نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم ومعاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہیں۔ کسی بھی معاشرے یا قوم میں سیادت و قیادت کے منصب پر فائز ہونے والے رول ماڈل ، نمونہ ، اُسوہ اور قُدوہ(Ideal Model) ہوتے ہیںاور ان کی طرف سے قائم کی جانے والی اور پیش کی جانے والی اَخلاقی قَدروں کی معاشرے کے افراد تقلید کرتے ہیں۔ ہمارے دینی معیارات کے مطابق اہلِ مغرب بہت سی اَخلاقی وتہذیبی قَدروں کو ترک کرچکے ہیںاور وہاں اِسے معیوب نہیں سمجھا جاتا، لیکن مجموعی تہذیبی واَخلاقی تنزُّل کے باوجود وہ اپنے حکمرانوں کوآئیڈیل دیکھنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہاں سیاسی اور حکومتی مناصب پر فائز اعلیٰ عہدیدار وں کی اگر ٹیکس چوری‘ بیوی سے بے وفائی‘ خفیہ معاشقے یا بدکرداری ثابت ہوجائے ، تو پورا میڈیا ان کے دَرپے ہوجاتاہے اور انہیں اقتدار سے دستبردار ہوناپڑتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے، عام لوگوں کے لئے جو باتیں قابلِ گرفت اور قابلِ نفرت سمجھی جاتی ہیں، اہلِ اقتدار اور بااثر طبقات کے لئے ان اقدار وقوانین کو توڑنا ان کااستحقاق اور وجہِ تفاخُر سمجھا جاتاہے اور اِس پر انہیں کوئی ندامت یا شرمساری ہرگز نہیں ہوتی۔ حال ہی میں ہمارے بعض نمایاں سیاسی رہنماؤں نے جس اَخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا، وہ انتہائی قابلِ افسوس ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہیں خود اپنی باتوں سے سرِعام رجوع کرنا پڑا، لیکن بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ع: ''چِراکارے کندعاقل کہ باز آید پشیمانی‘‘۔ اگر چہ اپنی غلطی کا احساس کرنا اور اس پر نادم ہونااور متاثر ہ فریق سے معافی مانگ لینا ، یہ بہرصورت ایک قابلِ تحسین رویہ ہے۔
ہمارا میڈیا دو دھاری تلوار بناہواہے، سب کی خبر لیتاہے، لیکن خود ہر احتساب، مؤاخذے اور اَخلاقی گرفت سے مادر پدر آزاد ہے۔ لوگ عزت بچانے کے لئے اُن کے ساتھ تصادم سے گریز کرتے ہیں ۔ حکومت، حکمران اور قانون بے بس ہے۔میڈیا ایک طرف تودوسروں کی برائیوںپر گرفت کرتاہے اور پھر اُن برائیوں کی تشہیر کے لئے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی غیرمعمولی دوڑ شروع ہوجاتی ہے ،جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''اللہ کسی بری بات کی تشہیر کو پسند نہیں فرماتا،سوائے مظلوم کے (کہ اُسے انصاف طلبی کے لئے ظالم کے خلاف فریاد اور دادرسی کا حق ہے )،(النسا:148)‘‘۔
ازالۂ حیثیتِ عرفی یا کسی کی تحقیر ، تذلیل اور رسوائی (Defamation)سے متعلق قوانین اور ان کے ضوابط بے مصرف اور بے نتیجہ ہیں، عدالتیں بھی اس معاملے میں غیر مؤثر نظر آتی ہیں۔ اکثر آپ پڑھتے ہیں کہ فلاں شخص نے فلاں شخص کو اپنی تذلیل کرنے پر اتنے کروڑ یا اتنے ارب روپے ہرجانے یا برسرِ عام معافی مانگنے کا نوٹس دیا ہے، لیکن ہم نے کبھی بھی ان معاملات کو انجام تک پہنچتے ہوئے نہیں دیکھا اور منظر یہی ہوتاہے کہ پھر : ''چراغوں میں روشنی نہ رہی ‘‘ ۔ یہ اُن لوگوں کے ساتھ نسبتاً زیادہ صورتوں میں ہوتاہے جو قانون سازی اور قانون میں سُقم اور قانون کے بے اثر اور گونگا بہرہ ہونے کی صورت میں قانون سازی کا اختیار رکھتے ہیں اور ان نقائص کو اگروہ چاہیں تو پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے دور کرسکتے ہیں، لیکن ان کا ایسا نہ کرنا بجائے خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
ہم دینِ اسلام کے علمبردار ہیں ،جو اعلیٰ اَخلاقی اور تہذیبی اَقدار کا داعی ، محافظ اور امین ہے۔ رسول اللہﷺ کے ارشاداتِ مبارَکہ ہیں:(1):''تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کا رویہ اپنے اہل کے ساتھ اچھا ہواور میرا برتاؤ اپنے اہل کے ساتھ بہت اچھا ہے، (ابن ماجہ:1977)‘‘۔ (2):''اہلِ ایمان میں سے اس کا ایمان مرتبۂ کمال پر ہے، جس کے اَخلاق سب سے اچھے ہوں ، (ترمذی:2612)‘‘۔ (3):''(قیامت کے دن ) میزانِ عمل میں سب سے بھاری چیز اچھے اَخلاق ہوں گے، (ترمذی:2003)‘‘۔ (4):''رسول اللہﷺ نہ گالی دیتے تھے، نہ بے حیائی کے کام کرتے تھے، نہ کسی پر لعن طعن کرتے تھے، اگر آپﷺ کسی کو عِتاب یا سرزنش بھی فرماتے تو صرف اتنا کہتے : اسے کیا ہوگیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہو، (بخاری:6031)‘‘۔ اس دور میں حجاز کے محاورے کی زبان میں یہ عتاب اور سرزنش کے لئے بے ضرر اور نرم سے نرم الفاظ تھے۔ (5):''تم میں سے سب سے مجھے محبوب اور قیامت کے دن اُس کامقام میرے سب سے زیادہ قریب ہوگا، جس کے اَخلاق سب سے اچھے ہوں گے، (الجامع فی الحدیث لابن وہب:429)‘‘۔ علامہ زبیدی لکھتے ہیں:''ادب ہر اُس قابلِ تعریف( اَخلاقی و تربیتی )ریاضت کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان فضائلِ اَخلاق سے مُزَیَّن ہو، (تاج العروس، جلد:3، ص:36)‘‘۔توشیح اور تہذیب میں ہے:''ادب اُس قابلِ تعریف قول وفعل یا رویّے کو کہتے ہیںجو خوبیوں سے مُزَیّن ہو ، یا جس میں اپنے سے مرتبے میں بڑے کی تعظیم ہو اور چھوٹے کے لئے نرمی ہو‘‘۔
ہم تو اُس رسولِ عظیم کے ماننے والے ہیں کہ جن کے اَخلاق کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں سورۃ القلم ، آیت:4میں عظیم فرمایا۔ذرا سوچئے! کہ اِسی قرآنِ کریم میں ربِ کریم پوری متاعِ دنیا کو قلیل فرما رہا ہے ، تو وہ جسے عظیم فرمائے تو اُس کی عظمت کا عالَم کیا ہوگا؟۔ رئیس المفسرین امام فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ : ''علیٰ‘‘ اِستعلاء اور کسی چیز پر مکمل کنٹرول کے لئے آتا ہے، یعنی رسول اللہﷺ کے اَخلاقِ حسنہ کسبی نہیں تھے بلکہ آپ کی نورانی جِبِلّت ، پاکیزہ سیرت اور فطرتِ سلیمہ کا تقاضا تھے۔ آپ کی سیرت کو اَخلاقِ حَسَنہ کے کسی پہلے سے طے شدہ معیار پر نہیں تولا جاتا تھا، بلکہ آپ کی سیرتِ طیبہ ہی اَخلاقِ حَسَنہ کے لئے معیار ، میزان اور کسوٹی تھی، یعنی اَخلاقِ حَسَنہ اور فضائلِ محمودہ صرف وہی قرار پائیں گے، جو آپ کی سیرتِ طیبہ کا خاصّہ تھے اور جن کا صدور آپ کی ذاتِ مبارَک سے ہوا۔جِبِلّت اور فطرت کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کو خارج سے اَخَذ نہ کیا جائے بلکہ اس کا داعیہ فطرت کے اندر موجود ہو، جیسے بھوک پر کھانے کی طلب، پیاس پر پانی کی طلب، مصیبت پر راحت کی طلب انسان کا داخلی ، فطری اور طبعی تقاضا ہوتاہے اور بچے کے پیدا ہوتے ہی کسی معلّم یا مربِّی کی تربیت کے بغیر اس کی فطرت میں یہ داعیہ اور محرِک موجود ہوتاہے۔ رسول اللہﷺ کی شانِ رحمت کو اللہ تعالیٰ اِن کلمات میں بیان فرماتاہے:''یہ اللہ کی رحمت ہی کا ثمر ہے کہ آپ اُن( صحابۂ کرام )کے لئے نرم ہیں اور اگر (بفرضِ محال) آپ تُند مزاج اور سخت دل ہوتے ، تو یہ (جماعتِ صحابہ) آپ کے اردگرد سے تِتّر بِتّر ہوجاتے، سو اُن کی (لغزشوں)کو معاف فرمائیے ، ان کے لئے( اللہ سے) استغفار کیجئے اور (تدبیرِ امت کے معاملات میں) اُن سے مشورہ کیجئے،(آلِ عمران:159)‘‘۔
جگر مراد آبادی نے کہا تھا ؎
وہ ادائے دل بری ہو، کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے ، وہی فاتحِ زمانہ
دل تو محبت ، نرم دلی ، اپنائیت اور حسنِ اخلاق سے فتح ہوتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے ہاں طاقت ، رعب ودبدبہ ، نمودِ قوت اور وحشت سے اس گوہرِ مقصود کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، ان رویوں سے تَنَفُّر ، تَوَحشُّ اور دلوں کی دوری تو پیدا ہوسکتی ہے، قربت اور محبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن بقولِ حیدر علی آتش ہمارا حال کچھ یوں ہے ؎
لگے منہ بھی چِڑانے، دیتے دیتے گالیاں صاحب!
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا
بناوٹ کیفِ مے سے کھل گئی ، اُس شوخ کی آتش
لگا کر منہ سے پیمانے کو، وہ پیماں شکن بگڑا
حال یہی ہے کہ ہمارا دَہَن، اندازِ گفتار تیز ی سے بگاڑ کی طرف جارہا ہے اور اسے ہم اپنا کمال وافتخار سمجھتے ہیں۔ پھر یہ بھی تو سوچئے! غیر مشروط اطاعت تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کی لازم ہے، ان کے علاوہ خواہ کوئی حاکمِ وقت ہو، کسی گروہ یاجماعت کا قائدورہنما ہو یا کسی بھی اعتبار سے بڑا ہو، ہر صورت میں اُس کے ہر حکم یا قول وفعل کی اتباع لازم نہیں ہے، اُس کے صحیح اور غلط کو قرآن وسنت کے میزان پر پرکھا جائے گا۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :''کسی بھی مخلوق (یعنی بڑے سے بڑے صاحبِ منصب) کی اطاعت لازم نہیں ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہے ،(صحیح مسلم:1840)‘‘۔
ہمارے ہاں قیادت سے وفاداری کا معیار یہ ہے کہ رہنمائی پر فائز کسی بڑے کو اُس کی غلطی پر نہ روکا جائے نہ ٹوکا جائے، اُسے غلطی سے مبرّا سمجھاجائے، اُس کے ہر حکم کی تعمیل کو لازم قرار دیا جائے، تو ایسی صورتِ حال میں جماعتوں اور تنظیموں کے اندر مشاورت اور اصلاح کی توقع عَبَث ہے۔