہ اور بھی زیادہ معروف ہیں۔
چند ماہ پہلے میں ریڈیو لاہور گیا تو اس یادباغ کی حالت کوئی قابل دید نہ تھی۔ وہی بات جو میں نے شروع میں عرض کی کہ ہمارے ہاں ناقدری کا کلچر فروغ پا رہا ہے۔ اگرچہ ریڈیو سٹیشن کی عمارت کے اندر کافی بہتری دیکھنے میں آئی مگر یادباغ کے نام سے اس ورثے پر کوئی خاص توجہ نہ تھی۔
اب نئے سٹیشن ڈائریکٹر ساجد درانی صاحب آئے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس باغ کی طرف توجہ دیں گے اور اس میں گھاس وغیرہ لگوا کر ایسا بنا دیں گے کہ یہاں سے براہ راست پروگرام بھی نشر ہو سکیں۔
جس طرح ریڈیو لاہور کا یادباغ توجہ کا طالب ہے اسی طرح نہ جانے کتنے محکموں میں ماضی کے فرض شناس افسروں کا کیا ہوا کام اسی طرح بے آسرا پڑا ہوگا۔ بقول شاعر ؎
اتنی ارزاں تو نہ تھی درد کی دولت پہلے
جس طرف جایئے زخموں کے لگے ہیں بازار