تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-02-2015

عادتیں

بعض اوقات عادتیں‘ خواہ وہ بظاہر کتنی بے ضرر ہی کیوں نہ ہوں‘ بڑا خوار کرتی ہیں۔ میں گزشتہ چار دن سے اپنی ایک ایسی ہی عادت کے ہاتھوں خوار ہو رہا تھا۔ مجھے پین کے ساتھ لکھنے کی عادت ہے۔ بال پوائنٹ‘ پوائنٹر یا رولر بال وغیرہ سے تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ پین بھی پرانی طرز کا فائونٹین پین۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ میں اب بھی پندرہ بیس روپے والے اسی طرح کے پین سے لکھتا ہوں جس سے سکول میں لکھنا سیکھا تھا۔ سکول میں ایگل پین سے لکھتا تھا‘ اب وہ کمپنی شاید بند ہو چکی ہے‘ اب ویسا ہی ڈالر کا پین آتا ہے جس میں سیاہی بھری جاتی ہے۔ اب اس قسم کے پین یورپ وغیرہ میں تو بننے بند ہو چکے ہیں۔ اب زیادہ سے زیادہ وہ پین ملتے ہیں جن میں پہلے سے روشنائی بھری ہوئی کارٹریج لگا دی جاتی ہے اور ختم ہونے پر خالی کارٹریج اتار کر پھینک دی جاتی ہے اور نئی لگا دی جاتی ہے۔ روشنائی بھرنا متروک ہو چکا ہے‘ لہٰذا سیاہی کی دوات بھی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔
دس بارہ سال قبل برطانیہ میں یہی دقت پیش آئی۔ تب ایک دوست نے پاکستان سے لائی ہوئی سیاہی کی دوات کا تحفہ پیش کر کے مشکل حل کردی۔ تب سے یہ ہوا کہ روشنائی کی دوات سامان سفر کا لازمی حصہ بن گئی۔ زیادہ آسانی کے لیے یہ بھی کیا کہ برطانیہ جاتے ہوئے دو تین فالتو دواتیں ساتھ لے گیا۔ برطانیہ میں زیادہ قیام بابر کے پاس ہوتا ہے‘ لہٰذا یہ دواتیں اس کے پاس رکھوا دیں۔ ایک دوات اس کی دکان پر‘ ایک اوپر والے فلیٹ میں اور ایک اس کے گھر۔ جہاں کالم لکھنا ہوا‘ بیگ سے پین نکالا اور روشنائی بھر لی۔ دوران سفر دیگر شہروں میں قیام کے دوران بیگ والی دوات سے کام چلاتا ہوں۔
دو پین دفتر میں رکھے ہوئے ہیں۔ دو پین لائبریری میں‘ ایک بیڈ روم کی سائیڈ ٹیبل پر‘ ایک ایک پین ہر بیگ میں اور ایک فالتو پین برطانیہ میں۔ یہ سات آٹھ پین ڈیڑھ دو سو روپے مالیت کے ہیں۔ ہر دو تین ماہ بعد کوئی نہ کوئی پین گم ہو جاتا ہے۔ کامران بک سنٹر پر جا کر جب پین مانگتا ہوں تو شیر محمد یا اس کے بیٹے‘ جو بھی کائونٹر پر بیٹھا ہو ڈالر کا پین نکال کر میرے ہاتھ پکڑاتا ہے اور مسکرا کر ہر بار کہتا ہے کہ اب میں کوئی اچھا پین استعمال کرنا شروع کردوں۔ میں ہنس کر پوچھتا ہوں کہ اچھا پین کون سا ہوتا ہے؟ کیا صرف مہنگے پین اچھے ہوتے ہیں؟ وہ بھی ہر بار مسکرا دیتا ہے۔ میں انہیں کہتا ہوں: اچھا پین وہ ہوتا ہے جس سے لکھتے ہوئے آپ آسانی محسوس کریں‘ جس سے لکھنے میں آپ کو مزہ آئے اور مجھے اسی بیس روپے والے پین میں مزا آتا ہے۔ پین کی قیمت بھی میں اندازے سے بتائی ہے‘ مہنگائی کے اس دور میں خدا جانے اس سستے سے پین کی قیمت کیا ہو چکی ہو گی‘ مجھے معلوم نہیں۔ شیر محمد کے پاس میرا کھاتہ چلتا ہے جو بہت پرانا ہے۔ پہلے اس کی دکان گھنٹہ گھر کے پاس تھی‘ تب میں طالب علم تھا۔ شیر محمد نوجوان تھا اور میں بارہ تیرہ سال کا۔ تب ابا جان کے کھاتے میں سکول جاتے یا آتے ہوئے کتابیں‘ کاپیاں‘ پین‘ پنسل اور سٹیشنری کا دوسرا سامان لیا جاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ابا جان کے بجائے میرا اپنا کھاتہ کھل گیا اور بچے اپنے چچا شیر محمد سے کاپیاں‘ پین‘ پنسل اور سٹیشنری لینے لگے۔ یہ کھاتہ اب تک چل رہا ہے‘ میں بھی اسی کھاتے میں سے پین لیتا ہوں اور گم کرتا رہتا ہوں؛ حالانکہ میرا پین سستا سا ہوتا ہے مگر جب بھی پین گم کرتا ہوں‘ کئی دن اسے یاد کرتا ہوں کہ وہ ہاتھ پر چڑھا ہوتا ہے۔ میں اپنے پین عموماً ہوٹلوں میں چھوڑ آتا ہوں اور ظاہر ہے وہاں یہ پین آخری دن چھوڑ کر آتا ہوں‘ اگلے روز شیر محمد سے نیا پین لے آتا ہوں۔ نیا پین دو چار روز کے بعد رواں ہوتا ہے۔ پین ہاتھ کو پہچانتے ہیں۔ جو پین میرے ہاتھ میں روانی سے لکھتا ہے‘ میرے بچوں کو اس سے لکھنا قطعاً پسند نہیں کہ وہ ان سے چلتا ہی نہیں۔ غنیمت ہے کہ اس طرح میرا پین محفوظ رہتا ہے وگرنہ دوسری ہر شے کی طرح روز جگہ سے بے جگہ ہو جاتا۔
چھیالیس سال پہلے مجھے پہلا پین 1968ء میں چھٹی کلاس میں ملا تھا۔ ایگل کا یہ پین تب شاید آٹھ آنے میں آیا تھا۔ پچاس پیسے تب آٹھ آنے کہلاتے تھے۔ ان چھیالیس برسوں میں صرف اتنا فرق آیا ہے کہ سکول میں‘ میں نیلی روشنائی سے لکھتا تھا اور اب کالی سے لکھتا ہوں۔ یہ سلسلہ چالیس برس سے جاری ہے۔ دوسرا فرق یہ پڑا کہ اب ایگل پین کی ہوبہو کاپی ڈالر کا پین ہے‘ اب وہ استعمال کرتا ہوں۔ میں مہنگا پین صرف اس لیے استعمال نہیں کرتا کہ یہ مہنگا ہوتا ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اردو لکھنے کے لیے اس پین کی نب سے بہتر نب کم از کم مجھے تو کوئی نہیں لگتی۔ ایک بار برادر عزیز ہارون الرشید نے ایک قیمتی پین دیا۔ میرا تو اس پین کی قیمت سن کر ''تراہ‘‘ نکل گیا۔ میں نے پہلی فرصت میں اس پین سے اپنی جان اس طرح چھڑوائی کہ ایک شوقین دوست کو تحفتاً دے دیا۔ وجہ یہ تھی کہ اگر گم ہو گیا تو کئی روز ملال رہے گا کہ بیس پچیس ہزار روپے کھو گئے۔ تحفہ دے کر اس متوقع افسوس سے نجات تو ملی ہی‘ تحفہ دینے کی خوشی اس کے علاوہ حاصل ہوئی۔ راچڈیل میں مقیم نامور قانون دان امجد ملک نے مونٹ بلانک کا پین دیا‘ وہ بھی میں نے اسی طرح آگے چلا دیا۔ مجھے پتا تھا‘ میرے پاس یہ پین صرف تین چار ماہ چلیں گے اور پھر اس سے زیادہ عرصے کا ملال گلے پڑ جائے گا۔ میں نے سستے میں جان چھڑالی۔ میں کوئی درجن بھر پین آگے چلا چکا ہوں۔
گزشتہ چار دن سے میرے پین میں روشنائی ختم ہو چکی تھی اور میں اس کی تلاش میں تھا۔ پہلے روز عہد آفرین کہنے لگا کہ انکل کوئی مسئلہ نہیں میں شام کو دوات لے آئوں گا۔ رات اس نے بتایا کہ ہوم ڈپو‘ سی وی ایس‘ وال گرین اور گھر کے ساتھ والے سپر سٹور سے تو روشنائی نہیں ملی مگر فکر نہ کریں کل میں وال مارٹ سے لے آئوں گا۔ وال مارٹ کی ویب سائٹ پر میں نے چیک کیا ہے‘ وہاں یہ موجود ہے۔ اگلے روز شدید برفباری کے باعث دن بھر گھر سے نہ نکل سکے۔ رات کو ہم دونوں وال مارٹ گئے‘ ان کا سٹیشنری کا سیکشن چھان مارا مگر روشنائی ندارد۔ کسٹمر سروسز والے کائونٹر پر جا کر پتا کیا تو معلوم ہوا کہ اس سٹور میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ شہر میں دوسرے سٹورز کا سٹاک چک کروایا‘ وہاں بھی نہیں تھی۔ کہنے لگا‘ آپ لکھوا دیں ایک ہفتے تک آ جائے گی۔ اگلے روز گوگل پر سیاہی کی تلاش شروع کردی۔ دو تین جگہوں پر موجود تھی۔ دوات کی قیمت تین ڈالر سے بارہ ڈالر اور ڈاک کا خرچہ نو ڈالر سے تیرہ ڈالر تک تھا۔ تین ڈالر والی دوات کا پتہ کیا تو جواب ملا کہ پانچ سے سات دن کے درمیان ملے گی اور ڈاک کا خرچہ نو ڈالر ہوگا۔ باقی تو سب ٹھیک تھا مگر پانچ سے سات دن کا سن کر
ارادہ بدل دیا اور ایک بار پھر گوگل پر تلاش شروع کردی۔ کافی محنت کے بعد پتا چلا کہ ''سٹیپلز‘‘ پر موجود ہے اور دس ڈالر نوے سینٹ میں مل جائے گی۔ نماز جمعہ کے بعد شدید برفباری شروع ہو گئی‘ اس برفباری میں جبکہ باہر درجہ حرارت منفی چودہ ڈگری سینٹی گریڈ تھا میں اور عہد سٹیپلز گئے۔ پورے سٹور کو چھان مارا مگر دوات نظر نہ آئی۔ کائونٹر پر گئے تو انہوں نے سٹاک چیک کر کے بتایا کہ ایک دوات ہر حال میں ہونی چاہیے۔ ایک کونے کے اندر سے دبی ہوئی ایک دوات ملی۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ نہ صرف روشنائی مل گئی بلکہ مزید خوشی اس بات کی ہوئی کہ یہ کالی روشنائی کی دوات تھی۔ آج جونہی روشنائی ملی ہے کالم لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ صرف اس ایک بے ضرر عادت نے چار دن خوار کیے رکھا۔
میں بتا رہا تھا کہ بعض اوقات عادتیں انسان کو بڑا خوار کرتی ہیں۔ مجھے آج احساس ہوا ہے کہ ہمارے بار بار آنے والے حکمران ٹھیک کیوں نہیں ہوتے؟ وہ ہر بار ویسے ہی کیوں ہوتے ہیں جیسے پچھلی مرتبہ تھے؟ عادتیں چھوڑنا خواہ وہ بے ضرر قسم کی ہی کیوں نہ ہوں بہت مشکل ہوتا ہے‘ کجا کہ ایسی عادتیں چھوڑی جائیں جو اپنی ذات کے لیے سراسر فائدہ مند بھی ہوں۔ حکمران اس شغل میں اپنے پورے خاندان سمیت کود پڑتے ہیں اور خوار ہوتے ہیں۔ آصف زرداری مع ہمشیرہ و منہ بولے بھائی مصروف کار رہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کا ساران خاندان اسی کام میں مصروف رہا۔ راجہ پرویز اشرف کے پاس وقت کم تھا مگر جذبہ ان کا بھی جوان تھا۔ پرویزالٰہی کے دور میں مونس الٰہی نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا تو غیروں سے بھی منوایا۔ اور اب تو معاملہ خاندان سے نکل کر پوری برادری تک پھیل چکا ہے۔ مگر کیا کیا جائے؟ عادتیں انسان کو بہت خوار کرتی ہیں۔ لیکن کیا ہو سکتا ہے؟ سیانے کہتے ہیں کہ ''عادتیں سروں کے ساتھ جاتی ہیں‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved