تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-02-2015

ایک نئی سیاسی پارٹی

اعلان‘ انشاء اللہ‘ چند ماہ بعد ہو گا‘ مگر ابھی سے دل کو چین سا آ گیا۔
آج یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
سمرقند میں شیبانی خان سے دوسری بار شکست کھا کر‘ جواں سال ظہیرالدین بابر شمال کی طرف بھاگ نکلا۔ ایک ایک کر کے شہزادے کے سبھی رفیق اسے چھوڑ گئے۔ بے نیاز پہاڑ تھے اور ان میں کوئی خواب نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ ایک چھوٹے سے قبائلی سردار کے رحم و کرم پر اولوالعزم آدمی‘ آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچتا‘ چار سو برس بعد ایک نامور مورخ کو جسے ''تمام بادشاہوں کا بادشاہ‘‘ لکھنا تھا۔ جوتے پھٹ گئے‘ پائوں زخمی تھے اور دن بھر وہ ویرانے میں مٹر گشت کیا کرتا۔
کیا عجب ہے کہ تین سو سال قبل لکھے گئے‘ فارسی کے اشعار اس کے دل پر دستک دیتے ہوں‘ کہ اس زبان کی شدبد وہ رکھتا تھا اور شاعری سے شغف۔
صبا بہ لطف بگو آں غزال رعنا را
کہ سر بہ کوہ و بیاباں تو دادہ ای ما را
چوں با حبیب نشستی و بادہ پیمائی
بیاد آر حریفانِ باد پیما را
اے صبا‘ اس غزال رعنا کو میرا پیام دینا: کوہ و بیاباں کے حوالے تو نے مجھے کر دیا۔ جب اپنے حبیب کے ساتھ مجلس آرائی کرو تو انہیں یاد کرنا جو ہوا کے ساتھ چلے گئے۔ Gone with the wind۔ انگریزی کا یہ محاورہ غالباً سعدی کے انہی ابیات سے ماخوذ ہے‘ جو ترجمہ کیا گیا اور مغرب کی جامعات میں پڑھایا گیا۔
پاکستانیوں کے پائوں زخمی ہیں اور دل بھی۔ ان کے گریباں چاک ہیں اور وہ ویرانوں میں بھٹک رہے ہیں۔ ایسے میں ایک نئی سیاسی جماعت کی انہیں کیا ضرورت ہے؟
فاتح نے عشروں بعد ''تزک بابری‘‘ کے عنوان سے خود نوشت لکھی تو ان دنوں کے محسوسات کو اس طرح بیان کیا: ''والدہ مکرمہ تشریف لے آئی ہیں۔ اپنے ساتھ بھوکوں کا ایک لشکر لے کر‘‘۔
کیا یہ اقتدار کے بھوکوں کا ایک اور لشکر ہو گا؟ کچھ اور خواب فروش‘ کچھ اور خود فریب‘ جو جاہ طلبی کا شکار ہوں۔ عظمت و شوکتِ دنیا کے لیے سرگرمِ عمل ہوں۔ دوسرے لیڈروں کی طرح برسوں تک لاکھوں لوگوں کی توانائی برباد کریں۔ قومی تاریخ کے لیے ایک اور سیاہ باب رقم کریں۔ گہری ہوتی ہوئی مایوسی میں اور اضافہ کر دیں۔
تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے
پرسوں شام‘ میں ان لوگوں کے ساتھ تھا‘ جنہوں نے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ خود یہ ناچیز ڈیڑھ سال سے اس کی تبلیغ کرتا رہا۔ مگر یہ فیصلہ خود اس کے لیے بھی دھماکہ خیز تھا۔ برسوں میں ان کے درمیان رہا ہوں۔ خدمتِ خلق میں ان کا جی لگتا ہے۔ نمایاں ہونے کے وہ کچھ زیادہ آرزو مند کبھی نہ تھے۔ ان میں سے بعض نے اپنی آمدنی کا قابل ذکر حصہ ستائے ہوئے لوگوں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ تشہیر کیے بغیر کروڑوں روپے انہوں نے صرف کیے۔ ہر بار مشاورت اور ایک طے شدہ نظام کے تحت۔ امن و امان‘ گیس‘ بجلی‘ نظم و نسق‘ تعلیم‘ سول سروس‘ کراچی‘ دہشت گردی‘ ان میں مختلف شعبوں کے ماہرین ہیں۔ قابل اعتبار اور قابل احترام۔ ان میں سے ہر ایک نے کامیاب
زندگی بسر کی اور خود منتخب کردہ میدان میں جوہر دکھائے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر ممتاز لیڈروں کے قرب و جوار میں رہے اور اہم ذمہ داریاں انجام دیں۔ سیاست مگر ان کا انتخاب نہ تھا۔ اول اول اس ناچیز ہی نے انہیں اس طرف متوجہ کیا ''سیاسی تبدیلی کے بغیر‘ اس تگ و تاز سے کیا حاصل‘‘۔ دو سال پہلے ان مکرم لوگوں سے میں نے عرض کرنے کی جسارت کی۔ اقتدار اگر ادنیٰ لوگوں کے ہاتھ میں رہے‘ جہاں دیدہ اور باشعور مردانِ کار سیاست سے اگر الگ رہیں تو ملک کی تقدیر کیسے بدلے گی۔ اصل ضرورت تو ایک جدید جمہوری سیاسی جماعت ہے‘ ابدی اخلاقی اقدار پر تعمیر کیا گیا ایک ادارہ‘ جو بہترین قومی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے۔ ان میں سے بعض نے میری رائے قبول کر لی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں سے رجوع کیا۔ پھر وہ لوٹ آئے اور اس طرح آئے کہ ملال کی گرد‘ ان کے لہجوں اور چہروں ہی میں نہیں‘ ملبوس پر بھی آشکار تھی۔ جیسے کوئی شہسوار جہاد میں زندگی نذر کرنے کی نیت کے ساتھ میدان کو جائے مگر معرکہ ہی برپا نہ ہو۔
گلوئے عشق کو دار و رسن پہنچ نہ سکے
تو لوٹ آئے ترے سر بلند کیا کرتے
دل شکستہ اور غم زدہ‘ ساحل سمندر سے شمال کے کوہساروں تک ایسے کتنے ہی معتبر لوگ ہیں‘ اپنے گھر کے لیے جن کا دل تڑپتا ہے۔ وہ گھر‘ جس کا نام پاکستان ہے۔ پانچ سات دن ادھر‘ کراچی کے ایک ممتاز کاروباری نے ایک جملہ ایسا کہا کہ سینے میں خنجر کی طرح اترا۔ عمر بھر میں کمائی گئی یہ ساری دولت کوئی مجھ سے لے لے۔ بس‘ یہ وعدہ مجھ سے کرے کہ ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس ملک کے رہنے والوں کی عزت انہیں لوٹا دی جائے گی۔
شمار کرنے کی کوشش کی۔ تین سو کے لگ بھگ ایسے لوگ ہیں‘ جو منتخب یا اپنے حلقۂ ہائے انتخاب پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ ہم آہنگ ہو جائیں اور انشاء اللہ ضرور ہوں گے۔ اگر وہ تہیہ کر لیں کہ ہر حال میں مظلوم اور محتاج کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ عہد وہ لازماً کریں گے۔ اگر وہ خود قانون کی پاسداری کریں۔ دل و جان سے اگر وہ پیمان کریں کہ اس سرزمین کو محمد علی جناح کی سرزمین بنا کر دم لیں گے کہ سب قانون کے فرزند ہوں۔ اگر وہ حصولِ اقتدار کے لیے بے تاب نہ ہوں... اور مجھے یہی لگا کہ وہ ہرگز بے تاب نہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ الیکشن 2018ء ہدف نہ ہونا چاہیے۔ دوسرے نے‘ جو اپنے علم‘ دانش اور خلوص سے ممتاز ہے‘ اس پر تبصرہ کیا۔ اگر وہ سب یکجا ہو گئے جنہوں نے وعدہ کیا تو کم از کم پچاس سیٹیں جیت لی جائیں گی۔ قومی ایجنڈے پر اثر انداز ہونے کے لیے یہ بہت ہیں۔ اقتدار نہیں‘ اصلاح اور قومی ترقی مطمحِ نظر ہے۔
توازن اور اعتدال۔ قائد اعظم اور اقبالؔ کا راستہ۔ فروغ علم‘ رواداری اور سچی شائستگی۔ ایک ایسی پارٹی‘ جس میں سبھی لوگ آسودہ ہوں۔ بانیِٔ پاکستان کی طرح‘ تمام تعصبات سے بالاتری۔
سب سے اہم طویل المیعاد منصوبہ بندی ہے۔ لاہور میں پہلے جلسۂ عام کا اعلان کرنے سے قبل تمام شعبوں کے لیے ٹیمیں تیار کرنے کا آغاز کر دیا جائے۔ ماہرین موجود ہیں۔ نوجوانوں کو وہ تربیت دیں۔ کل جب ریل چلانی ہو‘ بجلی پیدا کرنی ہو‘ سول و عسکری تعلقات کا تعین کرنا ہو یا انٹیلی جنس‘ بیوروکریسی اور پولیس کو جدید ترین تصورات کے مطابق ڈھالنا پڑے تو لوگ ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھتے رہ جائیں۔ معیشت سب سے بڑا چیلنج ہے تو اس کے لیے ریاضت بھی زیادہ چاہیے۔ کاروبار کی مکمل آزادی مگر قانون کے دائرے میں۔ مکمل طور پر بااختیار افسر مگر ضابطوں کی حدود میں۔ خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی پریس کے خارزار ادق ہیں؛ چنانچہ تحقیق‘ چنانچہ عرق ریزی۔ جب کوئی پارٹی حکومت سنبھالتی ہے تو ہکا بکا کھڑی رہ جاتی ہے۔ ہفتوں نہیں‘ مہینوں تک اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اوّل دن سے آغاز کار ہونا چاہیے۔ جتنے بھی میسر ہوں‘ اوّل روز امیدواروں کا اعلان کر دیا جائے۔ نام واپس لیا جا سکتا ہے‘ اگر کوئی ناقص نکلے۔ پہلے دن منشور کا اعلان۔ ملک کے مختلف حصوں کے لیے ان کی ضروریات کے مطابق ترقیاتی منصوبے۔ پسماندہ علاقوں کے لیے خاص طور پر۔ اساتذہ کی تربیت کا نظام کہ تعلیمی ادارے چند سال میں چمک اٹھیں اور اِدبار سے نجات پائیں۔ بلدیاتی اداروں کا فوراً انتخاب ہی نہیں بلکہ تشکیل نو کہ جدید سماج ان کے بغیر تعمیر نہیں ہو سکتا۔ وہی قیادت کی اولین تربیت گاہ ہوتے ہیں۔ محاذ آرائی سے‘ تلخیوں سے حتی الامکان گریز۔ غیر ضروری جلسوں اور جلوسوں سے۔ ریاضت کارکنوں کی تربیت میں ہونی چاہیے اور نگاہ مستقبل پر۔ کوئی دوسری پارٹی معقولیت پر ہو تو اس سے تعاون۔ ملک کے مفاد میں ہو تو غیر مشروط تعاون۔
اعلان‘ انشاء اللہ‘ چند ماہ بعد ہو گا‘ مگر ابھی سے دل کو چین سا آ گیا۔
آج یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved