وقار پارس کا موبائل پیغام مجھے آج سے بیس برس پہلے کے ملتان میں لے گیا ۔ میںنے کال بیک کیا اور سب سے پہلے پوچھا شاہ صاحب کا کیا حال ہے۔وقار بولا‘ ابو ملتان میں تنہا ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر افتخار پارس رحیم یار خان، مختار پارس اسلام آباد اور میں پنڈی جاب کرتا ہوں ۔ وقار کی امی چند برس پہلے ہی فوت ہوگئی تھیں۔ وہ وقار ہی کی نہیں‘ میری بھی ماں تھیں۔ مجھے لگتا ہے میری ماں دو دفعہ فوت ہوئی۔
مجھے یاد آیا اس وقت شاہ صاحب کی عمر پچاسی برس ہوچکی ہے۔ اس عمرمیں تنہائی مزید کاٹنے لگتی ہے۔دل پر ایک عجیب سا بوجھ محسوس ہوا ۔ سردیوں کی دھوپ نے پہلی بار مجھے کاٹنا شروع کیا اور مجھے اپنا آپ اداس محسوس ہوا۔ ناسٹلجیا مجھ پر حملہ آور ہوا۔ 1991ء میں باقر شاہ تازہ تازہ ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ساری عمر ٹیکسیشن افسر رہے۔ ایماندار انسان جس نے ساری عمر عزت کمائی اور لوگوں کو پیار دیا ۔ میں حیران ہوتا تھا کہ شاہ صاحب غصہ کیسے کرتے ہوں گے۔ انہیں میں نے کبھی ناراض نہیں دیکھا تھا ۔ میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب ملتان یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے اپنے کلاس فیلو مختار پارس کے گھر جانا شروع کیا ۔ شاہ جی سے ملا تو ان کے چہرے پر عجیب سا سکون محسوس ہوا ۔ ہم سب کو لگتا تھا کہ وہ پارس کے نہیں بلکہ ہم سب کے والد تھے۔ ایک بار‘ جب میرے پاس ملتان میں رہنے کی جگہ نہ رہی تو میں نے بیگ اٹھایا اور شاہ جی کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے مجھے گلے لگایا اور کہا‘ آج سے یہ تمہارا گھر ہے‘ تم یہیں رہو گے۔ میرے لیے ایک کمرہ کھول دیا گیا۔ چند دن بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ اتنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ شاہ جی کے کبیر والا سے رشتہ دار آتے تو حیران ہوتے کہ ایک اجنبی ایک سید گھرانے میں کیسے رہ رہا ہے۔ شاہ جی کے احترام میں کوئی کچھ نہ کہہ سکتا مگر سب کی آنکھوں سے حیرانی ضرور چھلکتی۔
ان کے گھر نوائے وقت آتا۔ وہ صبح کی نماز کے بعد واک کرتے‘ پھر اخبار لے کر بیٹھ جاتے اور ایک ایک لفظ پڑھتے۔ میں دیر سے اٹھتا تو وہ میرے ساتھ خبریں ڈسکس کرنا شروع کر دیتے۔ شاہ جی اور میں گھر کے لان میں چائے پر طویل گفتگو کرتے۔ اگر کبھی میں گفتگو میں تلخ ہوجاتا تو فوراً بات بدل دیتے اور قہقہہ لگا کر ماحول کو خوشگوار بنا دیتے۔ کچھ دیر بعد ان کے ایک اور پرانے اور ریٹائرڈ دوست چوہدری صاحب آجاتے‘ پھر چائے کا نیا دور چلتا اور پھر سے گفتگو شروع ہو جاتی۔ چوہدری صاحب بھی میری طرح جذباتی ہو کر بحث کرتے اور شاہ جی ہنستے ہوئے گفتگو انجوائے کرتے۔
مجھے یوں لگا میری بچپن سے محرومی کسی حد تک دور ہوگئی۔میں تیرہ برس کا تھا کہ بابا فوت ہوگئے تھے۔ مجھے شاہ جی کو دیکھ کر بابا یاد آتے اور میں ان کے مزید قریب ہوتا چلا گیا۔ شاہ جی کے اپنے ماشاء اللہ چار بیٹے ہیں‘ لیکن مجھے لگا کہ میں ان کا پانچواں بیٹا ہوں۔ میری اور مختار پارس کی اکثر تلخی کی حد تک شدید بحث ہوتی۔ میں بھی بادشاہ تھا جو ان کے گھر میں رہتا اور لڑائی بھی کرتا ۔ کچھ دن بات چیت بھی بند رہتی۔ آخر شاہ جی کہتے‘ میرا خیال ہے مجھے دونوں دوستوں کی صلح کرانی پڑے گی۔ پارس اکثر اس بات پر کڑھتا کہ میں زندگی کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوں۔ میں اس طرح محنت نہیں کررہا جس طرح کرنی
چاہیے۔ پارس کو میرے رومانس پر بھی اعتراضات ہوتے اور شاید وہ حیران بھی ہوتا کہ رہنے کو گھر نہیںاور موصوف عشق بھی فرماتے ہیں ۔ آخر شاہ جی ہم دونوں کی صلح کراتے۔ وہ ہمیشہ میری سائیڈ لیتے اور اپنے بیٹے کو پیچھے کر کے مجھے آگے کرتے۔ پتہ نہیں شاہ جی کو مجھ پر کیسا یقین تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ میں کچھ نہ کچھ کر لوں گا‘ اس لیے اکثر میرا دفاع کرتے۔ پارس کا موڈ خراب بھی ہوتا تو بھی شاہ جی میرا ساتھ دیتے۔
برسوں بعد پارس نے ایک دن مجھے اسلام آباد میں بتایا کہ ابوکہتے ہیں‘ ان کا جی چاہتا ہے رئوف کو بھی اپنی جائیداد میں سے حصہ دوں۔ میں بڑی دیر تک بیٹھا ان کی محبت کی خوشبو محسوس کرتا رہا۔ یاد آیا‘ ان کے چھوٹے بیٹے وقار پارس نے اچھے نمبروں سے ایف ایس سی کر لی تھی اور اب انجینئرنگ میں داخلہ لینا چاہتا تھا ۔ شاہ جی راضی نہیں ہورہے تھے۔ پورے گھر نے کوشش کر کے دیکھ لی۔ سب ناکام ہوگئے۔ شاہ جی چاہتے تھے کہ وہ ملتان کے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لے جب کہ اس کا یو ای ٹی لاہور میں داخلہ ہورہا تھا۔ جب سب ناکام ہوگئے تو میں نے شاہ جی کے ساتھ بات کی اور وہ راضی ہوگئے۔ جو بات ان کے اپنے بیٹے نہ منوا سکے تھے‘ میں نے منوا لی تھی۔ کچھ بیمار ہوگئے تو انہوں نے علاج کرانے سے انکار کر دیا۔ پورا گھر پریشان ہوگیا۔ میں خاموش بیٹھا سب کچھ دیکھتا رہا۔ مختار، افتخار، وقار، کاکا اور پورا خاندان پریشان تھالیکن شاہ جی ماننے کو تیار نہیں تھے۔ کہتے تھے جو خدا کی مرضی ہوگی دیکھی جائے گی‘ وہ خدا کی رضا کے سامنے سر جھکانے کو تیار ہیں۔ باقی چھوڑیں ٹیسٹ کرانے کو بھی تیار نہیں تھے۔ پورے گھر پر سوگ کی سی کیفیت تھی۔ اگلی صبح وہ پھر اکیلے بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ میں اٹھا اور چائے کا کپ لے کر ان کے قریب بیٹھ گیا۔ پانچ منٹ کے بعد انہوں نے اپنے بیٹے افتخار پارس کو کہا کہ ٹھیک ہے میں علاج کرانے کو تیار ہوں۔ سب بچے حیران ہوئے کہ جو کام ہم سب مل کر نہ کراسکتے تھے‘ میں کیسے ان سے کرا لیتا تھا۔ میں مسکرا کر کہتا یہ راز کیوں بتائوں۔باقی مجھے پتہ تھا کہ وہ مجھ سے پیار کرتے تھے اور یہ پیار ہی تھا جس کی وجہ سے انہوں نے میری وہ باتیں تک مان لی تھیں جو ان کے اپنے بچے ان سے نہ منوا سکے تھے۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ میرا زیادہ خیال کرتے کہ میں ان کے گھر ٹھہرا ہوا تھا اور ان کے اندر اتنی مروت تھی کہ وہ مجھے ناں کرنے سے گھبراتے تھے۔ ان کی روایتی مہمان نوازی اور مروت کا میں فائدہ اٹھاتا تھا۔
میری شادی ہوئی تو انہوں نے گھر پر مہمانوں کا کھانا دیا ۔ بہت خوش ہوئے اور پھر میں ملتان چھوڑ کر اسلام آباد آگیا۔ ان کے ساتھ دھیرے دھیرے رابطوں میں کمی آتی گئی۔ ملتان جاتا تو ضرور ان سے ملنے جاتا اور وہ بے پناہ خوش ہوتے۔ تاہم ان کو زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب پارس کی امی فوت ہوئیں۔ ملتان گیا تو وہ مجھے دیکھ کر اٹھے۔ گلے لگے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ پارس نے کہا امی کو فوت ہوئے دو دن ہوگئے ہیں۔ کسی سے مل کر نہیں روئے۔ تمہیں دیکھ کر ان کی آنکھیں نم ہوگئی ہیں۔ میری اپنی آنکھیں مسلسل برس رہی تھیں۔ شاہ جی مجھے گلے سے لگا کر کافی دیر تک بیٹھے رہے۔ مجھے لگا ان کے اندر کا دکھ کچھ ہلکا ہوگیا تھا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ شاہ جی مجھے سے اتنا پیار کرتے تھے۔
جب بھی ملتان ملنے جاتا‘ کوشش ہوتی کہ ان کے گھر ضرور جائوں ۔ ایک دن کہنے لگے‘ پارس کی امی جب تمہیں ٹی وی پر دیکھتیں تو کہتیں کہ یہ تو بڑا آدمی بن گیا۔ ہم نے اس کی گھر میں شاید مناسب مہمان نوازی نہیں کی تھی۔ میں کہتا‘ جتنا امی نے میرا خیال رکھا‘ وہ میری اپنی ماں کے سوا کوئی نہیں رکھ سکتا تھا۔
میں نے اپنی کتاب ''ایک قتل جو نہ ہوسکا‘‘ لکھی تو وہ ان کے نام معنون کی۔ کتاب انہیں پیش کی تو اپنے نام انتساب پڑھ کر جتنا انہیں خوش دیکھا‘ مجھے یوں لگا کہ میری ساری عمر کی محنت کام آگئی تھی۔
دو برس قبل نعیم بھائی فوت ہوئے تو وہ اسی برس سے زائد عمر میں بھی ملتان سے لیہ میرے گائوں ہمارا دکھ بانٹنے آئے۔ انہیں علم تھا کہ ہماری زندگیوں میں نعیم بھائی کی کیا اہمیت تھی اور ہم کتنے بڑے دکھ میں سے گزر رہے ہوں گے۔ میں ان کے گلے لگ کر روتا رہا اور وہ مجھے اپنی بانہوں میں لے کر کھڑے پیار کرتے رہے۔
آج وقار سے بات ہوئی تو بولا ابو تنہا رہ گئے ہیں ۔ ان کی عمر اب پچاسی برس ہوچکی ہے! اسلام آباد کی اداس سرد شاموں میں باقر شاہ صاحب کی ملتان میں تنہائی کا سن کر اپنے بڑھاپے اور تنہائی کا خوف مزید گہرا ہو گیا ہے!