تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-02-2015

’’محبت‘‘ اور آسانی

گزشتہ برس ہم نے عمر کا ایک ایسا سنگِ میل پار کیا جس نے دِل کو خُون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا۔ 24 اپریل 2014 کو ہم خیر سے پچاس برس کے ہوئے۔ یعنی یہ نصف صدی کا قِصّہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں! اب آپ سوچیں گے اِس میں خُون کے آنسو رونے والی بات کون سی ہے۔ روزانہ لاکھوں افراد 50 سال کے ہو جاتے ہیں۔ تو کیا وہ سب بھی خُون کے آنسو رونا شروع کردیں؟ ہمیں پچاس سال کا ہونے پر اعتراض نہیں۔ وہ تو ہمیں ہونا ہی تھا۔ رونا اِس بات پر آتا ہے کہ ہم نے پچاس برس ضائع ہی کئے۔ یا یُوں کہیے کہ کچھ ایسا تھا ہی نہیں کہ ہم انجوائے کرتے۔
جب ہم نے اِس دُنیا میں قدم رکھا تب یہ خاصی ''دقیانوسی‘‘ تھی۔ کسی کو کچھ پتا ہی نہیں تھا کہ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ جوانی آتی تھی اور گزرنے لگتی تھی۔ کوئی ایسا انتظام تھا ہی نہیں کہ جوانی کی آمد کا اعلان ہو اور لوگوں کو بتایا جائے کہ جوانی دیوانی کا عہدِ زَرّیں کس طور گزارا جاتا ہے۔
جائز و ناجائز کی بحث پھر کبھی سہی، ہر سال ویلنٹائن ڈے آتا ہے تو ہمیں بھی عہدِ زَرّیں یاد آتا ہے۔ جوانی کب آئی اور کب رخصت ہوئی ہمیں تو کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ جب تک جوان ہونے کا یقین آتا اور اُس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کا سوچتے، تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ بقول فرحت شہزادؔ ؎
کُھلی جو آنکھ تو وہ تھا نہ زمانہ تھا
دَہَکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا
دیکھتے ہی دیکھتے عمر کا سُورج زوال کی نہج پر پہنچا اور پھر اُس کے ڈھلنے کا سفر شروع ہوا۔ جوانی کے نقطۂ آغاز سے ہمیں کسی نے خبردار نہیں کیا تھا مگر ہاں، ڈھلتی عمر کا احساس دلانے والے قدم قدم پر ملے۔ عمر کے ڈھلنے کا احساس ہمیں اُس وقت سے ہونے لگا جب شادی کی تقریب میں نوجوان ہمیں کھانا نکالنے کی زحمت سے بچانے لگے! جیسے ہی ہم کھانے کی پلیٹ تھامتے تھے، نوجوان فوراً کہتے۔ ''انکل! آپ کیوں زحمت کرتے ہیں؟ ہم ہیں تو سہی۔‘‘
اور ہاں، پبلک ٹرانسپورٹ میں ہمیں دیکھتے ہی ''انکل، آپ بیٹھیے‘‘ کی صدائیں بُلند ہونے لگتیں۔ اب کیا بتائیں کہ اِس ''توقیر‘‘ کو ہضم کرنے میں ہمیں دِل پر کس قدر جبر کرنا پڑا!
جب ہم پر جوانی آئی تھی تب دُنیا کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہی تھا۔ ایک ذرا سی، ناتواں سی جوانی کو زمانے بھر کی ذمہ اریوں کا بوجھ اُٹھانا پڑتا تھا۔ بچپن ہی سے علامہ اقبالؔ کو پڑھنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا تھا کہ جب بچے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے تھے تو کسی حسین پر مَر مِٹنے سے پہلے ہی اُمّتِ مُسلمہ کا حسین ماضی اُن کے دِل و دِماغ کو اپنی گرفت میں لے چکا ہوتا تھا یعنی ماضی کی شان و شوکت کے احیاء کی ذمہ داری ناتواں کاندھوں پر آن پڑتی تھی۔ اور خودی کو بُلند کرنے کی فکر بھی دامن گیر رہتی تھی۔ یہ تو اجتماعی ذمہ داری کا معاملہ تھا۔ اِس سے ذرا فراغت ملتی تو انفرادی سطح پر خودی کو بلند کرنے کی فکر بھی دامن گیر رہتی تھی۔
نئی نسل بہت خوش نصیب ہے کہ جوش اور جُنون کے زمانے یعنی جوانی کو کنٹرول کرنے کے لیے اُس کے پاس بہت کچھ ہے۔ جوانی اگر دیوانی نہ ہوتی تو اُس پر قابو پانے کے لیے اہلِ مغرب کو طرح طرح کے چونچلے متعارف کرانے کے لیے اِتنی محنت نہ کرنا پڑتی! ابھی کل تک جو بچے تھے وہ دیکھتے ہی دیکھتے خاصے بڑے ہوگئے ہیں اور ہم سے عجیب سوالات پوچھتے پھرتے ہیں۔ آج کی نئی نسل جن چونچلوں میں پھنسی ہوئی ہے اُن کا ہمارے زمانے میں تصوّر تک نہ تھا۔
اب ہم آج کی آسانیوں کا سوچتے ہیں تو حسرت سے (اپنا) دِل تھام کے رہ جاتے ہیں۔ کون سا معاملہ ہے جو اب مشکل رہ گیا ہے؟ اور تو اور، اب تو دِل لینا یا دینا بھی کھیل ہوگیا ہے۔ ''شعور‘‘ کی سطح اِتنی ''بلند‘‘ ہے کہ بچہ ہوش سنبھالتے ہی سینے کے پنجرے میں مُقیّد دِل کو آزاد کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ اور کیوں نہ سوچے؟ آزاد کئے جانے والے دِل کی بھرپور پرواز کے لیے ہر طرف فضاء جو پیدا کردی گئی ہے۔
ایک ہمارا زمانہ تھا کہ کسی کو دِل دینا ہو تو اُسے ڈھونڈنا اور پھر اُس تک پہنچنا پڑتا تھا۔ یعنی سب کچھ physical اور manual تھا۔ پہلے تو کئی ماہ کی محنت و مشقّت کے ذریعے محبوب سے رابطہ کیجیے، پھر محبت کی پیشکش کے جواب کا بھی ہفتوں انتظار کیجیے۔ اور اگر اُس طرف سے گرین سگنل مِل بھی جائے تو سب سے بڑا مسئلہ ملاقات کا تھا۔ تب وقت ضائع کرنے والے مشاغل تو تھے نہیں اِس لیے چھوٹوں اور بڑوں کے پاس نوجوانوں کی نگرانی کے لیے بہت وقت تھا۔ جہاں کسی نوجوان کے معمولات میں کوئی تبدیلی دِکھائی دیتی، سب ٹوہ لینے میں لگ جاتے تھے۔ معاملہ جب یہ ہو تو کوئی کیا خاک محبت کرے؟ جو وقت کِسی سے مِلنے اور دِل کی بات سُنانے کے لیے مختص ہوتا تھا وہ تو جاسوس نگاہوں سے بچنے کی کوشش میں ٹھکانے لگ جاتا تھا!
''غیر سنگ دِل‘‘ محبوب کی تلاش، محبت کی پیشکش، پیشکش کا قبول کیا جانا، پھر جاسوس نگاہوں سے بچ کر محبت کی گاڑی کو رواں رکھنا ... یہ تمام مراحل خاصے جاں گُسل تھے۔ آدھی جوانی تو اِسی بُنیادی پروسیجر میں گزر جاتی تھی۔ باقی نصف جوانی حُسن والوں کے ناز اُٹھانے اور اُن کے دیئے ہوئے زخم ہائے دِل پر مرہم رکھنے میں گزر جاتی تھی۔ اگر کچھ وقت بچ جاتا تو پیار کی بھی دو چار باتیں ہو جاتی تھیں ورنہ وہ کسی اَگلے جنم پر ملتوی کردی جاتی تھیں!
ہمارے زمانے کی محبت میں ایک بڑی قباحت اور بھی تھی۔ تب تک لوگ زیادہ ''روشن خیال‘‘ نہیں ہوئے تھے اِس لیے ''آن دی اسپاٹ‘‘ ٹائپ کے تعلقات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ خاص طور پر لڑکیاں۔ اگر کوئی ڈھنگ کا بے وقوف دکھائی دے جاتا تو وہ زندگی بھر ساتھ نبھانے کے سپنے دیکھنے میں دیر نہیں لگاتی تھیں۔ اب اگر کوئی نوجوان دِل لگانے کے بعد احتیاط نہ برتتا یعنی تعلقات کو ذرا سا بھی طُول دیتا تو محبت کو ''گناہِ بے لَذّت‘‘ بنتے دیر نہیں لگتی تھی یعنی محبوب کو جیون ساتھی بنانا پڑتا تھا! اُس دور کی نئی نسل (ظاہر ہے، ہم سمیت!) خاصی بُدّھو واقع ہوئی تھی۔ دِل پشوری کے نام پر شروع کئے جانے والے کھیل کو گلے کا پھندا بنالیتی تھی اور پھر باقی عُمر دِل رو رو کر دُہائی دیتی رہتی تھی کہ کِسی سے کوئی پیار نا کرے! مگر صاحب بقول باقیؔ صدیقی ؎
اپنی قسمت سے ہے مَفر کِس کو؟
تیر پر اُڑ کے بھی نِشانے لگے!
جن کی تقدیر میں محبت لکھ دی جاتی تھی وہ خاندان یا محلے کے بڑے سے بڑے بزرجمہر کی بات کو بھی جُوتے کی نوک پر رکھ کر گھر سے نکلتے تھے اور اپنا نرم و نازک، محبت بھرا دِل سنگ دل محبوب کے قدموں میں رکھ کر ہی دَم لیتے تھے!
زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔ فُل ٹائم سے معاملات پارٹ ٹائم تک آئے اور اب instant کی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔ یعنی سب کچھ وقتی ہے۔ آج کسی کو پُھول پیش کیجیے، کل خود اُسے بھی یاد نہیں رہے گا کہ پُھول کِس نے پیش کیا تھا! جب ہم زمانے کی ایسی تیزی، موقع شناسی اور ''روشن خیالی‘‘ پر غور کرتے ہیں تو اپنے ''دقیانوسی‘‘ ہونے پر یقین اور بھی پُختہ ہو جاتا ہے!
وہ دور لَد گیا کہ کسی کو دِل دیا تو سمجھ لیجیے زندگی بھر کا سَودا کیا۔ جس طرح موت کا ایک دن مُعیّن ہے اُسی طرح اب سال بھر میں محبت کا بھی ایک مُعیّن ہے۔ محبت کا اظہار صرف ایک دن۔ وہ بھی اِس وارننگ کے ساتھ کہ ہمت ہے تو پاس کر، ورنہ برداشت کر! اور باقی پورا سال محبت کے نام پر صرف دِل پشوری! ہیپی ویلنٹائن ڈے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved