پہلے یہ کریڈٹ جنرل حمید گل اور جنرل نصیراللہ بابر لیا کرتے تھے لیکن اب جنرل مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے گاڈفادر دراصل وہ ہیں اور انہوں نے انہیں افغانستان میں طاقت بخشی تھی۔ برطانوی اخبارکو دیے گئے انٹرویو میں یہ کریڈٹ لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کو خفیہ ادارے کے ذریعے کھڑا کیا گیا تھا۔ اس سے مجھے ہلیری کلنٹن کی کتاب یاد آ گئی جس میں وہ لکھتی ہیں کہ پاکستان نے اپنے گھر کے پچھواڑے میں یہ سوچ کر سانپ پال لیے تھے کہ وہ صرف اس کے ہمسائے کو کاٹیں گے۔ جنرل مشرف کا اعتراف ہلیری کلنٹن کی بات کو درست ثابت کرتا ہے کہ غالباً ہم نے یہ تباہ کن کھیل کھیلا تھا۔ جب میں نے ہلیری کلنٹن کی آپ بیتی پڑھی تو سمجھا کہ امریکی بھی تو طالبان کے جنم میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں، لیکن جنرل مشرف کے انٹرویو سے محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ دور کے طالبان پاکستان نے خود پیدا کیے، اس میں امریکہ کا ہاتھ نہیں تھا۔
جنرل (ر) مشرف کا انٹرویو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران کس طرح کے فیصلے کرتے ہیں اور اگر کوئی فوجی اقتدار میں آ جائے تو اس کے سوچنے کا انداز بھی بدل جاتا ہے۔ جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد انہوں نے خفیہ ادارے کے ذریعے طالبان کو کھڑا کیا تاکہ افغانستان کے اندر بھارتی ایجنسی سے پراکسی جنگ لڑی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھارت کا مقابلہ کیا گیا۔ جنرل مشرف اب یہ چاہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان اپنی پراکسی وار ختم کر دیں۔ سوال یہ ہے کہ جوکام وہ خود نہ کر سکے وہ موجودہ آرمی چیف کیوں کریں گے؟ یہ انٹرویو پڑھ کر میں سمجھ نہیں پا رہا کہ اس پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔ جنرل مشرف نے کتنی سہولت سے کہہ دیا کہ انہوں نے طالبان کو افغانستان میں کھڑا کیا تھا تاکہ وہاں بھارتی ایجنسیوں سے لڑا جائے۔ افغانستان میں جو انسانی لہو بہا، اس کا ہمیں اندازہ نہیں، گویا جنرل مشرف اعتراف کر رہے ہیں کہ افغانستان میں ان برسوں کے دوران جو لہو بہا‘ اس کے ذمہ دار اس جنگ میں حصہ لینے والے سبھی ممالک ہیں۔ کابل کے ہوٹلوں پر جو حملے ہوئے، مختلف ملکوں کے سفارت خانوں کو طالبان نے اڑایا، مارکیٹوں میں خریداری کرتی عورتوں اور بچوں کو بموں سے اڑایا گیا یا جو خود کشں حملے ہوئے وہ ہم سب مل کر کرا رہے تھے؟ افغانستان میں مقامی باشندے اس پراکسی وار میں مارے گئے۔ ذرا سوچیں، پشاور کے اے پی ایس میں بچوں کو مارنے والے کون تھے؟ دل روتا ہے کہ مارے جانے والے بچے فوجیوںکے تھے اور انہیں مارنے والے سابق آرمی چیف کے بقول ہمارے اپنے لوگ تھے جنہیں افغانستان میں بھارت اور امریکہ کے خلاف استعمال کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ گویا۔۔۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ جنرل مشرف کہتے ہیں، حامد کرزئی نے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا، لیکن اس اعتراف کے بعد کہ افغانستان میں ہم نے ہی طالبان کے ذریعے جنگ لڑی، یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ کس نے کیا کیا؟
اس انٹرویو سے محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان کو ہم نے ہمیشہ اپنی جاگیر سمجھا اور اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا۔ ہم نے بھارت کے ساتھ اپنے 'سکورز سیٹل‘ کرنے کے لیے افغانوں کی زندگیاں حرام کر دیں۔ جو افغانی لڑ نہیں سکتے تھے‘ انہوں نے اپنی سرزمین کو تنگ پا کر پاکستان کا رخ کیا‘ جس سے ہماری معیشت اور سوسائٹی تباہ ہو گئی۔ ہمارے جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ بھارت کو وہاںکنٹرول کرنا ضروری تھا۔ میں حیران ہوں کہ بھارت کی سرحدیں مشرقی جانب ہم سے ملتی ہیں لیکن ہم مغرب میں بھارت سے لڑتے رہے۔ اگر ہمیں تباہ ہی ہونا تھا تو ایک براہ راست جنگ بھارت سے لڑ کر تباہ ہو جاتے، روز روز کے مرنے سے تو یہ بہتر ہوتا۔ یہ تو بھارت کی کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ اس نے پاکستان کو افغانستان میں مصروف رکھا کیونکہ ہم پر ہمیشہ الزام لگتا ہے کہ اگر افغانستان میں امن ہو تو ہم طالبان کو مجاہدین بنا کر کشمیر بھیج دیتے ہیں، لہٰذا بھارت نے اس دفعہ پاکستان کو افغانستان میں مصروف رکھا جبکہ ہم خوش ہوتے رہے کہ ہم نے بھارت کو وہاںکنٹرول کر رکھا ہے۔
ہم نے افغانستان کو پراکسی وارز کا مرکز بنائے رکھا تو کچھ مسلم ملکوں نے پاکستان میں اپنی فرقہ وارانہ پراکسی وار جاری رکھی۔ ہماری ذہانت دیکھیں، ہمارے دوست ملک ہمارے ہاں فنڈنگ کرکے اپنی پراکسی جنگیں لڑ رہے تھے اور ہم افغانستان میں اپنی پراکسی جنگ بھارت کے خلاف لڑ رہے تھے۔ ہم اپنے ہاں دوست ملکوں کی پراکسی وارز روکنے کے بجائے الٹا افغانستان میں گھس گئے۔ جو جنگ ہم افغانستان میں بھارتی ایجنسیوں کے ساتھ لڑ رہے تھے اب وہ جنگ پاکستان کے اندر پہنچ چکی ہے اور ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ اس جنگ کو اپنی مرضی سے لڑ سکیں۔ ہم پر یہ بھوت سوار ہو چکا تھا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ جنگ، افغان سرزمین پر لڑنی ہے۔ میرا خیال یہ ہے بھارت کے لیے بھی اس سے بہتر آپشن کوئی نہیں کہ یہ کام افغانستان میں کیا جائے۔ اب تو بھارت کے ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدے دار نے بھی کھل کر کہہ دیا ہے کہ وہ طالبان کے ذریعے پاکستان کو تباہ کر سکتے ہیں اور یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔
کوئی ہے جو جنرل مشرف اور دوسرے لوگوں سے پوچھے کہ آپ نے جو طالبان کھڑے کیے تھے اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ کیا بھارت ہمارے قدموں پر گر گیا اور کشمیر ہمیں مل گیا ہے؟ کیا طالبان ہماری جنگ لڑ رہے ہیں یا ہمارے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں؟ کیا اس جنگ میں بھارت کے ساٹھ ہزار شہری مارے گئے یا یہ پاکستانی تھے جو گاجر مولی کی طرح کٹ گئے؟ ہم کیوں بھول گئے کہ جن افغان طالبان کو ہم خرید کر استعمال کر سکتے ہیں انہیں کوئی اور بھی زیادہ پیسے دے کر استعمال کر سکتا ہے۔ اگر افغان طالبان ہمارے ہاتھ میںکھلونا بن سکتے ہیں تو وہ بھارت کے ہاتھ میں بھی کھلونا بن سکتے ہیں۔
ہماری اس پالیسی کا یہ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم پوری دنیا میں انتہا پسند مشہور ہو گئے۔ ہمارے دوست ایک ایک کرکے ہم سے دور ہو گئے۔ چین اور امریکہ نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم بھارت سے افغانستان میں جنگ لڑنا بند کر دیں اور تجارت کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب آئیں، لیکن ہم نے کسی کی سنی نہ مانی۔ مجھے یاد ہے، 2007ء سے نیٹو فورسز کے کمانڈرز نے پاکستان کو کہنا شروع کیا تھا کہ افغان طالبان کو اسلحہ دینا بند کریں۔ لیکن ہم نے
طالبان کی کوئٹہ شوریٰ بنائی، افغان طالبان کو اپنے ہاں مستقل مہمان بنا کر رکھا اور ان کے اخراجات پاکستانی قوم برداشت کرتی رہی۔ سیکرٹ مشن کے نام پر پاکستانی وزیر اعظم سپلیمنٹری گرانٹس جاری کرتے رہے اور وہ سارا پیسہ افغان طالبان کے قیام و طعام پر خرچ ہوتا رہا۔ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق ایک اہم ادارے کے ڈی جی کو راجہ پرویز اشرف نے چار ارب روپے کی گرانٹ دی۔ ہم اربوں روپے خرچ کرکے اپنے بچوں کے قاتلوں کو اپنے گھر میں بٹھا کر کھلاتے پلاتے رہے اور آج روتے ہیں کہ طالبان نے ہمارے بچے مارے ہیں۔ جن جرنیلوں نے یہ طالبان بنائے تھے وہ آج ٹی وی پر ہیرو بنے بیٹھے ہیں، وہ ریٹائرڈ جنرل آج بھی اپنا پرانا منجن بیچ رہے ہیں،انہیں کوئی پروا نہیں کہ ان کے کھڑے کیے ہوئے طالبان نے ہی فوجیوںکے بچوںکا ان کی آنکھوں کے سامنے خون بہایا۔ ہم بھول گئے کہ مرضی سے جنگ شروع تو کی جا سکتی ہے لیکن مرضی سے ختم نہیں کی جا سکتی۔ آپ بتائیں، رویا جائے یا ہنسا جائے۔
جنرل مشرف فرماتے ہیں، انہوں نے افغانستان میں نائن الیون کے بعد طالبان کو کھڑا کیا تھا، انہیں پیسے دیے اور خوفناک اسلحہ دیا؛ آج صرف تیرہ برس بعد پشاور میں انہی افغان طالبان کے ہاتھوں ہمارے ایک سو چالیس بچوں کے گلے کاٹے گئے جس کے بعد جنرل راحیل اسی افغانستان گئے اور مطالبہ کیا کہ افغانستان میں چھپے پاکستانی طالبان کو ختم کیا جائے۔ میجر جنرل عاصم باجوہ ہمیں طالبان اور پشاور سکول پر حملہ آور درندوںکی گفتگو اپنی پریس کانفرنس میں سناتے ہیں۔
واقعتاً ہمیں طالبان کو طاقت فراہم کرنے والے قیمتی ہیرے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ایسے سپوت بھلا روز روز تھوڑی پیدا ہوتے ہیں، رہے نام اللہ کا۔۔۔!